فلسطین اور ہم /ڈاکٹر مختیار ملغانی

اس میں شک نہیں کہ اس وقت فلسطین میں جو ظلم برپا ہے، اس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملے گی، دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا، شاید اس کی “تلافی” اب اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خون سے کرنا چاہتی ہے، اس پر قطعاً حیران نہیں ہونا چاہیے کہ ایسی خونریزی کا منبع باصلاحیت اذہان ہی ہوا کرتے ہیں، عام ذہن کی رسائی ایسی بربریت تک ممکن نہیں۔
ہم ان مظلوموں کیلئے کیا کر سکتے ہیں ؟
یہ سوال اہم ہے مگر جواب ندارد، ریاستی سطح پر اس وقت مسلم ممالک یا فلسطین کی دوست ریاستوں میں ایسی کوئی ریاست نہیں جو عالمی اہمیت کی حامل ہو یا اپنی بات منوا سکے، اسے نااہلی کہیں یا بزدلی، یہ بحث بے معنی ہے۔ عوامی سطح پر بھی جتنے بڑے احتجاجات ہیں وہ مغربی ممالک میں دیکھنے کو مل رہے ہیں، ہمارے ہاں کوئی ایسی بڑی تحریک سامنے نہیں آئی، اس تضاد پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے کہ ، ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے ، پر یقین رکھنے والے اس وقت ان سے کیوں پیچھے ہیں جن کے بارے ہمیں بتایا گیا کہ، تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی ؟

انفرادی سطح پر مادی امداد کے امکانات بہت کم ہیں کہ اسرائیلی حکومت کی طرف سے خوراک و ادویات کی فراہمی پر بھی سخت پابندیاں ہیں، اور پھر ہم ایسی کوشش کسی بڑی این جی او کی مدد سے ہی کر سکتے ہیں اور این جی اوز بارے ہر شخص کی رائے اپنی ہے، امداد صحیح مقام تک پہنچے، اس کیلئے ہر دو میل پر رکاوٹیں ہیں اور رکاوٹیں شدید ہیں ۔

یعنی کہ کسی خطے میں ظلم کو روکنے کیلئے آپ کی ریاست کا معاشی ، سیاسی، سماجی طور پر مضبوط ہونا ضروری ہے اور ہم نے گزشتہ کئی دہائیوں سے ان تمام معاملات کو پس پشت رکھ چھوڑا ہے۔
مادی امداد سے مکمل طور پر مبرا ہونے کے بعد ہماری توجہ غیر مادی مدد کی طرف جاتی ہے، لیکن یہاں معاملہ، ہماری تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود، نہایت گھمبیر ہے۔

ہمدردی اور دعا ہی وہ غیر مادی راستہ ہے جو عام فرد کی دسترس میں ہے۔ لیکن یہاں پیچیدگی ایسی ہے کہ جس پہ بات کرنا کانٹوں پر چلنے جیسا ہے کیونکہ سراب کے خول کو جس مضبوطی سے ہم نے خود پہ چڑھا رکھا ہے، اسے اتارتے ہوئے کسی کمزور جگہ سے کھال کے دھاگے بھی ادھڑ سکتے ہیں۔

ہمدردی ضروری نہیں کہ ہمیشہ روحانی حساسیت ہی کی وجہ سے ہو، کبھی کبھار یہ روح کے خالی پن کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے، اگر روح کا خالی پن ہے تو اسے حقیقی ہمدردی نہیں کہا جا سکتا، یہ صرف اپنی خالی روح کو ہمدردی کے ان جزبات سے بھرنا ہے، آنکھوں کو نم کرتے ہوئے ایک سرشاری کی کیفیت سے لطف اندوز ہونا ہے۔
گویا فرض کے احساس سے خود کو لبریز کرتے ہوئے ایک اندرونی مگر باطل اطمینان پانا ہے۔

ہمدردی کے دکھاوے سے خود کو مطمئن کرنے کا سراب معاملے کا صرف ایک پہلو ہے، دوسری جانب خالی روح کا خود کو ہمدردانہ جزبات سے بھرنے کا عمل انسان کو self guilt سے بھی نجات دلاتا ہے، یہ کہ میں ظلم پہ خاموش نہیں رہا، یہ بھی سراب سے زیادہ کچھ نہیں ، مقصد وہی ، اپنے نفس کو، اپنے اندرونی بھیڑیئے کو قابو میں رکھنے کی کوشش ہے، اور یہ کوشش دو وجوہات کی بنیاد پہ (وقتی طور پر سہی)کامیاب ہے ، ایک یہ کہ اجتماعیت کے شور میں ہماری ترجیح ضمیر نہیں بلکہ سماجی قبولیت ہے اور دوسرا اطمینانِ باطل کو خلوصِ نیت سے تعبیر کر رہے ہیں۔

ہمیں ہمدردی جتانے سے پہلے اپنے اندر جھانک کر یہ جانچ پڑتال کر لینی چاہئے کہ ہماری ہمدردی مخلصانہ ہے یا یہ اپنے خالی کمرے کو کسی بھی میسر جزبات سے بھرنا ہے کہ خلا خوف کو جنم دیتا ہے ، گویا کہ بس فرض کا احساس ہے، فرض کا احساس ہمیں تو مطمئن کر سکتا ہے لیکن متاثرین کی کوئی مدد نہیں کر سکتا ، دلوں کے حال خدا جانتا ہے لیکن گمان ہے کہ ہماری دعائیں یا مثبت جزبات کھوکھلے ہیں جو ان مظلوموں کے احوال پر کسی آسمانی مدد کو متحرک نہیں کر پا رہے ، یعنی کہ وہ ایک کام ،ہمدردی اور دعا، جس کی ہم استطاعت رکھتے ہیں وہ بھی ڈھنگ سے نہیں ہو پا رہا، نہیں معلوم کہ کسے دوش دیا جائے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مادی اور غیر مادی استقامت کی جو بھی شرائط ہیں ، ان کی جڑیں البتہ انسان کے کسی اندرونی فیکٹر سے ضرور جڑی ہیں، اسے ضمیر کہہ لیں ، نیک نیتی کہہ لیں، ظاہرداری اور ریاکاری سے پاک رویہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply