پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا۔صادق کاکڑ

سری لنکا کی خوبصورتی دیکھنے اور “آدم پیک” تک جانے کی خواہش دل میں لئے ہی ہم سری لنکا آئے تھے۔ یہاں آنے کے دو دن بعد وہاں جانے کا پروگرام بنایا۔

کولمبو سے بذریعہ بس ہم تقریباً  رات 8 بجے ہیٹن پہنچے اور وہاں سے ٹک ٹک کے ذریعہ تقریباً  45 منٹس میں ڈل ہاؤس پہنچ گئے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے پیدل ہائیکنگ شروع ہو جاتی ہے۔ ڈنر کر کے فورا ہی سو گئے کیونکہ رات 2 بجے آدم پیک تک ہائیکنگ کرنی تھی تاکہ وہاں سے صبح طلوع سورج کا خوبصورت نظارہ کر سکے۔

 

رات 2 بجے  اٹھ کر    تیاری کی اور اللہ کا نام لے کر چل پڑے، ابھی ہوٹل سے نکلے ہی تھے کہ مجھے پہلا جھٹکا لگا کیونکہ جو لوگ بھی ہائیکنگ کیلئے روانہ ہو رہے تھے سب کے پاس ہی بیگ اور کھانے پینے کے لوازمات تھے۔ میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے اکلوتے 500 ملی لیٹر کی  بوتل اور تاج کے ہاتھ میں ایک لیٹر پانی کی بوتل اور ایک ڈبہ جوس کو دیکھا اور پوچھا،

یار ! یہ لوگ زیادہ سیریس ہیں  یا ہم نے اس سفر کو بالکل ہی ایزی لے لیا ہے؟ تاج نے فوراً  کہا کہ نہیں، یہ لوگ تو اس بیگ میں بہت کچھ اضافی بھی رکھتے ہیں۔ بس دل کو یہ جھوٹی تسلی دی اور اس خدشہ کو دور کیا۔ جو آگے جا کے سچ ثابت ہوئی کیونکہ اوپر تک ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑی اور پورے راستے دکانیں موجود ہیں۔ جہاں سے آپ پانی آسانی سے خرید سکتے ہیں لیکن حرام کے ڈر سے کوئی اور چیز نہ خریدیں تو بہتر ہے۔

ابھی چڑھائی  شروع نہیں ہوئی تھی کہ ایک ڈھابے پر بغیر شوگر چائے پی، کیونکہ سری لنکا کے لوگ چائے کو شہد بنا کر پیتے ہیں اور پہلے دن کے بعد ہم نے ہر جگہ بغیر شوگر کے ہی چائے کا آرڈر دیا۔

چائے پی کر  روانہ ہوئے تو ہر عمر کے بہت سارے لوگ تھے جو آدم پیک جانے کیلئے روانہ تھے، جن میں زیادہ تعداد گوروں کی تھی۔ کچھ آگے گئے تو سیڑھیاں  شروع ہو گئیں  جہاں سے ہمارا امتحان شروع ہونا تھا، کیونکہ ہائیکنگ کرنا بہت آسان کام ہے لیکن سیڑھیاں چڑھنا اس سے بہت مشکل، ٹوٹل 5,500 سیڑھیاں ہیں جن میں کافی زیادہ تعداد میں کافی اونچی بھی ہیں۔ اب اوپر جاتے پتہ چلا کہ اپنے ساتھ سامان کم کرنا کتنا ضروری تھا کیونکہ جو لوگ سرد موسم کی وجہ سے ایکسٹرا جیکٹس لائے تھے وہ بھی ایک ایک کر کے اتار رہے تھے اور کچھ خؤاتین تو ساتھ چلتے اس مسکین کو پکڑا دیتیں  جو اپنا وزن ہی مشکل سے اٹھا رہا ہوتا ۔

ہائیکنگ  پہ  سب  لوگ  ہی  اٹھتے  بیٹھتے چل رہے ہوتے تھے، کہیں کہیں بدھا کا مجمسہ بھی آجاتا ہے۔ ایک جگہ بیشمار دھاگے بندھے نظر آئے تو پاس کھڑے بندے سے پوچھ لیا کہ یہ کیوں باندھے گئے ہیں؟ اس نے اسے صرف لوگوں کا شوق کہا تو چلتے چلتے 4.5 دھاگے توڑ لیے، لیکن واپسی پہ ایک پولیس والے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ لوگ لمبی زندگی کیلئے لمبا دھاگہ باندھتے ہیں جو ان دکانوں سے بھی مل جاتا ہے۔ اب سوچتا ہوں کہ جن کے دھاگے میں نے توڑے تھے تو ان بیچاروں کی زندگی کا کیا بنےگا۔

راستے میں جب بھی اپنی ٹوٹی کمر کا احساس ہوتا تو جلد ہی کوئی ایسا بندہ نظر آجاتا جس سے چلتے چلتے سلام دعا ہوئی، تو ہمت بڑھ جاتی کہ یہ بندے بھی تو وہی ہیں جو شروع سے ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔کافی اونچائی پر پہنچ کر جب سارے پہاڑ ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ گئے تو سخت ٹھنڈی اور تیز ہوائیں شروع ہوئیں، تبھی سب نے دوبارہ اپنی  جیکٹس نکال کر پہننی  شروع کر دیں ۔ لیکن تب اونچائی کے خوبصورت احساس اور ٹھنڈے موسم سے میری انرجی دوبارہ لوٹ آئی تھی۔

پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے  تک ایک اور بات بھی نوٹ کی کہ تقریباً  مسلمان اور عیسائی اوپر جا رہے تھے لیکن ہندو اور بدھ مت نیچے اتر رہے تھے، شاید وہ رات کو وہاں کوئی عبادت کر لیتے ہوں گے۔

2:15 بجے شروع ہونے والا یہ سفر بالآخر 5:45 پر ساڑھے تین گھنٹے میں ختم ہوا، اوپر پہنچے تو کافی لوگ ہم سے پہلے پہنچے سورج نکلنے کے منتظر تھے۔ لوگوں کی  بھیڑ میں آدم علیہ السلام کے “نقش پا” تک پہنچنے کا راستہ نہ پا کر ہم نے بھی پہلے طلوع سورج دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ چوٹی پر ہر طرف تقریباً  لگ بھگ 1500 کے قریب لوگ جمع تھے جو ہزاروں میل سے آ کر اور اتنی تکلیف دہ ہائیکنگ کے بعد اس منظر کا شدت سے انتظار کر رہے تھے لیکن اب سب کے چہروں پر ایک اطمینان ضرور تھا۔

پولیس والوں نے اعلان کیا کہ سورجچھ بجکر بارہ منٹس پر نکلےگا تو ہم بھی سیڑیوں پر ہی بیٹھ گئے۔ سورج نکلنے کا وہ خوبصورت نظارہ کیا کہ آپ تقریباً  سورج سے بھی اوپر ایک پہاڑی چوٹی پر ہوں اور چاروں طرف کے اونچے اونچے پہاڑ آپ سے کافی نیچے ہوں اور دور سے سورج کسی چھوٹے سے پہاڑ سے نمودار ہو کر ایک ایک چیز کو روشن کرتا جائے۔

اس خوبصورت منظر کے بعد کچھ دیر بدھ مت کے پیروکاروں نے اپنی عبادت کی اور پھر وہ جگہ کھول دی گئی جو حضرت آدم علیہ السلام کے نقش پا سے منسوب ہے۔اصل نقش پا کو اب کسی وجہ سے چھپا دیا گیا ہے اسی جگہ اصل کی ایک گولڈن کلر کی شبیہ بنائی گئی ہے جو تقریباً  چار فٹ لمبی اور سوا دو فٹ چوڑی ہے۔نقش پا دیکھ کے واپسی کا سفر شروع کیا تو جلد ہی یہ احساس ہوا کہ چڑھنا شاید زیادہ آسان تھا، کیونکہ گھٹنے بالکل ساتھ نہیں دے رہے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد تو گھٹنے بالکل ہی نیوٹرل گئیر میں چلے گئے اور ہر قدم پر لڑکھڑانے لگے۔لیکن جیسے جیسے نیچے اترتے گئے اتنے ہی حیرت میں ڈوبتے چلے گئے  کیونکہ آدم پیک دور نہیں  بلکہ بہت دور  اوپر  پہاڑ  کی  چوٹی پر رہ گیا تھا اور خود پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ رات کی تاریکی میں ہم اور بہت سے لوگوں نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے جب نیچے پہنچے تو صبح کے گیارہ بج رہے تھے اور ہماری یہ حالت تھی جسم میں ایک قدم اٹھانے کی بھی طاقت نہیں تھی کیونکہ آدم پیک تک 5,500 سیڑیاں چڑھنا زندگی کا وہ سخت ترین تجربہ تھا کہ شاید اس کے بعد کوئی بھی مہم ہمارے سامنے چھوٹی ہی ہو۔ لیکن آدم پیک دیکھنا اور وہاں سے طلوع ہوتے سورج کا نظارہ وہ یادیں ہیں جو زندگی بھر ہمارے ساتھ رہےگی۔

عبادت کی جگہیں

ہوٹل پہنچ کر بیس منٹس ہی آرام کر سکے، شاید اس سے زیادہ آرام نصیب میں نہیں تھا کیونکہ واپس اسی دن کولمبو بھی پہنچنا تھا، اور اس تھکاوٹ کے بعد مزید 5 گھنٹے بس میں سفر کر کے پہنچے تھے۔ اور یوں ایک خوبصورت سفر کا اختتام ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا۔صادق کاکڑ

Leave a Reply