صلہ رحمی۔۔۔شاہد محمود، ایڈووکیٹ

کسی ایسے انسان کا تصور ذہن میں لائیں جو اس دنیا میں بالکل اکیلا ہو۔ کوئی اس کا اپنا عزیز رشتہ دار غمی خوشی میں شریک ہونے والا نہ ہو۔ کوئی ایسا نہ ہو جس سے وہ اپنا دکھ سکھ بانٹ سکے۔ خود تصور کیجئے کہ ایسے انسان کی حسرت و بیچارگی کی انتہاء کیا ہو گی۔ یہ تنہائی ایسی ظالم چیز ہے کہ “قید تنہائی” کو “سزائے موت” سے بھی سخت سمجھا جاتا ہے۔ اس کیفیت سے انسان کو بچانے کے لئے اسلام نے صلہ رحمی کی تعلیم دی ہے۔

صلہ رحمی دو لفظوں “صلہ” اور “رحم” سے مرکب ہے۔ صلہ کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں، لیکن جب اس کے ساتھ رحم کا استعمال ہو گا تو اس کے معنیٰ بدل جائیں گے۔ رَحْمٌ ورَحِمَّ بطن مادر میں اس مقام کو کہتے ہیں جہاں جنین کا استقرار اور اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتے داری کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے مشتق ہے۔ علماء نے اس کی تائید میں درج ذیل حدیث پیش کی ہے؛

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول ﷺ کو ارشاد فر ماتے ہوئے سنا ہے؛

قال اللّٰہ تبارک وتعالی: ‘‘اَنااللّٰہُ وَأَنَاالرَّحْمٰنُ، خَلَقْتُ الرَحِمَ وَشقَفْتُ لَھا مِنْ اسْمِیْ فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتَہ‘ وَمِنْ قَطعھا بتتُّہ‘ ’’
﴿ترمذی : باب ماجاء فی قطیعۃالرحم: ۱۹۰۷}

‘‘اللہ تعالی نے فرمایا: ’’میں ہی اللہ ہوں اور میں ہی رحمن ہوں میں نے رحم ﴿رشتے داری ﴾ کو پیدا کیا، میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، جو اس کو جوڑے گا میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس سے قطع تعلق کرے گا، میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا’’۔

لغوی اعتبار سے رحم کے معنی شفقت‘ رأفت اور رحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تو اس کے معنی شفقت و رأفت کے ہوتے ہیں اور جب اللہ کے لیے استعمال ہوتاہے تو اس کے معنیٰ رحمت کے ہوتے ہیں ﴿ابن منظور، لسان العرب،ج:۱۷، ص:۲۳﴾

قرآن مجید میں صلہ رحمی کا بیان:-

قرآن مجید میں صلہ رحمی کی نابت ارشاد باری تعالٰی ہے:

‘‘وَاتَّقُوااللّٰہ الَّذِیْ تَسآئَ لُوْن بہٰ وَالْاَرْحَامَ’’ ﴿النساء:۱﴾
‘‘اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ رشتے داری اور قرابت کے، تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیزکرو’’

صلہ رحمی کا احادیث میں بیان:-

صلہ رحمی، اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے اس بات کی تائید ہرقل کے ساتھ ابوسفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے، جس میں ہے کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا: ‘‘تمھارے نبی تمہیں کن چیزوں کاحکم دیتے ہیں؟’’، اس کا جواب یہ تھا :

بامرنالصلاۃ والزکاۃ والصلۃ والعفافٍ ﴿مسلم: باب کتب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِلی ہرقل ملک الشام بدعوہ‘ الٰی الاسلام:۴۶۰۷﴾
‘‘وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں’’
اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ صلہ رحمی دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے۔ سیدنا عمرو بن عنبسہؓ سے یہ ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

‘‘میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یہ آغاز نبوت کا زمانہ تھا، میں نے عرض کیا: ’آپ کیا ہیں؟‘ فرمایا: ’نبی ہوں۔‘ میں نے عرض کیا: ’نبی کسے کہتے ہیں؟‘ فرمایا: ’مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔‘ میں نے کہا: ’اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا چیز دے کر بھیجا ہے؟‘ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’ارسلنی بصلۃ الارحام وکسرالاوثان وان یّوحداللّٰہ لا یشرک بہ شیٔ‘ ﴿اللہ نے مجھے رشتوں کو جوڑنے اور بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجاہے اور اس بات کے لیے بھیجاہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھاجائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیاجائے۔’’

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول و مبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کو مقدم رکھا ہے۔ اس سے اسلام میں صلہ رحمی کے مقام اور مرتبے کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: ‘‘اے اللہ کے رسول (ﷺ)! مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجائوں ‘’ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

تعبُدُاللّٰہُ لاتُشْرِکَ بِہٰ شَیْٲً وتُقِیمَ الصَّلاَۃَ وَتُؤتِی الزکَاۃَ وَتَصِلُ الرَحِمَ ﴿بخاری: باب فَضْلِ صَلَۃِ الرَحِم: ۵۹۸۳﴾
‘‘اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔’’

اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا شمار بھی ان اعمال میں ہے جو انسان کو جنت کا مستحق بناتے ہیں۔

اس لئے ایک مسلمان اسلامی تعلیمات کے مطابق صلہ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ چنانچہ پہلا درجہ والدین کا قرار دیا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو مستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:

وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ اِلآَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ اِحْسَاناً ﴿بنی اسرائیل: ۲۲﴾
‘‘اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھاہے بجز اس ﴿ایک رب﴾ کے اور کسی کی پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا’’

وَوَصَّیْْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً ﴿العنکبوت:۲۸﴾
‘‘اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیاہے’’

اور سورہ لقمان میں ارشاد باری ہے:

وَوَصَّیْْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہ‘ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْر ﴿لقمان:۱۴﴾
‘‘ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے ۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔’’

اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکرگزاری اور خدمت کا تعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے۔ لیکن قربانیاں اور جانفشانیاں ، حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنائی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ ماں کا حق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

صلہ رحمی کا اصل امتحان:-

اسلام کی صرف یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں جو ان کے ساتھ بھی صلہ رحمی کریں یا جن کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے ہوں۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اسلام اُن رشتے داروں کے ساتھ بھی اچھے سلوک اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتا ہے، جو آپ کے ساتھ تعلق توڑتے ہیں۔ آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لیس والواصلُ بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعتْ رحمتہ‘ وصلہا
﴿بخاری: کتاب الأدب، باب:لیس الواصل بالمکافی:۵۹۹۱﴾
“صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے’’

اسلام نے غیر مسلم رشتے داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:

‘‘وَانْ جَاھَداکَ عَلٰی اَن تُشرک بِیْ مَالَیْسَ بِہٰ عِلْمَ فَلاَ نُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمآفِی الدُنْیا مَعْرُوْفاً’’
‘‘اگر تجھ پر وہ دونوں (والدین) اس کا زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا’’
اس آیت کی تشریح میں امام قرطبیؒ نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے۔ اگر وہ غریب ہوں تو انھیں مال دیا جائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں نرمی کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے۔ ﴿قرطبی الجامع الأحکام القرآن ، ج: ۱۴، ص:۶۵﴾

صلہ رحمی کے مختلف پہلو و فوائد:-
صلہ رحمی کا مفہوم و عمل بہت وسیع ہے۔ صرف مال و دولت کی نہیں بلکہ دوسروں کی دلجوئی و ہمت افزائی و خوش دلی سے آپس میں میل جول رکھنا اور روزمرہ برتنے کی اشیاء بھی مانگنے پر استعمال کے لئے دینا اور کسی بھی ضرورت میں کام آنا اور دکھ سکھ میں شریک ہونا بھی صلہ رحمی ہے۔ خاندان کے یتیم بچوں کی تعلیم و تربیت اور بیوائوں و بزرگوں کی عزت و اکرام کے ساتھ نگہداشت بھی صلہ رحمی کے ذریعے انتہائی احسن طریقے سے ممکن ہے۔ آج کے نفسا نفسی کے دور اور خود غرض معاشرے میں صلہ رحمی اسلامی تعلیمات کا انمول تحفہ ہے۔ اس کے ذریعے نہ صرف باہمی تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے بلکہ مشکل وقت میں دوسروں کا سہارا بن کر بہت سے معاشرتی مسائل، برائیوں و جرائم کی بیخ کنی کی جا سکتی ہے اور ان کا بروقت سدباب کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اسلام نے صلہ رحمی کی انتہائی تاکید فرمائی ہے اور قطع تعلق کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا ہے، اس لئے ایک مسلمان جب برسر روزگار و صاحب حیثیت ہو جاتا ہے تو تو وہ زندگی کی دوڑ میں اپنے سے پیچھے رہ جانے والوں رشتے داروں کو نہیں بھولتا بلکہ صلہ رحمی کی تعلیمات کے پیش نظر ان کی فلاح و بہبود و ترقی کے لئے بھرپور کوششیں کرتا ہے۔ ایک مسلمان ترقی کی بلندیوں پر بھی پہنچ کر اپنے ماضی اور رشتہ داروں کو نہیں بھولتا۔ اس کے پیش نظر اللہ کریم کا قرآن اور آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ کی تعلیمات رہتیں ہیں۔

وآت ذالقربی حقہ (بنی اسرائیل آیت نمبر24)

”اوررشتہ داروں کواس کاحق دو“۔

ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

َ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْْرٍ فَلِلْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْن ﴿البقرہ:۲۱۵﴾
‘‘آپ (ﷺ) کہیے فائدے کی جو چیز تم خرچ کرو تو وہ والدین اور رشتے داروں کے لیے’’۔

ایک اور جگہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضروریات کے باوجود صرف اللہ کریم کی مرضی و رضا جوئی کے لیے اپنے قرابت داروں کی امداد اور حاجت روائی اصل نیکی ہے۔

وَاٰ تَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی ﴿البقرہ: ۷۷۱﴾
‘‘﴿اصل نیکی اس کی ہے﴾ جس نے مال کی محبت کے باوجود قرابت مندوں کو دیا’’۔

ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے ارشادات میں صلہ رحمی پر زور دیا ہے اور اس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں، جن میں کوئی زحمت، پریشانی اور تکلیف نہیں۔ آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ فرمایا:

بَلّوا اَرحامَکُمْ وَلَوْ بِالسَّلامِ ﴿الموسوعۃ الفقیہۃ، ج:۳،ص:۸۴﴾
‘‘اپنے رشتوں کو تازہ رکھو خواہ سلام ہی کے ذریعے سے”۔

صلہ رحمی ایک ایسا عمل ہے جو معاشرے میں امن و خوشحالی کا باعث بنتا یے اور انسان تنہائی جیسی تکلیف کے ہاتھوں مجبور ہو کر غلط قدم نہیں اٹھاتا اور معاشرے کی تخریب کی بجائے معاشرے کی تعمیر میں حصہ لیتا ہے۔
نیز رشتے داری کا پاس و لحاظ رکھنے سے زیادہ اجر وثواب ملتا ہے۔ پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الصَدَقۃُ عَلٰی المِسْکِیْن صَدَقَۃٌ وَھِیَ عَلی ذی الرَحِمِ ث نْتَانِ صَدَقَۃُ وَصَلِۃ‘
﴿ترمذی، باب: ماجائ فی الصدقۃ علی ذالقرأبۃ۶۵۸﴾
‘‘صدقہ مسکین پر صدقہ ﴿ثواب ہے﴾ اور رشتے دار پر کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملتا ہے۔ ایک صدقہ کرنے کا ،دوسرے صلی رحمی کا’’۔

صلہ رحمی سے عمر میں درازی اور رزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہمارے آقا کریم رحمت اللعالمین ﷺ ارشاد فرمایا:

مَنْ أحَبّ اَنْ یُبْیَطَ لَہ‘ فی رزقہٰ وَیَشأ لَہ‘ فِیْ أثْرِہٰ فلیصل رحمۃ
﴿مسلم، باب : صلۃ الرحم وتحربہم تطیعتہا۶۵۲۳﴾
‘‘جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی موت میں تاخیر اور عمر میں اضافہ ہو تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے’’۔

ہمارے پیارے آقا کریم رحمت اللعالمین خاتم النبیین شفیع المذنبین سردار الانبیاء ابوالقاسم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلہ رحمی کی بابت یہ بشارت دی ہے: صحیح مسلم کی روایت ہے ایک شخص اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ میرے کچھ رشتے دار ہیں، میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں، میں ان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں، یہ سن کر آقا کریم رحمت اللعالمین نے ﷺ فرمایا:

لئن کنت کما قلت فکأنما تسفھم المل ولایزال معک من اللہ ظھیر علیھم مادمت علی ذلک.

”اگرتو واقعی ایسا ہی ہے جیسا کے تو بیان کر رہا ہے تو گویا تو ان کے منہ میں راکھ ڈال رہا ہے، جب تک تیرا طرز عمل ان کے ساتھ ایسا ہی رہے گا تو اللہ تعالٰی کی طرف سے ان کے مقابلے میں ایک مدد گار تیرے شامل حال رہے گا “۔

صلہ رحمی صرف مالی معاونت ہی نہیں بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں۔ انسان جس چیز کی استطاعت رکھتا ہو، اس کے ذریعے صلہ رحمی کر سکتا ہے۔ مثلاً رشتہ داروں کے دکھ درد میں شریک ہو کر، ان کی حوصلہ افزائی کر کے، ان کی راہنمائی کر کے، زندگی میں آگے بڑھنے کے لئے ان کی مدد کر کے، ان کے ساتھ اچھی گفتگو کر کے، ان کے گھر جا کر حال احوال دریافت کر کے، بیمار پرسی کر کے، ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کر کے، غمی خوشی میں شریک ہو کر وغیرہ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔

پیارے اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔

Advertisements
julia rana solicitors

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
سب کے لئے سلامتیاں، ڈھیروں پیار اور محبت بھری پرخلوص دعائیں۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply