مسیح کیا تھے، کیوں تشریف لائے تھے؟/عرفان شہزاد

مسیح اور توہین مذہب کی صلیب
مسیح علیہ السلام کے تمام پیروکاروں کو مسیح علیہ السلام کا جنم دن مبارک ہو۔
مسیح علیہ السلام کیا تھے؟ کیوں تشریف  لائے تھے اور ان کے ساتھ کیا ہوا؟ اس کا جاننا ہر دور میں ضروری تھا، مگر اب بے حد ضروری ہے۔ انجیل کا مطالعہ ہر   ایک پر لازم ہے۔
مسیح علیہ السلام دیگر رسولوں کی طرح توحید کی دعوت دینے نہیں آئے تھے۔ وہ ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے جو خدا کی وحدانیت اور اس کی شریعت پر پہلے سے ایمان رکھتی تھی۔ مسیح علیہ السلام کی دعوت خدا پر ایمان لانے کی نہیں، بلکہ خدا پر ایمان کی حقیقت یاد دلانے کی دعوت تھی۔ وہ شریعت کے عالموں کو فقہ کی ظاہر پرستی اور متصوفین کی خیالی دنیا سے حقیقتِ دین کی طرف متوجہ کرنے آئے تھے۔

شریعت کے یہ عالم و فقیہ وہ لوگ تھے جو یہ نہیں دیکھتے تھے کہ مسیح علیہ السلام نے خدا کی مدد سے کسی مزمن مریض کو صحت یاب اور کسی مردہ کو زندہ کر دینے کا معجزہ کر دکھایا ہے، اس بنا پر انہیں  خدا کا رسول تسلیم کرتے ہوئے ان کی اطاعت کی جائے، وہ یہ دیکھتے  ہیں کہ انھوں نے یہ کام سبت کے دن کیوں کیے، جس دن کوئی بھی کام کرنا   ان کے فہمِ شریعت نے حرام قرار دے رکھا تھا۔ وہ یہ نہیں دیکھتے تھےکہ مسیح علیہ السلام کسبِ حلال پر کتنا زور دیتے ہیں، وہ یہ دیکھتے تھے کہ مسیح علیہ السلام اور ان کے پیروکار کھانے سے پہلے ہاتھ کیوں نہیں دھوتے تھے۔ وہ یہ باور نہیں کرتے تھے کہ مسیح علیہ السلام کے اعلیٰ  اخلاق کس طرح دین سے دور لوگوں کو ان کا گرویدہ اور دین دار بنا رہے تھے، وہ یہ دیکھتےتھے کہ وہ گناہ گار سمجھے جانے والے ٹیکس کلیکٹرز اور بدکاروں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کیوں کھاتے ہیں۔

انہیں اس مسیح کی تلاش تھی جو ان کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ واپس دلا دے۔ وہ اسے ایک لیڈر اور بادشاہ کے روپ میں دیکھنے کے متمنی تھی۔ یہ فقیر منش مسیح انھیں نہیں بھایا، جو انھیں دنیا کی بادشاہت کی بجائے آسمان کی بادشاہت (خدا کی خوشنودی اور ابدی نعمتوں کی بادشاہت) میں شامل ہونے کی دعوت دے رہا تھا۔

مسیح علیہ السلام کے اعلیٰ  اخلاق بھی ان مذہبی پیشواؤں کی سنگ دلی موم نہ کر سکے۔ مسیح علیہ السلام کے معجزات بھی ان کے پیغام کی صداقت کو تسلیم کرنے پر انھیں آمادہ نہ کر سکے۔ انھیں خدا سے زیادہ اپنا مذہب عزیز تھا۔ ان کا مذہب ان کا خدا تھا، بلکہ ان کا فہم مذہب ان کا خدا تھا۔ اس کے خلاف جب خود خدا بول پڑا تو انھوں نے اسے بھی خاموش کرا دینا چاہا۔ انھوں نے مسیح علیہ السلام پر توہین مذہب اور ارتکاب کفر کے الزامات لگائے۔ اپنا مزعومہ کفر ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگے۔ یہ کفر ان کے اپنے دماغ میں تھا جسے وہ ہر حال میں مسیح علیہ السلام کی زبان سے سننا چاہتے تھے۔ چنانچہ عدالت لگوائی تو مسیح علیہ السلام سے صفائی طلب کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اپنے مزعومہ کفر کے الزام کا اقرار کروانے کے لیے۔ یہ عالم و فقیہ گواہ بھی اپنے لے کر آئے، مسیح علیہ  السلام کی بات اس انداز میں پیش کی کہ وہ توہینِ مذہب اور کفر لگے۔ رومی عدالت کو وہ پھر بھی کفر اور توہین نہ لگی۔ مسیح علیہ السلام کی وضاحت لینے کو وہ تیار نہ تھے۔ مسیح علیہ السلام نے بھی ان کو ان کی مرضی کا بیان دینے سے انکار کر دیا۔

عدالت کا پس و پیش دیکھ کر دین کے ان بزعم خود محافظوں نے عدالت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہنگامہ کھڑا کر دیا  ۔ ان کے سب سے بڑے پیشوا نے جوش میں آکر اپنے کپڑے پھاڑ دیے کہ ہم نے جان لیا ہے کہ مسیح نے کفر بکا ہے اس کو مصلوب کرنے سے کم پر ہم راضی نہ ہوں گے۔ کاہن اعظم کا جذباتی ڈرامہ کام کر گیا۔ لوگوں نے ہنگامہ پربا کر دیا۔ عدالت پر اتنا دباؤ بڑھا کہ رومی گورنر نے پانی میں ہاتھ دھو کر کہا اس بے گناہ کے خون سے میں بَری ہوں۔ جاؤ جو کرنا ہے، کرو۔ یوں خدا کے پیغمبر کے خلاف جھوٹا مقدمہ جیت لینے کی خوشی میں اہل مذہب اور ان کے اندھے بہرے پیروکار نعرے لگاتے اور مسیح علیہ السلام کا ٹھٹھا اڑاتے، انھیں لے کر نکلے اور بھرے مجمع میں انھیں اپنے تئیں مصلوب کر دیا۔ مگر خدا، حسب وعدہ اپنے رسول کو بچا لے گیا۔

دین کے دفاع کے نام پر، دین داری کے پندار میں ان مذہبی پیشواؤں کی ان خباثتوں کے نتیجے میں خدا کی طرف سے ذلت و نکبت کا عذاب ان پر آن پڑا۔ ان کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج گئی۔ قتل و غارت گری ہوئی۔ انھیں غلام بنا لیا گیا۔ وہ دربدر ہو کر رہ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کہانی ہر دور کی کہانی ہے۔ اسے برپا کر کے خدا کی کتابوں میں اس لیے محفوظ کر دیا گیا ہے کہ ہر نسل کے لیے آئینے کا کام دے، جس میں دیکھ کر وہ معلوم کر سکیں کہ یہ کہانی جب ان کے دور میں برپا ہوئی تو انھوں نے اپنے لیے کون سے کردار کا انتخاب کیا۔ وہ مسیحِ وقت کے ساتھ کھڑے تھے یا مذہبی اشرافیہ کے ساتھ؟ وہ اس حق کے ساتھ تھے جو ان کے دل و دماغ کو قائل کر رہا تھا یا سٹیٹس کو کے محافظوں کے ساتھ؟ وہ دلیل کے ساتھ کھڑے تھے یا اس کی مخالفت میں جمہور کے ساتھ؟
روزِ محشر ہر دور کی اس کہانی کے ہر کردار کا انجام وہی ہوگا جو اس کہانی میں بتا دیا گیا ہے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply