بھوک کا دن۔۔ہما

ہم سب جانتے ہیں کہ کرونا وائرس اور اس کی تباہ کاریوں سے سب سے پہلے متاثر ہونیوالا ملک چائنہ بہت زیادہ مالی اور جانی نقصان اٹھانے کے بعد اب بہتری کی جانب گامزن ہے۔جب تک یہ مہلک مرض صرف چائنہ تک محدود تھا، کچھ ممالک کیلئے تو یہ باعث تشویش تھا  اور کچھ کیلئے عذاب  جمع تمسخر تھا، لیکن جوں جوں اس وائرس نے بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے سب کو اپنا شکار بنانا شروع کیا تو لوگوں کے اوسان بحال ہوئے اور وہ سیدھے راستے کی طرف یعنی حل کی طرف نظریں جمانے لگے۔

چائنہ کے علاوہ اس موذی وباء کا شکار ہونے والے ممالک کی تعداد اَن گنت ہے، لیکن شرح اموات کے لحاظ سے اب تک اٹلی سب سے  زیادہ متاثر ملک ہے، جہاں وائرس سے 6708 ہلاکتوں کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے کنفرم کیس تین لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئے۔ ہلاکتوں کی تعداد تقریباً 15000 ہزار اور اس بیماری سے صحتیاب ہونے والوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ ہے۔
پاکستان بھر میں کرونا وائرس کے مصدقہ کیسز کی تعداد 875 ہوگئی ہے۔ اب تک 6 افراد کرونا وائرس کے باعث ہلاک جبکہ 4 مریض صحتیاب ہوکر گھر لوٹ چکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل سربراہ ٹیڈرس ایڈہانم گھیبریوسس نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وباء میں تیزی آ رہی ہے لیکن اس رجحان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

لیکن قابو پانے کا جو واحد حل اب تک ماہرین کے پاس ہے وہ اپنے آپ کو اپنے گھر تک محدود رکھنا، لوگوں سے میل جول ایک مقررہ وقت تک ختم کردینا ہے۔۔۔دنیا بھر میں بیشتر ممالک اس فارمولے پر عمل کے تحت اپنے ممالک کو لاک ڈاؤن کرچکے ہیں تاکہ اپنے شہریوں کو چائنہ، اٹلی اور ایران کے شہریوں کی طرح مرنے سے بچاسکیں۔

پاکستان میں مصدقہ کیسز کے باوجود لاک ڈاؤن کے سلسلے میں تعطل سے کام لیا گیا ،وزیراعظم کے مطابق لاک ڈاؤن کی صورت میں جو طبقہ سب سے  زیادہ متاثر ہوگا وہ دیہاڑی دار مزدور ہے،
وزیراعظم صاحب اپنی ذمہ داریوں سے راہ اختیار فرار کرتے ہوئے بالکل سچ فرمارہے تھے کہ ان کے پاس لوگوں کو حکومتی خزانے سے کھلانے کیلئے کچھ موجود نہیں تو کیا وزیراعظم صاحب آپ کے پاس کرونا سے متاثر ملک کو سنبھالنے کے انتظامات ہیں، ہسپتال ، ادویات، ڈاکٹرز، وینٹی لیٹرز اور سب سے آخر قبرستان؟
کیا آپ کے قبرستانوں میں اتنی گنجائش ہے کہ خدانخواستہ اس آفت سے متاثر ہونے کے بعد لوگ سکون سے سو سکیں؟

بہرحال وزیراعظم کے برخلاف سندھ حکومت اور اب دوسری صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ہے اور امید دلائی ہے کہ مستحق لوگوں تک راشن کا انتظام وہ کریں گے۔یہ لاک ڈاؤن اس وقت سندھ میں پوری طرح نافذ ہوچکا ہے ،کراچی شہر جو کہ دن رات چلتا رہتا ہے اور وہاں ان گنت دیہاڑی دار مزدور بستے ہیں اس وقت معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔

ہم مسلمان بحیثیت مسلمان کرونا پر بہت بحث و مباحثیں کرچکے جب وہ غیر مسلم ممالک میں تھا تو اسے اللہ کا عذاب بتارہے تھے، اور مسلمانوں کی فوقیت پر فخر کررہے تھے لیکن جونہی یہ وائرس مسلم ممالک اور پاکستان تک پہنچا تو ہم اس کے بارے میں نئی تاویلیں گھڑنے لگے۔

وباء کے دنوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا جائزہ لیں تو ہر جگہ وہی احتیاط ملتی ہیں جو آج کرونا سے متعلق ڈاکٹرز تجویز کررہے ہیں۔بعض علماء کے مطابق یہ اللہ کی آزمائش ہے اور ہمیں ذیادہ سے زیادہ مل جل کر رہنا اور استغفار کرنا چاہیے۔

یقیناََ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوسکتی ہے، قرآن کریم کی سورہ بلد کی آیت کے مصداق وہ مشکل اور دشوار گزار گھاٹی ہوسکتی ہے جس کے بارےمیں ہم بالکل لاعلم ہیں؟؟؟
اللہ کریم سورہ بلد کی آیت نمبر 12 انسان سے سوال کرتا ہے
وماادرک ماالعقبہ ۔اور تم کیا جانو کہ وہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے؟؟؟…
اسی سورہ کی پچھلی گیارہ آیات میں انسان پر اللہ کے احسان واضح کئے گئے اس کی ہٹ دھرمی بتائی گئی اور پھر کہا گیا کہ انسان دشوار گزار گھاٹی سے نہیں گزرا،اور درحقیقت انسان جانتا ہی نہیں دشوار گزار گھاٹی ہے کیا؟

ہمارے چند علماء بضد رہے کہ ہمیں مجالس کی اجتماع کی اجازت دی جائے، ایک وائرس سے ڈر کر بیٹھنا اللہ کی اجتماعی عبادت کو ترک دینا ایمان کی کمزوری سے تعبیر کیا گیا
کیا دشوار گزار گھاٹی یہ ہے؟
دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے والوں کو اللہ کریم سورہ بلد کی آخری آیات میں دائیں ہاتھ والوں میں شمار کررہا ہے، دائیں ہاتھ والے یعنی متقین جو جنت کے اعلی سایوں کے اور انواع و اقسام کے حقدار ہوں گے۔
آخر یہ دشوار گزار گھاٹی کیا اللہ کی مشترکہ عبادت، حج، نماز ،روزہ یا اجتماعی استغفار پر مبنی ہے
ہر گز نہیں
اللہ کریم فرماتا کہ تم کیا جانو کہ دشوار گزار گھاٹی کیا ہے؟؟؟؟
اور اگلی دو آیات اختصار سے  فرماتا ہے
فک رقبہ ۔۔۔کسی کو آزاد کروانا
او اطععم فی یوم ذی مسغبہ، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا
کسے؟؟؟
یتیما ذا مقربہ رشتے دار یتیم کو
او مسکینا ذا متربہ
یا مٹی میں ملے ہوئے مسکین کو
لب لباب پاکستان میں اس وقت بھوک کا دن ہے، ایسی بھوک کا دن جس کی کلی ذمہ داری ریاست اٹھانے سے بہت سی وجوہات کی بناء پر قاصر ہے۔تو جو کوئی مذہب اسلام کا پیروکار ہے تو اسے یقینی طور پر ہر عبادت سے بڑھ کر اس دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اپنے طور پر غرباء اور مساکین کا جو راشن کے منتظر ہیں خیال رکھیں یا پھر ان لوگوں کا ساتھ دیں جو اس بھوک کے دن میں لوگوں تک طعام پہچانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں ۔اس وقت کراچی کے بہت سے فلاحی ادارے عوام کی ہر ممکن مدد کرنے کے خواہاں ہیں لیکن یہ سب آپ کے تعاون سے جلد از جلد ممکن ہوسکے گا ۔

بہت سے بہترین فلاحی اداروں  کی طرح Foundation fighting poverty بھی عبداللہ احسان سید کی سربراہی میں  اس وقت کراچی کے بہت سے علاقوں میں اپنی بساط کے مطابق راشن کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کررہی ہے اپنے عطیات فاؤنڈیشن فائٹنگ پاورٹی کو دے کر اس کارخیر میں ان کے معاون بنئے اور ایک عظیم آزمائش میں سرخرو ہونے کا تاج اپنے سروں پر سجائیے                                      http://www.ffppk.org/

Advertisements
julia rana solicitors

جب کہ عطیات جمع کروانے کیلئے  رابطہ کیجئے                                                                                                                                                                                                                                                                                                    0337-8028418

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply