؎رخ مصطفی ﷺہے وہ آ ئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزم خیا ل میں نہ دْکا ن آئینہ سازمیں
1400ء سال پہلے عرب کی سر زمین پر جو چاند ا ترا اس کی روشنی اس طرح پھیلی کہ ہر آ نے والے زما نے کو روشن کر گئی۔ اْس وقت سے لے کر اِس وقت تک اور پھر جب یہ دنیا ختم ہو جا ئے گی تب تک یہ روشنی اْسی طرح قا ئم و دا ئم رہے گی۔ یہ دنیا، یہ کائنات بلکہ یہ دونوں جہان اور ان میں موجود ہر ہر چیز جو ربِِ ذوالجلال نے پیدا فرمائی سب اپنے حبیب کے لئے،اس محبوب کے لئے جن کی محبت ہم سب مسلمانوں کے دلوں میں پیوست ہے کہ ایمان کی بنیاد ہی اللہ اور اس کے حبیب ؐ سے محبت پر قائم ہے۔
پھر جب اس محبوب کی آمدہمیشہ سے طے تھی تو پھر اْن کی آمد کے اسباب سب پہلے سے طے تھے۔ایک انسان کی اتنی پہنچ نہیں کہ وہ اس حد تک سوچ سکے کہ خدائے ذوالجلال اور اس کے حبیب کی محبت کا کیا عالم ہے۔ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ:
اللہ اور اْس کے حبیبؐ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض ہے۔
جب َاطاعت کی بات خود اللہ نے فرمادی تو اس سے آگے تو کچھ سوچنا ہی نہیں ہے بس جو رسولؐ نے فرمادیا وہی اٹل ہے،وہی خدا تعالیٰ کا فرمان ہے۔
پھر اطاعت کے بعد اگلا مرحلہ اتباع کا ہے کہ خدا کے اْس محبوب سے اتنی محبت کہ جو نبیؐ کی سْنت دیکھی،یا کہیں سنی یا پڑھی تو اْس سْنت کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا،کہ جس سے محبت ہوتی ہے اْس کے حکم کا انتظار نہیں کیا جاتا بلکہ اْس کی پیروی کی جاتی ہے اْس کے پیچھے چلا جاتا ہے نفع نقصان کا خیال کئے بغیر، تو پھر یہاں تو نقصان کا سوال ہی نہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن اتاراوہ سب میرے نبی پاک ؐ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔
صحابہ کرامؓ نے نبی پاکؐ کا ساتھ پایا ۔صحابہ کی محبت کا تو یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کی خاطر اپنے آپ کو تیروں سے چھلنی کروالیتے ہر وقت ساتھ رہتے کہ کہیں پیارے نبی پاکؐ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔محبت کا تو یہ عالم تھا کہ پیارے نبی پاکؐ سالن میں کدٌوڈھونڈ کر نوش فرما رہے ہیں تو حضرت انسؓ کواسی وقت سے کدٌو مرغوب ہو گیا۔ اْس دور کا تو کیا کہنا کہ اْس وقت تو نبی پاکؐ کی ذاتِ مبارکہ سامنے موجود تھی پھر جب نبی پاکؐ پردہ فرماگئے تو اپنی سْنت ہمارے لئے چھوڑ گئے کہ اْمت بھٹک نہ سکے۔
؎ میں بھٹک سکوں یہ مجال کیا میرا راہنما کوئی اور ہے
مجھے خوب جان لیں منزلیں یہ شکستہ پا کوئی اور ہے
اِس جدید دور کی جدید سائنس،جدید ٹیکنالوجی جو ایجادات کر رہی ہے جو جو حقائق دریافت کر رہی ہے وہ سب تو نبی پاکؐ 1400ء سال پہلے ہی بیان فرما گئے، آسان الفاظ میں سکھا گئے۔
حضور پاکؐ نے دودھ کی بہت تعریف فرمائی ہے اور فرمایا کہ ’مجھے کوئی ایسی چیز معلوم نہیں جو کھانے اور پینے دونوں طرف سے کافی ہو جائے‘(ترمذی،ابو داؤد) آج کتنی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ دودھ ایک مکمل غذا ہے۔ اِس میں تمام معد نیات موجود ہیں جو ایک انسانی غذا کے لئے کافی ہیں۔اِسی طرح کھجور میں موجود کیلشیم،فاسفورس وغیرہ جسم کو طاقت بخشتا ہے تو نبی پاکؐ کی پسندیدہ غذاؤں میں کھجور بھی ہے اور اس سے نبی پاکؐ نے روزہ افطار کرنے کی تا کید فرمائی ہے۔ایک مرتبہ حضور پاکؐ نے حضرت ابو ذرؓ کو ایک سیب عطا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ ’یہ قلب کو تقویت بخشتا ہے اور طبیعت کو خوش کرتا ہے اور سینے کے کرب کو دور کرتا ہے۔‘(نسائی)۔تو آج سیب کو دل کے مریضوں کے لئے فائدہ مند قرار دیا گیا ہے۔ یہ سب باتیں تو اپنی جگہ ہمارے نبی پاکؐ نے تو سونے،جاگنے،اْٹھنے،بیٹھنے،کھانے، پینے،محفل میں بیٹھنے غرض زندگی کے ہر ہر موڑ پر ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔پانی پینے کا طریقہ کہ ۳ سانسوں میں پینا، بیٹھ کر پینا پھر کھانا کھانا تو بیٹھ کر کھانا اور ٹھندا کر کہ کھانا اگر تھوڑا غور کیا جائے تو ہر ہر سْنت میں فائدہ نظر آتا ھے اور کیوں نہ نظر آئے کہ ہما رے نبیؐ دونوں جہانوں کے لیئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔
؎وہ جان ِحیاتِ کونوں مکاں،وہ روحِ نِجاتِ انسانی
وہ جِس کی بلندی کے آگے افلاک ہوئے پانی پانی
وہ فِقر کا پیکر جس کے قدم،چھوتا ہے شکوۂ سلطانی
اْنؐ سے ہی مجھے نسبت ہے مگر،کب انؐکی حقیقت پہچانی
احساسِ خطا کی پلکوں سے آنسو بن کر گِر جاتا ہوں
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں لیکن کہتے شرماتا ہوں
آج ضرورت اِس بات کی ہے کہ پیارے نبی پاکؐ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کیا اور کروایا جائے کہ آج کے مسائل حل ہوسکیں۔آج کے دور کی ہر بیماری خواہ جسمانی ہو یا روحانی،کا علاج ہمارے پاس ہمارے نبی پاکؐ کی سْنت میں موجود ہے۔پھر ہم اِدھراْدھر کیوں بھٹکیں کے ہمارے پاس توکامیابی کا راز موجود ہے جس پہ عمل کر کے دنیا اورآخرت دونوں میں کامیابی اور نجات ہے۔یہی نہیں بلکہ آپؐ کی پیروی گناہوں سے نجات کا بھی ذریعہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اِرشاد فرمایا:
’اے نبی! لوگوں سے کہدو کے اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو در گزر فرمائے گا۔‘
؎سارے صنم مسمار کر خیرلبشرؐ سے پیار کر
رکھ کر نبیؐ کو سامنے آرائشِ کردار کر
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں