شلوار قمیض میں ملبوس دراز قد، بھورے بال کے ساتھ بھوری مونچھ والا سیدھا سادہ ہمارا چوکیدار، محمد علی۔ غالباً 2010 میں وہ ہمارے یہاں ملازم ہوا۔ آج لگ بھگ موصوف کو ہمارے پلازہ میں 9 سال ہوچکے ہیں۔ ان نو سالوں میں ان کی شخصیت میں ایسے تو کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی، ہاں مگر پیٹ ان کا ہر گزرتے دن کے ساتھ بلند ی کی طرف جارہا ہے۔ آپ نے یقیناً ہمارے پٹھان بھائیوں کے لطائف ضرور سُن رکھے ہوں گے۔ مگر یقین کریں ہمارے محمد علی چلتا پھرتا خود ایک لطیفہ ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہم اہل خانہ کے ساتھ کاسموس میں رہائش پذیر تھے۔ اتوار کا دن تھا اور ہمارے گھر کچھ خاص مہمانوں کا نزول ہوگیا۔ تو ہماری والدہ نے ہمارے بھانجے سے کہا ذرا نیچے لالا کو آواز دے کر اوپر بلالو۔ اپنی نانی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بھانجے صاحب نے آواز دے کر محمد علی کو اوپر بلایا تو موصوف حکم کہ تعمیل کرتے ہوئے ہمارے زینے پر چڑھے اور بیل بجائی تو ہماری والدہ نے ہی دروازہ کھولا اور ان سے کہا گھر میں مہمان آگئے ہیں ،ان کے لئے سامنے انچولی سے ایک کلو گلاب جامن لےکر آؤ۔۔ مگر ذرا جلدی آنا۔
محمد علی نے پیسے امی کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا، اماں ابھی لا کر دیتا ہے۔ اَم نیچے سے آواز دے گا تو ٹوکری نیچے کردینا۔ دھیان رہے ان دنوں اوپری منزل پر رہنے واے آسانی کے لئے نیچے رسی سے باندھ کر ٹوکری لٹکا کر رکھا کرتے تھے۔
خیر اس کو پیسے دیکر ہماری والدہ نے ہماری ہمشیرہ کو کہا چائے اور ناشتے کا سامان نکال کر رکھو ،محمد علی گلاب جامن لے کر آرہا ہے۔ سسٹر نے جلدی جلدی چائے تیار کی اور گھر میں موجود ناشتے کے سامان کو پلیٹوں میں سجایا اور ٹرے تیار کردی کہ بس گلاب جامن آجائیں تو پھر چائے بھی نکال کر ناشتے کی ٹرالی مہمانوں کے سامنے لیجائی جائے۔۔۔۔ محمد علی کے انتظار میں دس منٹ گزر گئے پھر دس سے پندرہ منٹ اور پھر آدھا گھنٹہ ہوگیا مگر بھائی محمد علی کی آمد نہیں ہوئی۔ چائے دم پر لگ لگ کر خراب ہونے لگی تھی مگر محمد علی نہیں آئے۔
ہمیں والدہ نے حکم دیا نیچے آواز دے کر دیکھو کہیں نیچے ہی نہ بیٹھ گیا ہو۔ ہم نے گلا پھاڑ پھاڑ کر لالا۔ محمد علی کرکے آواز دی اور جھانک کر اس کی کھولی میں دیکھا مگر وہ ہمیں کہیں نظر نہیں آئے۔
تقریبا ً50 منٹ انتظار کرنے کے بعد مجبوراً والدہ نے کہا چلو گلاب جامن کے بغیر ہی ٹرالی سجاکر لے آؤ۔۔ تو بہن نے چائے اور ناشتے کی ٹرالی مہمانوں کے آگے کردی۔
چائے وغیرہ پینے کے بعد مہمانوں نے رخصت لی کیونکہ ان کو پہلے ہی بہت دیر ہوچکی تھی۔
مہمانوں کی رخصتی کے بعد تقریبا ًایک گھنٹے سے زیادہ گزر چکا تھا، ہمیں اب پریشانی ہونے لگی کہ ہم نے اس کو سڑک عبور کرکے گلاب جامن لانے کے لئے بھیجا تھا ،کہیں خدا نا خواستہ وہ کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہوگیا۔ کیونکہ ہمارے مین گیٹ سے نکل کر صرف سڑک پار کرنا ہوتا تھا اور سامنے ہی شیریں محل تھی ،جہاں گلاب جامن ملتے تھے۔ ہم بار بار گیلری میں جاکر اس کی کھولی میں جھانکتے تو خالی ہی نظر آتی۔پھر ہم نے کہا چلو کپڑے تبدیل کرکے نیچے دیکھ کر آتے ہیں اور قریبی ہسپتال میں معلوم کرتے ہیں۔ ہم دل ہی دل میں اس کی حفاظت کے لئے دعا مانگ رہے تھے۔ ہم کپڑے بدلنے کا ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک دروازے کی چڑیا والی مخصوص بیل گونج اُٹھی۔ ہم نے دروازہ کھولا تو پسینے میں شرابور ہانپتے کانپتے محمد علی کھڑے تھے۔
ہم نے ان سے پوچھا بھائی کیا ہوا خیریت تو ہے۔ کہاں چلے گئے تھے طبیعت تو خراب نہیں ہوگئی۔اتنا ٹائم کہاں لگایا؟
ہمارے منہ سے اتیا،نے سارے سوالات سن کر بھائی محمد علی نے کہا سیٹھ سامنے نہیں ملا، تو ہم پیدل چلتا ہوا آگے گیا النور تک گیا،وہاں بھی نہیں نظر آیا، پھر یوسف پلازہ دیکھا نہیں ملا۔
ہم حیرت سے اس کی بات سن رہے تھے اور پریشان ہورہے تھے کیا گلاب جامن پر کوئی پابندی وغیرہ تو نہیں لگ گئی جو اس کو کہیں نہیں مل پارہا تھا۔ اسی سوچ میں ہم نے اس سے پھر سوال کیا ۔۔۔پھر۔؟ سیٹھ پھر ہم واٹر پمپ گیا وہاں ایک جگہ تھا مگر مہنگا تھا پھر تھوڑا آگے گیا تو بڑی مشکل سے ملا سیٹھ۔ ہم نے اللہ کا شکر اداء کیا چلو ہم تو ڈر رہے تھے کہیں کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔ ہم نے اس سے پانی وغیرہ کا پوچھا اور کہا اب تو ڈبہ دیدو، اب تو مہمان بھی واپس چلے گئے۔ ہم نے دروازے پر کھڑے کھڑے اپنے بھانجے کو آواز دی محمد علی کو پانی لاکر دو۔
ہمارا بھانجا فوراً ہی بوتل اور گلاس لیکر آگیا ،ابھی ہم اس کو پانی نکال کر دے ہی رہے تھے محمد علی نے کالے رنگ کا شاپر ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم نے اس کو پانی پلایا اور شاپر ہاتھ میں لیا اور اندر جھانک کر دیکھا تو وہ شاپر گلاب جامن کی جگہ جامن پھل سے بھرا پڑا تھا، جامن دیکھتے ہی ہم نے پوچھا محمد علی یہ کیا ہے؟
صاب جامن ہے ایک نمبر ہے۔ کھا کر دیکھو میٹھا ہے۔ ہم چیک کر کے لایا ہے صاب۔ اس کی بات سن کر ہم نے اپنا سر پیٹ لیا اور اب ساری صوتحال ہم سمجھ چکے تھے موصوف کو دیر کیوں لگی۔ جو گلاب جامن کی جگہ جامن ڈھونڈ رہے تھے وہ بھی بے موسم ۔۔ مگر کمال ہے وہ بے موسم میں بھی جامن ڈھونڈ لائے۔ جب ساری صورتحال گھر والوں کے سامنے آئی تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔
موصوف کا اس ہی طرح کا دوسرا واقعہ کچھ یوں ہے اس دن ہم گھر پر ہی تھے اور دفتر نہیں گئے تھے۔ تقریبا ًتین بجے کے قریب ہمارے باس کی کال آگئی کہ ہم تمھاری طرف آرہے ہیں تم نیچے اتر آو کچھ ضروری امور پر گفت و شنید کرنی ہے اور ہمارے ساتھ ڈائریکٹر صاحب بھی ہیں۔ باس کا حکم سنتے ہی ہم فون بند کرکے شاور لینے واش روم بھاگے اور پانچ منٹ میں شاور لیکر نکل آئے جینز اور ٹی شرٹ چڑھائی اور نیچے آکر باس کا انتظار کرنے لگے۔
دور سے ہی ہمیں ان کی لینڈ کروزر تیزی سے ہماری طرف آتی نظر آئی۔ شاید انھوں نے ہمیں دور سے ہی تاڑ لیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے سینئر ڈائریکٹر بھی تھے جو ہمارے بڑے باس تھے۔ انھوں نے گاڑی سے اترتے ہی کہا ،بیٹا سلمان گاڑی کا اے سی کام نہیں کررہا تو اندر تو بیٹھ نہیں سکتے کوئی قریب چائے کا ہوٹل ہو تو وہاں بیٹھتے ہیں۔
ہم نے ان کو تجویز دی اوپر گھر پر چل کر بیٹھتے ہیں کہنے لگے نہیں بیٹا ہمیں جلدی ہے اوپر ٹائم لگ جائے گا۔
تو ہم ان کو لیکر محمد علی چوکیدار کی کھولی میں آگئے جہاں محمد علی دیوار سے سر لگائے کرسی پر بیٹھے کسی گہری سوچ میں تھے۔ مگر ہمیں دیکھتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور دعا سلام کے بعد ہم نے اپنے مہمانوں کا ان سے تعارف کروایا۔ اور جیب سے بٹوہ نکال کر اس میں سے 500 روپے کا نوٹ نکال کر بھائی محمد علی کو تھمایا اور کہا پٹھان سے اسپیشل دودھ پتی چائے لے آؤ،اور یوسف پلازہ کے سامنے مدنی بیکری سے ایک پاؤ بسکٹ لے لینا۔
محمد علی کو روانہ کرکے ہم اپنے افسران سے میٹنگ میں مشغول ہوگئے۔ ابھی ہماری بات چیت جاری ہی تھی کہ اتنے میں محمد علی ہاتھ میں چینک اور کپ تھامے اندر داخل ہوئے جس کو دیکھتے ہی ہمارا پارہ چڑھ گیا کہ ہم نے ان سے اسپیشل چائے منگوائی تھی اور یہ دو چائے کا چینک لیکر داخل ہورہے ہیں۔ ہمیں غصہ تو بہت آیا مگر مہمانوں کے سامنے خود پر کنٹرول رکھنا ہی مناسب تھا۔ خیر انھوں نے کپ میں چائے نکال کر مہمانوں کو دی تو ہم نے سوال کیا بسکٹ کہاں ہیں بھول گئے کیا؟ نہیں صاب لایا ہے۔ انھوں نے الماری سے پلیٹ نکالی اور ہمارے مہمانوں کے آگے رکھ دی پھر بڑی نفاست سے لفافہ نکالا اور لفافہ کھول کر پلیٹ میں انڈیلا تو دیکھا پلیٹ میں بسکٹ کی جگہ” پاپے” نکلے۔۔۔۔
ہم نے مہمانوں کی موجودگی کا خیال کیے بغیر غصے سے اس سے بولا تم سے بسکٹ منگوائے تھے۔ تم یہ کیا لائے ہو؟ بسکٹ لایا ہے صاب یہ بھی بسکٹ ہے لمبا والا بسکٹ ہے تازہ ہے۔ بلب میم رکھا ہوا تھا دیکھو گرم ہے۔ ہلکا میٹھا ہے۔ ابھی ہم اس کو کچھ مزید بولتے اس سے پہلے ہی ہمارے مہمانوں کی ہنسی چھوٹ گئی اور وہ ہنس ہنس کر پاگل ہوگئے۔ اور اس کی سادگی و معصومیت کی تعریف کرتے ہوئے ہم سے رخصت لیکر روانہ ہوگئے
یہ ہیں ہمارے بھائی محمد علی چوکیدار۔ جو انتہائی سیدھے اور معصوم پٹھان ہیں۔ مگر ایک بات ہے ڈیوٹی کے معاملے میں وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ بہت محنت اور جانفشانی سے اپنی ڈیوٹی کرتے ہیں اور رزق ہلال کھاتے ہیں۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں