مسجد نبوی اور بلند آواز۔۔رعایت اللہ فاروقی

ارشاد باری تعالی ہے
“اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کیا کرو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہوجائیں اور تمہیں خبر ہی نہ ہو”
(سورہ حجرات/ آیت نمبر 2)
جب یہ وحی نازل ہوئی تو حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اپنے گھر پر گوشہ نشین ہوگئے۔ ہر وقت روتے اور کہتے، میں جہنمی ہوگیا۔ کچھ دن انہیں مسجد نبوی میں نہ پا کر رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ان کی خیریت دریافت فرمائی۔ حضرت سعد نے بتایا کہ یا رسول اللہ وہ میرے پڑوسی ہیں۔ میں نے ان کی بیماری کا تو نہیں سنا، میں جا کر خبر لے آتا ہوں۔ وہ حضرت ثابت بن قیس کے گھر پہنچے اور حال پوچھا تو حضرت ثابت نے فرمایا کہ تم تو جانتے ہو میری آواز قدرتی طور پر دوسروں سے بلند ہے۔ لہذا میں تو جہنمی ہوگیا اور اب مجھے یہی غم کھائے جا رہا ہے۔ حضرت سعد واپس مسجد نبوی آئے اور رسول اللہ ﷺ سے ساری تفصیل عرض کردی۔ اس پر اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت سعد سے فرمایا، جاؤ انہیں میری طرف سے بتاؤ کہ وہ جنتی ہیں۔

یہی آیت ہے جس کے نزول کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، یا رسول اللہ میں آئندہ آپ سے سرگوشی میں بات کیا کروں گا۔

یہی آیت ہے جس کے نزول کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مستقل معمول یہ بن گیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ سے بات اتنی دھیمی آواز میں فرماتے کہ بسا اوقات رسول اللہ ﷺ کو دوبارہ پوچھنا پڑ جاتا تھا۔

حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا مجھے ایک شخص نے کنکری ماری ۔ میں نے دیکھا تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ تھے ۔
فرمایا : ان دو آدمیوں کو میرے پاس لے کر آؤ ۔
میں لے کر گیا تو آپ نے ان سے پوچھا : تم دونوں کہاں کے ہو؟
انہوں نے کہا : طائف سے ہیں ۔
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر تم مدینہ کے ہوتے تو تمہیں سزا دیتا ۔ تم رسول اللہ کی مسجد میں آواز بلند کررہے ہو!!
(صحیح بخاری ۔ رقم : 470)

کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ آیت اور روایات تو اس صورتحال سے متعلق ہیں جب آپ ﷺ حیات تھے۔ اس دنیا میں موجود تھے۔ لہذا اب شاید گنجائش موجود ہو تو ایسا ہرگز نہیں۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ مسجدنبوی میں درس دیا کرتے تھے۔ آواز دھیمی ہوتی جس سے پچھلی صف والے شاگرد سن نہ پاتے تھے۔ چنانچہ ایک شاگرد نے تجویز دی کہ آپ کسی بلند آواز شخص کی ذمہ داری لگا دیجئے کہ وہ آپ کا کہا بلند آواز سے پوری مجلس تک پہنچا دیا کرے۔ اس پر امام مالک نے فرمایا کہ سورہ حجرات والی آیت کا اب بھی وہی حکم ہے جو دور رسالت میں تھا۔ اس مسجد میں آواز بلند نہیں کی جاسکتی۔ اور یہی دیگر فقہاء کا بھی موقف ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مسجد حرام میں تو ہمیں لوگ بیٹھے باہمی گفتگو کرتے نظر آتے ہیں لیکن مسجد نبوی میں مکمل خاموشی ہوتی ہے۔ لوگ آپس میں کوئی ضروری بات بھی سرگوشیوں میں کرتے ہیں۔ مسجد نبوی میں ایک ہلکی سی گونج صاف محسوس ہوتی ہے مگر یہ تلاوت اور درود شریف کی گونج ہوتی ہے۔ یہ تو مسجد نبوی کی صورتحال ہے ورنہ شہر مدینہ کا بھی لوگوں نے اس درجہ احترام کیا ہے کہ بعض فقہاء نے اپنی پوری زندگی میں اس شہر میں جوتی نہیں پہنی۔ کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا، میں ڈرتا ہوں کسی ایسی جگہ میری جوتی نہ پڑ جائے جہاں رسول اللہ ﷺ کے قدم مبارک پڑے ہوں۔

سو میرے عزیز ! یہ بات اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجئے کہ نہ تو مدینہ منورہ لاہور ہے اور نہ ہی روضہ رسول داتا دربار

جاتے جاتے ایک بات اور عرض کردوں۔ آپ اللہ سے ایمان کی حالت میں شکوہ شکایت بھی کر سکتے ہیں۔ تھوڑا الجھ بھی سکتے ہیں۔ مثلاً  بے قرار ہو کر اس سے کہدیں “اے اللہ تو میری سنتا کیوں نہیں ؟” کوئی مفتی آپ پر اللہ کی توہین کا فتوی نہیں لگائے گا۔ لیکن یہی جملہ کوئی اللہ کے رسول ﷺ سے کہہ دیتا تو اپنی گردن تن سے جدا پاتا۔ اللہ کے محبوب ﷺ کے معاملے میں حد درجہ محتاط رہا کیجئے۔ اس معاملے میں غفلت اللہ سبحانہ و تعالی کسی صورت برداشت نہیں فرماتے !
با خدا دیوانہ باش و با محمد ﷺ ہوشیار

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

رعایت اللہ فاروقی
محترم رعایت اللہ فاروقی معروف تجزیہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کے ٹاپ ٹین بلاگرز میں سے ہیں۔ تحریر کے زریعے نوجوان نسل کی اصلاح کا جذبہ آپکی تحاریر کو مزید دلچسپ بنا دیتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply