میاں محمد نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے رجسٹر پر دستخط کر دیئے۔ بھائی کو دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنوا دیا۔ اس شخص کے پاس کون سی گیدڑ سنگی ہے۔ تین مرتبہ وزیر اعظم رہا، چوتھی بار زرداری حکومت میں بھائی کو وزیر اعلی پنجاب بنایا، پانچویں مرتبہ بھائی کو وزیر اعظم بنایا اور اب چھٹی بار وفاق اور پنجاب پر حکمرانی کے دستخط کر رہا ہے۔ اس سے حسد تو بنتا ہے پر اس باررشک پر ہی اکتفا کر لو۔
2018ء میں عمران خان کو جس کھلی دھاندلی اور دھونس سے جتوایا گیا تھا وہ بھی دنیا نے دیکھا تھا۔ تب پی ٹی آئی کا عشق کہاں غرق تھا؟ 2024ء کے حالیہ الیکشن بھی خان سے عشق نہیں بلکہ 9مئی کی گرفتاریوں کا رد عمل تھا۔ الیکشن میں دھاندلی کا رونا امریکہ ایسی جمہوری سپر پاور میں صدر بش اور ٹرمپ بھی روتے ہیں۔ پاکستان میں تو رواج ہے۔ ہارنے والا اپنی کارکردگی نہیں دیکھتا اپنی نالائقی کو دھاندلی بولتا ہے۔ پختونخوا میں امام کعبہ الیکشن کراتے ہیں؟ جہاں جیت گئے۔
ہم بات کر رہے تھے گیدڑ سنگھی کی تو یہ جنوبی ایشیا میں لوگ گیدڑ سنگھی کے بارے میں کچھ انوکھے تصورات رکھتے ہیں جن کے مطابق گیدڑ سینگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال پایا جاتا ہے کہ جو گیدڑ سنگھی میاں نواز شریف کے ہاتھ لگی ہے وہ ان کو والدین کی خدمت کے صلے میں ملنے والی دعائیں ہیں۔ کچھ کا خیال ہے میاں صاحب کی برسوں سے حرمین شریفین بالخصوص رمضان المبارک میں مسلسل حاضریاں ہیں۔ کوئی کہتا ہے سگریٹ تک نہیں پیتے اور نہ نماز قضا ہونے دیتے ہیں۔ اکثرکا ماننا ہے ملک میں سب سے زیادہ تعمیراتی کام نواز دور میں ہوئے ہیں۔
ناقدین کا دعویٰ ہے میاں صاحب کے معاملات اسٹبلشمنٹ سے طے ہوتے ہیں جبکہ مشہور ہے کہ اکثریت سے وزیر اعظم بننے والے میاں صاحب کو ہر بار اسٹبلشمنٹ ہی نکالتی ہے اور میاں صاحب کی کسی آرمی چیف سے نہیں بنتی وغیرہ وغیرہ۔ جتنے منہ اتنی افواہیں مگر زمینی حقیقت یہی ہیکہ نواز شریف کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ برسر اقتدار ہیں۔ اب اسے اللہ تعالی کی جانب سیفضل سمجھا جائے یا آزمائش کہ اقتدار سے بڑی آزمائش کوئی نہیں۔ عروج و زوال کا سفر بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کی سب سے بڑی خوبی رواداری اور روایات کا بھرم ہے۔ حریف اور ناقدین کی بھی عیادت اور تعزیت کرتے ہیں۔ عمران خان کی ہسپتال عیادت کرنے گئے۔
دسمبر 2007ء میں بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا تو نواز شریف ہسپتال پہنچنے والے اولین قومی لیڈران میں ایک تھے۔ ایک ناقد صحافی کو گولیاں لگیں، کراچی اس کی عیادت کو بھی پہنچ گئے۔ اخلاق اور رواداری کی ایسی بے شمار مثالیں ہیں۔ میاں فیملی کے خلاف ” چور” کے بیانیہ کی شروعات 2008ء میں ہوئی جب عمران خان نے نیویارک میں سیاپنی تقاریر کیدوران نواز شریف کو کرپٹ کہنا شروع کر دیامگر آصف زرداری کو ٹین پرسنٹ بولنا بھول جاتے تھے شاید۔
ہم نے بقلم خود اسی وقت یہ تضاد پکڑ لیا اور اسی جلسہ کے ہال میں عمران خان سے یہ سوال پوچھ ڈالا تو عمران خان نے ہمیں 2008ء کو ہی اپنی سیاست کا رُخ سمجھا دیا تھا۔ بولے ،انہیں بتایا گیا ہے کہ زرداری صرف سندھ تک ہے آپ پنجاب کو فوکس کرو۔ وزیراعظم بننا ہے تو پنجاب حاصل کرو اور پنجاب میں پیر جمانے کے لئے نواز شریف کو چور ثابت کرنا ہوگا، پنجابیوں کے دل سے نواز شریف کو نکالنا ہوگا۔۔ اور پھر پوری دنیا نے دیکھا نواز شریف خود بولتے رہے “مجھے کیوں نکالا”۔۔
مگر رب جسے چاہے بار بار موقع دے دیتا ہے اور عمران خان بے پناہ مقبولیت کے باوجود ایک ہی مرتبہ اقتدار لے سکا اور وہ بھی بیساکھیوں کی مدد سے۔ نواز شریف تین بار 1990ء تا 1993ء، 1997ء تا 1999ء اور آخری بار 2013ء تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ اس سے پہلے 1985ء تا 1990ء وزیر اعلیٰ پنجاب رہے۔
نواز شریف نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے تجارت کی تعلیم اور 1970ء کی دہائی کے آخر میں سیاست کا آغاز کرنے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کی۔
1981ء میں محمد ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دوران پنجاب کے وزیر خزانہ بنے۔ کچھ حمایتیوں کے سبب، نواز شریف ضیا دور ہی میں، وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے، اور مارشل لا کے بعد 1988ء میں دوبارہ وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔
2013ء میں ہونے والے قومی انتخابات میں نواز شریف کی جماعت نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی جس کے بعد انھوں نے تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھالی۔
لیکن اس بار نواز شریف ک سامنے ان کے نئے سیاسی حریف اور سابق کرکٹر عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف موجود تھی جنھوں نے نواز لیگ پر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے اور حکومت ختم کرانے کے لیے اگست 2014ء سے دسمبر 2014ء تک اسلام آباد میں مسلسل دھرنے دیے۔
نواز شریف نے اپنے تیسرے دور حکومت میں وزارت خارجہ کی ذمہ داری اپنے ذمے لی ہوئی تھی اور اس دور میں انھوں نے نو منتخب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کیں۔ 2014ء میں نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں بھی شرکت کی اور دسمبر 2015ء میں نریندر مودی نے لاہور کا بلا اعلان ایک دن کا دورہ بھی کیا۔
اس کے علاوہ نواز شریف کے دور حکومت کا سب سے اہم منصوبہ پاک چین اقتصادی راہداری کا تھا جسے ماہرین نے خطے کے لیے گیم چینجر، کا خطاب دیا۔ 2013ء کے بعد میاں نواز شریف کے خلاف عمران اپوزیشن نے جتنے بھی مقدمات بنوائے، عمران حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ہی ختم ہو گئے۔ ایک دوسرے کی نفرت میں مقدمات بنانا اس ملک کا سیاسی المیہ چلتا آرہا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا کلچر شاید کبھی ختم نہ ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں