ا چھرہ واقعے پر ریاست کے نام ایک خط/محمد وقاص رشید

اے ریاست ! آج سے پچھتر سال قبل اس خطے کے مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اسلام کے نام پر تیرا قیام عمل میں لائیں گے۔ لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان۔

اگر۔۔۔۔اگر  اسلام کا نام محض “لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ” کے مصداق استعمال کر کے عالمی استعمار کا بالواسطہ جغرافیائی تسلط قائم کرنا نہیں تھا ( جو کہ ایک مکتبہِ فکر کا خیال ہے) تو یہ ایک بہت بڑی اور حساس ذمہ داری تھی۔

رب العالمین کی جانب سے رحمت للعالمین  پر اتارے گئے سلامتی کے دین کے نام پر ریاست کا قیام اس لیے بہت بڑی ذمہ داری تھی کہ اس نے اُس ریاستِ مدینہ کی تقلید کا دعویٰ کیا تھا جو خاتم الانبیاء رحمت للعالمین نے قائم کی تھی۔ جسکی بنیاد مواخاتِ مدینہ سےفتح مکہ پر عفوِ عام تک پھیلی ہوئی تھی۔ کیا تحریکِ پاکستان اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے تیار تھی ؟

حال ہی میں اچھرہ لاہور میں جو کچھ میں ہوا اسکے تناظر میں چشمِ تصور سے اسی لاہور میں ایک منظر نامہ دیکھتے ہیں۔ فرض کیجیے 23 مارچ 1940 کو قراردادِ پاکستان جلسہ میں شامل خواتین جو ظاہر ہے ہماری دادیاں نانیاں تھیں۔ اس جلسے میں سٹیج سے ایک بھرپور جوشیلی تقریر میں کہا گیا  کہ ہم خواتین سے اس تحریک میں بھرپور شرکت کی توقع کرتے ہیں کیونکہ ہم اسلام کے نام پر ایک ایسی ریاست قائم کرنے جا رہے ہیں جہاں آپ کی پوتیاں نواسیاں بازار میں کچھ عربی حروف لکھی قمیض پہن کر اپنے خاوند کے ساتھ جائیں گی تو وہاں ایک باریش شخص انہیں  آکر کہے گا کہ آپ یہ قمیض اتار دیں کیونکہ اس سے میرے مذہبی جزبات مجروح ہو رہے ہیں۔ وہ کہیں گی کہ کیوں یہ اتاروں اس میں ایسا کچھ نہیں لکھا تو وہ شخص وہاں ان پر توہینِ قرآن و اسلام کا الزام عائد کر دے گا۔ وہاں بہت سے لوگ جمع ہو جائیں گے جو ان کے متعلق یہ نعرے لگا رہے ہونگے کہ ” گستاخِ نبی کی ایک سزا , سر تن سے جدا “۔۔۔وہ یہ نعرے سن کر کانپ جائیں گی انہیں بتانا چاہیں گی کہ وہ بھی رحمت للعالمین کی امتی بیٹی ہیں وہ جو مشرک کی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھتے تھے آج انکی امتی بیٹی کا سر قلم کرنے کی دھمکیاں کیوں دے رہے ہو۔ روتی کانپتی سہمتی وہ منہ سے جھاگ گراتے لوگوں کو دیکھ رہی ہونگی تو اتنی دیر میں ریاست پولیس کی وردی میں وہاں پہنچ جائے گی۔ انکی جان میں جان آئے گی مگر کچھ ہی دیر بعد آپکو ریاست بتائے گی کہ انہیں زندگی کی بھیک ان ڈرانے دھمکانے اور ہراساں کرنے والے وحشیوں سے انکی عقلوں پر پڑا پردہ خود پر اوڑھ کر باقاعدہ ان سے معافی مانگ کر ملے گی۔ اور وہ ریاست کے ایک قانون نافذ کرنے والے دفتر میں یہ معافی مانگ کر باقی زندگی اپنے ہاتھوں کا بنا کشکول یاد رکھیں گی۔

اس تقریر کے بعد پنڈال میں پوچھا گیا کہ کیا  آپ اس ریاست کے لیے کنویں میں کود کر ناموس کی بجائے جان کی قربانی دیں گی ؟ کیا آپ کرپانوں اور نیزوں پر اپنے بچے ٹنگے دیکھیں گی ؟ کیا آپ کئی کئی دنوں پیدل چل کر اس ریاست میں زندگی کی بھیک پانے جائیں گی ؟ کیا آپ کو اسلام کی یہ تفہیم و تشریح قبول ہے ؟ اب اسکا جواب ہماری نانیاں دادیاں کیا دیتیں ۔۔۔اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

سو اے ریاستِ پاکستان۔ اچھرہ لاہور والے سانحے پر شدید کرب میں ہوں۔ “پاکستان کا آئین چودہ سو سال پہلے لکھا جا چکا ہے” کہنے سے اگر ریاستیں تشکیل پایا کرتیں تو آج ریاستِ مدینہ میں اپنے گھر کا نصف مسلمان بھائی کو دینے والوں کے پیروکار ریاستِ پاکستان میں خدا کے گھر میں دوسرے فرقے کے داخلے پر پابندی کے بورڈز نہ لگاتے۔ جانی دشمنوں کو معاف کرتے رحمت للعالمین کا نامِ مبارک لے کر ہم محض الزام و بہتان پر کسی کا سر تن سے جدا کر کے اس فلسفہِ رحمت کو یوں داغدار نہ کرتے۔

حقیقت یہ ہے کہ اچھرہ میں خدا کا شکر ہے کہ انسانی سر تن سے جدا نہیں ہوا مگر ریاستی سر تن پر رہا نہیں جو پہلے ہی شہ رگ پر زخم در زخم لیے لڑھک رہا تھا۔ یہ پیغام روح فرسا ہے کہ یہاں ریاست ہی کی دو شاخیں ہیں ایک سادہ لباس میں عوام میں موجود کہیں کسی پر توہینِ مزہب کا الزام لگاتی ہے اسے ہراساں کرتی ہے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتی ہے اور دوسری وردی پہن کر آتی ہے اور مظلوم کو پہلی کے قدموں میں بٹھا دیتی ہے۔

فرق واضح ہے پاکستان میں آج سے ڈیڑھ دہائی قبل جب ایک مسیحی خاتون پر توہینِ رسالت ص کا الزام لگا تھا جسکی بنیاد پر سماجی نفسیات میں یہ زہر بھرا گیا تھا۔ یہ الزام ملزمہ کے انکار کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں بھی جھوٹا ثابت ہوا تھا تو اس وقت اس ایک خاتون کے حق کے لیے اٹلی کے پوپ تک نے آواز بلند کی جبکہ رحمت للعالمین کے نام پر بننے والی اس ریاست میں انکی امتی بیٹی پر سلامتی کے مزہب کے پیروکار جان لینے کے در پہ تھے۔ وہ علماء جنہوں نے نام نہاد کمیٹی میں بیٹھ کر اسکی جان بخشی کروائی اب سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے جواب میں اس خاتون پر “مشابہتی سرکاری اور سیاسی گناہ ” کی نئی اختراعات نکال کر مزید جگ ہنسائی کا سامان کر رہے ہیں۔ اور وہ شیخ الاسلام صاحب بھی کوئی ٹویٹ نہیں فرما رہے۔

” سر تن سے جدا ” کا نعرہ تخلیق ہوتے اسے سماج نما دشت میں واپسی کا کرایہ دینے سے لے کر آج اسکے قدموں میں مظلوم کو بٹھانا ایک ہی ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے۔ غلطی سے سبق تب سیکھا جاتا ہے جب اسے غلطی تسلیم کیا جائے مگر جب یہاں ہے ہی ایک پالیسی کا باقاعدہ تسلسل تو سبق کیسا ؟۔ اسکا مطلب کیا ہے وہی جو اوپر تصوراتی منظر نامے میں بیان ہوا۔

سو اے ریاست تو ریاست کی کسی آخری درجے کی تعریف پر بھی پورا اُترتی تو آج “خدا کی قسم میں نے گولی مار دینی ہے ” کہنے پر اس وحشی کو سماج کے لیے خطرناک جانور قرار دے کر اسکی یہ آزادی صلب کرتی مگر تو نے تو الٹا مظلوم کو ظالم کے پیروں میں بٹھا کر ظالم کو وہ اعتماد دے دیا جسکا آغاز واپسی کا کرایہ دینے سے ہوا تھا اب انتظار کر کہ آج تو خاتون اے ایس پی کا خدا بھلا کرے کہ اس مظلوم عورت کو بچا کر لے گئی مگر کیا خبر کہ ریاست کے دیے گئے اس اعتماد کا شکار اگلی قسط میں خود اے ایس پی صاحبہ ہوں جنکی “سرکاری پینٹ بشرٹ” کسی  غازی کو “سرکاری گناہ” “مشابہت”   اور” بے ادبی” لگے۔

کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں کسی خاتون کا حجاب کوئی وہاں کے مذہب کا “غازی” اتارتا ہے تو وہیں کھڑے اجنبی لوگ حملہ کرنے والے کی درگت بنا دیتے ہیں یہاں ایندھن فروشوں کے ہاتھوں بننے والے اس مزہبی جنونیت اور منافرت کے گڑھ میں وہاں اچھرہ بازار میں کوئی نہیں تھا جو ان بلوائیوں کو کہتا کہ یہ مت کرو۔

قصہ مختصر اے ریاستِ پاکستان ! تضادات کی خلیج گہری اور وسیع ہوتی جا رہی ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں یہ اتنی وسیع نہ ہو جائے کہ تیرا وجود بیچ میں ڈوب جائے۔ کیا تجھے احساس ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تیری رعایا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply