سجاتا آنندن،مظلوموں کی آواز خاموش ہوگئی/معصوم مرادآبادی

برادرم دانش ریاض کی پوسٹ سے یہ اندوہناک اطلاع ملی ہے کہ ممبئی کی سرکردہ انگریزی صحافی سجاتا آنندن کا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔ انھوں نے ممبئی کے اپولو اسپتال میں آخری سانس لی۔ ابھی دودن پہلے کی ہی تو بات ہے کہ ممبئی میں برادرم سرفراز آرزو سے کافی دیر تک سجاتا کی فتوحات کا ذکر ہوا تھا۔ میں نے ان کے انتقال کی خبر پڑھ کر پہلا فون سرفراز آرزو کو ہی کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ہاں خبر درست ہے۔ ان کا انتقال اپولو اسپتال میں ہوا ہے۔ جنازہ ان کے آبائی وطن ناگپور لے جایا جارہا ہے۔وہیں ان کی آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ سجاتا غیر شادی شدہ تھیں اور انھوں نے اپنی زندگی بے باک اور بے لاگ صحافت کو وقف کردی تھی۔

سجاتاآنندن انگریزی روزنامہ ”ہندوستان ٹائمز“ کے ممبئی ایڈیشن کے پولیٹیکل ایڈیٹرکے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد آزادانہ کالم نویسی کررہی تھیں۔ ان کا شمار ممبئی کے انتہائی باخبر صحافیوں میں ہوتا تھا۔ وہ صحافت میں غیرجانبدار تو تھیں، لیکن اس کے ساتھ مظلوموں اور مجبوروں کی طرف دار بھی تھیں۔ اس کی گواہ ان کی سیکڑوں تحریریں ہیں۔ انتہائی معتدل اور سیکولر سوچ کی حامل سجاتا نے مسلم مسائل پر جب بھی قلم اٹھایا نہایت بے باکی کے ساتھ لکھا اور سچائی کو بے نقاب کرنے سے پرہیز نہیں کیا۔ انھوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں اور ہر کتاب میں اپنی باخبری اور غیرجانبداری کا ثبوت دیا۔ مہاراشٹر کی سیاست اور وہاں کے سیاست دانوں کے بارے میں انھیں جو معلومات تھیں وہ شاید ہی کسی دوسرے صحافی کو ہوں۔

یوں تومیں نے ان کا نام پہلے سے ہی سن رکھاتھا، لیکن انھیں قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع اس وقت زیادہ ملا جب ہم لوگوں نے 2010 میں برٹش حکومت کی دعوت پر برطانیہ کا سفر کیا۔ سجاتا ممبئی سے براہ راست لندن پہنچیں تھیں اور ہم لوگ دہلی سے لندن روانہ ہوئے تھے۔ان سے لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر ملاقات ہوئی تو بڑے تپاک سے ملیں۔ہندوستانی صحافیوں کے اس گروپ میں سری نگر سے میرے دوست شجاعت بخاری بھی تھے، جنھیں بعد میں   دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا۔

سجاتا نہایت سلجھی ہوئی طبیعت کی خاتون تھیں اور ان کا نظریہ شفاف پانی کی طرح اُجلا تھا۔ برطانیہ کے سفر کے دوران ہم نے درجنوں میٹنگیں کیں اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ میں نے سجاتا کو ہمیشہ حق کا طرفدار پایا۔ کسی دباؤ کے بغیر وہ حق گوئی سے کام لیتی تھیں۔ اب یوں ہوگیا تھا کہ ممبئی کی پریس کانفرنسوں میں بے باکی سے سوالات کرنے والی وہ اکیلی صحافی بچی تھیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ بیشتر صحافیوں نے اپنی وفاداریاں حاکمانِ وقت کے ساتھ وابستہ کرلی ہیں سجاتا ہمیشہ حکمران وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے تیکھے سوال پوچھتی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سجاتا آنندن کا صحافتی سفر تین دہائیوں سے زیادہ عرصے پر  محیط ہے۔ انھوں نے ممبئی میں اپنا کیریر روزنامہ”انڈین ایکسپریس“ سے شروع کیا تھا۔وہ نیوز میگزین ”آؤٹ لک“ اور خبررساں ایجنسی یو این آئی سے بھی وابستہ رہیں۔ ان کی شناخت ایک ایسے سیاسی تجزیہ نگار کے طورپر بڑی مستحکم تھی جواندر کی خبر رکھتی تھیں۔ایک بہترین تجزیہ نگار کے طورپر انھوں نے دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں،حادثات، تنازعات اورتصادموں کا مشاہدہ کیا۔انھوں نے شیوسینا کا عروج وزوال بہت قریب سے دیکھا اور ”سمراٹ“کے عنوان سے بال ٹھاکرے پر ایک ضخیم کتاب بھی لکھی تھی جس میں شیوسینا اور بال ٹھاکرے کی اصل سیاست کی نقاب کشائی کی تھی۔وہ شردپوار اور ان کی سیاست کو بھی بہت قریب سے جانتی تھیں۔”مراٹھی مانوس“ اور ”مہاراشٹر“ کے عنوان سے بھی انگریزی میں ان کی کتابیں منظرعام پر آئیں۔مجموعی طورپر سجاتا ایک بہترین انسان، قابل فخر صحافی اور سماجی خدمت گار تھیں۔اوپر والا ان کی آتما کو شانتی دے۔
سجاتا کے ساتھ یہ تصویر لندن کی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply