ہماری کائنات کی خوبصورتی ہے کہ اس میں توازن قائم ہے، اگر پوری کائنات کا ایک نقشہ بنایا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مادہ ایک سلیقے سے پھیلا ہواہے، ایسا نہیں ہےکہ کہیں مادہ زیادہ ہے اور کسی مقام پہ کم ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ شمالی کُرے پہ موجود ہو یا جنوبی کُرے میں، دونوں جانب آپ کو تقریباً 4500ستارے ہی دکھائی دیں گے۔اس سارے کھیل میں کائنات میں کہیں کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں تو کہیں ایک دوسرے سے دُور جارہی ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہےکہ ہماری کہکشاں ملکی وے بھی کئی چھوٹی کہکشاؤں کا مجموعہ ہے، یعنی اربوں سال پہلے کئی چھوٹی کہکشائیں ایک دوسرے سے ٹکراتی گئیں اور آج اُن سب کا مجموعہ ملکی وے کی شکل ہمیں ہمارے سامنے موجود ہے، یوں آنے والے 4 ارب سالوں میں ہماری کہکشاں ملکی وے اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا سے ٹکرا جائے گی،ان دونوں کے ٹکرانے سے جو نئی کہکشاں وجود میں آئے گی اس کا نام ملکومیڈا رکھا گیا ہے، اس عظیم تصادم کے کھربوں سالوں بعدہمارے نزدیک51 دیگر کہکشائیں ہماری نئی کہکشاں ملکو میڈا سے ٹکرا جائیں گی اور یہ سب ملکر ایک بہت ہی بڑی دیو ہیکل کہکشاں بنا لیں گیں۔
یہ ساری معلومات لاکھوں سائنسدانوں نے کئی جگ رُتے کرکے ہمیں پُہنچائی ہیں، یہی وجہ ہے کہ رات دیگر انسانوں کےلئے جہاں آرام کا ذریعہ ہے وہیں فلکیات کے عاشقین کے لئے یہ نعمتِ کُبریٰ ہے کیونکہ سائنسدان رات بھر کائنات سے باتیں کرتے ہیں، ستاروں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ،لہٰذا اُن کی بےچینی دیکھ کر کائنات انہیں اپنے اندر پوشیدہ راز بتاتی ہے۔ 19 اکتوبر 2017ء اُنہی راتوں میں سے ایک رات تھی جب کینیڈا سے تعلق رکھنے والےماہرِ فلکیات Robert Weryk نے ہوائی یونیورسٹی میں موجود Panstar نامی ٹیلی سکوپ کے گروپس کی مدد سے ایک چمکتا ہوا پتھر دیکھا جو ہمارے سورج سے دُور بھاگ رہا تھا،Panstar خلاء کی تاریکیوں میں جھانکتی ٹیلی سکوپس کا وہ گروہ ہے جس کا کام آسمان پہ مختلف شہابیے تلاش کرنا ہے…
رابرٹ نے اس پتھر کو نشانے پہ رکھا اور اس کی movementکو ریکارڈ کرنا شروع کیا، اس کے ساتھ ساتھ اس کے متعلق ڈیٹا دُنیا میں موجود دیگر بڑی ٹیلی سکوپ سے بھی شئیر کیا، پوری دنیا میں اس پتھر کے متعلق campaign چل پڑی جس دوران 20 دن تک دنیا بھر کی 5 بڑی Space observatories نے بھی اس پتھر کو نوٹ کیا، ملنے والی معلومات کے تحت سب سے پہلے اس پتھر کا نام C/2017 U1 رکھاگیا، اس نام کاCسے شروع ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ یہ پتھر دراصل Comet ہوگااور عموماً ایسے پتھر ہمارے نظامِ شمسی کے کناروں پہ موجود برف کے بادل اورٹ کلاؤد سے آتے ہیں(اورٹ کلاؤڈ کیا ہے اس متعلق تفصیلی مضمون کا لنک آرٹیکل کے آخر میں موجود ہے)، لیکن جب مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ Comet یا دُم دار ستارے کے پیچھے توگیس کی بنی ہوئی دُم ہوتی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ پتھر کوئی دُم دار ستارہ نہیں تھا، اس کے بعد اس پتھر کو A/2017 U1 دیا گیا، اس نام میں A سے شروع ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ یہ دراصل ایک Asteroid ہوگا، شہابیے یا Asteroid اُن آوارہ پتھروں کو کہا جاتا ہے جو بہت چھوٹے ہوتے ہیں اورسورج کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں.
جب مزید تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اس پتھر کی رفتار 87 کلومیٹر فی سیکنڈ تھی لیکن شہابیوں کی رفتار 19 کلومیٹر فی سیکنڈ ہوتی ہے، اِس کی اِس رفتار نے سائنسدانوں کو چونکا دیا کیونکہ یہ رفتار بتا رہی تھی کہ یہ پتھر ہمارے نظام شمسی کا نہیں بلکہ باہر کسی اور ستارے سے آیا ہے، کیونکہ 87 کلومیٹر فی سیکنڈ وہ رفتار ہے وہی پتھر حاصل کرسکتا ہےجو باہر سے آیا ہو،اس دریافت نے دُنیا بھر کے فلکیات دانوں کو حیران کردیا، کیونکہ آج تک ہم نے جتنے بھی پتھر دیکھے تھے وہ ہمارے اپنے نظام شمسی کے ہی تھے لیکن یہ پہلا پتھر تھا جو ہمارے لئے پردیسی تھا!، جس وجہ سے International Astronomical Union (فلکیاتی اجسام کو نام دینے والی سوسائٹی) کو ایک نئے گروپ کا اضافہ کرنا پڑا اور اس کو 1I/2017 نام دیا گیا، اس کے نام میں I حرف اس بات کو ظاہرکرتاہے کہ یہ Interstellar object ہے جبکہ 1 یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پہلا Interstellar objectہے جسے ہم نے اتنے قریب سے دیکھا ہے، اس کا آسان نام امواموا(Oumuamua) رکھا گیا، یہ ہوائین زبان کا نام ہے، جس کا مطلب ہے کہ دُور سے آیا ہوا قاصد……
بات صرف یہی تک رہتی تو شاید ہضم بھی ہوجاتی لیکن مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ زمین پہ موجود تمام ٹیلی سکوپس سے بظاہر یہ پتھر گول ہی دکھائی دے رہا تھا مگر اس کی روشنی میں ہر 7 سے 8 گھنٹوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی تھی ایسا صرف تب ہوتا ہے جب کوئی شے لمبی ہواور قلابازیاں کھا رہی ہو کیونکہ ایسی اشیاء جب سیدھی ہوتی ہیں تو ان سے زیادہ روشنی زمین کی جانب منعکس ہوتی ہے، لیکن جب ٹیڑھی ہوتی ہیں تو زمین کی جانب بہت کم روشنی منعکس کرتی ہیں ،جس کے باعث ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ پتھر اپنے axis پہ ایک چکر 7.3 گھنٹوں میں مکمل کرتا ہے، اور یہ ایک axis پہ نہیں بلکہ مختلف directionsمیں قلابازیاں کھا رہا ہے، اس انوکھے مسافر کی چوڑائی 80 میٹر جبکہ لمبائی 800 میٹر تک تھی، یہ اس حد تک عجیب و غریب structure کا حامل تھا کہ ایسا کچھ ہم نے آج تک کائنات میں کہیں نہیں دیکھا، اس سے ملنے والی روشنی کی بدولت اندازہ لگایا گیا کہ یہ دیکھنے میں کسی ایلین اسپیس شپ جیسا ہوگا، اس سے منعکس ہونے والی روشنی سُرخ تھی جس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ پتھر metal سے بھرپور تھا،اِس پہ موجود دھاتوں کا سُرخ اور کالا رنگ ظاہر کرتا تھا کہ اس نے کروڑوں سال تک کاسمک ریز برداشت کیں ہیں، کاسمک ریز وہ خطرناک ریڈیشنز ہیں جو ستاروں کے درمیان خلاء میں موجود ہیں،آگے چل کے مزید تحقیق سے پتہ چلا کہ چونکہ اس پتھر میں سے کسی قسم کی کوئی گیس خارج نہیں ہورہی تھی لہٰذا معلوم ہوا کہ اس میں کم از کم 3 فٹ تک کی گہرائی میں کہیں بھی کوئی گیس بھی برف کی شکل میں موجود نہیں ہے،
عموماً دُور دراز سے آنے والے پتھروں پہ گیسز برف کی شکل میں موجود رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ کئی سائنسدانوں کو مغالطہ لگا کہ شاید یہ خلائی مخلوق کی جانب سے بھیجا گیا کوئی خلائی جہاز تو نہیں؟ جس کی کنفرمیشن کے لئے جب ریڈیو ٹیلی سکوپس کا رُخ اس کی جانب کیا تو کوئی سگنل موصول نہ ہوا۔Oumuamua خالص کشش ثقل کی وجہ سے اپنے راستے ہی گامزن ہے،اگر یہ کوئی اسپیس شپ ہوتی تو لازماً کنٹرولڈ ہوتی اور ہمیں اس کی حرکات و سکنات سے معلوم ہوجاتا۔یہ معلومات ملنے کے بعد سائنسدانوں نے کوشش کی کہ پتہ لگایا جائے کہ یہ کس ستارے سے آیا؟تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ Lyra نامی ستاروں کے گروپ سے آیا ہے، لیکن اس گروپ میں سے کس ستارے سے آیا ہے؟
ہمیں شک ہے کہ شاید یہ Vega نامی ستارے سے آیا ہولیکن یاد رہے کہ اس شک میں سو فیصد غلطی کا امکان موجود ہے!یہی وجہ ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ اگر تو یہ Vega نامی ستارے سے آیا ہے تو یہ وہاں سے 6 لاکھ سال پہلے چلا ہوگا، یاد رہے کہ یہ پتھر hyperbolic path کو فالو کررہا تھا اور اس کےمدار کی eccentricity تقریباً1.2تھی(اگرکسی بھی شے کے مدار کی eccentricity ایک سے کم ہو تو وہ ایک نقطے کےگرد چکر لگاتی رہتی ہے اور اس کیس میں eccentricity ایک سے زیادہ تھی)، جس کے باعث ستمبر2017ء میں یہ سورج کا چکر کاٹ کر نظام شمسی سے باہر جانے والی راہداریوں پہ نکل پڑا،سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ 9 ستمبر 2017ء کو یہ سورج کے اتنا قریب پہنچ گیا تھا کہ اس کا سورج سے فاصلہ محض 3 کروڑ 80 لاکھ کلومیٹر رہ گیاتھا۔
یاد رہے کہ عطارد کا سورج سے فاصلہ تقریباً 5.7 کروڑ کلومیٹر ہے، یعنی یہ پُرسرار مسافر سورج کےاتنا نزدیک پہنچا کہ عطارد بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکا،14 اکتوبر 2017ء کو یہ زمین سے محض 2 کروڑ 41 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گزرا،یکم نومبر 2017ء کو یہ مریخ کے نزدیک سے گزرا،جنوری 2018ء کو اس کی روشنی اتنی دھیمی ہوگئی کہ یہ ٹیلی سکوپ سے بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہا،جس کے باعث ہبل ٹیلی سکوپ کو اس کی جاسوسی پہ لگا دیا گیا، مئی 2018ء کو یہ مشتری کے نزدیک ترین سے گزرا ،جبکہ آج سے ایک ماہ بعد جنوری 2019ء کو زحل کے قریب سے گزرے گا،2021ء کے آخر میں یہ نیپچون کو کراس کرجائے گا ،ہمیں اس کے تیور دیکھ کر اندازہ ہوا ہے کہ اس کو ہمارے نظام شمسی سے مکمل طور پہ نکلنے کے لئے تقریباً23ہزار سال درکار ہونگے جس کے بعد اس کی اگلی منزل Pegasusنامی ستاروں کا جھرمٹ ہوگا،جہاں یہ تقریباً 76 لاکھ سال بعد پہنچے گا۔کچھ سائنسدان یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پتھر کسی ایسےستارے سے آیا تھاجسے بنے ہوئے کچھ کروڑ سال گزرے ہونگے،اگر ایسا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا سورج وہ پہلا ستارہ ہے یا ہمارا نظامِ شمسی وہ پہلا نظام ہے جس میں یہ پتھر مکمل طور پہ سیر کرکے نکل کررہا ہے، لیکن یہ 100 فیصد یقین سے نہیں کہا جاسکتا اسی خاطراس کی شکل کو دیکھ کر کئی سائنسدانوں یہ خیال بھی قائم کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آج سے اربوں سال پہلے کوئی planetکسی ستارے کے گرد چکر لگا رہا تھا، اس دوران اُس ستارے نے اپنی طبعی عمر پوری کرلی اور وہ supernova (دھماکے) کے بعد پھٹ گیا، دھماکے کے باعث اس کے گرد چکر لگانے والا ایک سیارہ اپنے محورسے نکل گیا، اور لاکھوں سال تک خلاء میں بھٹکتا رہا،اس دوران اس planetکا چار مختلف ستاروں سے سامنا ہوا ،اُن ستاروں کی کشش ثقل کے باعث وہ سیارہ ٹکڑے ٹکڑے ہوتا رہا اور انہی ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا Oumuamuaکی شکل میں ہمارےسامنے سے گزرا، یعنی امواموا دراصل کسی سیارے کی باقیات ہوسکتا ہے. لہٰذا اب یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ماضی میں یہ کس ستارے کا حصہ رہا ہے!
ایک اور خیال یہ بھی ظاہرکیا جارہا ہے کہ ہمیں آج تک اندازہ تھا کہ ہماری Interstellar Space (ستاروں کے درمیان خلاء) میں بھی کافی پتھر اور سیارے موجود ہوسکتے ہیں جو کسی ستارے کے گرد چکر نہیں لگاتے ،لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اموامواایسا ہی کوئی پتھر ہو۔کچھ ماہ پہلے ہبل ٹیلی سکوپ کے ذریعے اس کا پیچھا کرتے سائنسدانوں نے حیرت انگیز طور پہ رپورٹ کیا کہ مشتری کو کراس کرنے کے بعد Oumuamua کی رفتار میں اچانک سے بدلاؤ آیا ہے، یہ بدلاؤ مشتری کی کشش ثقل کے باعث نہیں بلکہ کسی اور وجہ سے آیا ہے ، جس کی فی الحال توجیہہ یہ پیش کی گئی ہے کہ سورج کی ریڈیشن کی وجہ سے اس میں موجود گیسز کا اخراج ہوا ہے جنہوں نے تھرسٹرز (راکٹ) کا کردار ادا کرتے ہوئے اس کی رفتار بڑھا دی ہے۔
لیکن اس مقام پہ ایک بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو اس کی رفتار میں ایسا بدلاؤ اُس وقت پیش کیوں نہیں آیا جب یہ سورج کے نزدیک سے گزر رہا تھا ، اتنی دُور پہنچ کر جب یہ مشتری کو کراس کرچکا ہے اُس وقت اچانک اس کی رفتار میں اتنا بدلاؤ آجانا حیران کن ہے!سائنسدان اس کا یہ جواب دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے اس سے گیسز کا اخراج ہورہا ہو لیکن وہ اس حد تک کم ہو کہ ٹیلی سکوپ اسے detect نہ کرپارہی ہو،یہی وجہ ہے کہ فلکیات کے چاہنے والوں نے یہ بھی suggestions دیں کہ ہمیں اِس پُراسرار مسافر کی جانب ایک اسپیس مشن لانچ کرنا چاہیے جوا س پہ لینڈ کرے اور اس سے سیمپلز اکٹھے کرکے واپس لوٹے مگر امواموا کی انتہائی تیز رفتاری کے باعث ایسا مشن بھیجنا اس وقت ممکن نہیں۔ہمیں آج تک معلوم تھا کہ ستارے آپس میں مادہ شیئر کرتے رہتے ہیں لیکن یہ پہلی بار ہے کہ ہمیں کوئی ایسا جسم آسمانی پردے پہ دکھائی دیا ہے جو “پردیس”سے تھا، جس کے باعث سائنسدانوں کو اب معلوم ہوگیا ہےکہ اگر کوئی باہر کی دنیا کا پُراسرارمسافر ہماری دہلیز پہ آتا ہے تو اس کی خصوصیات کیا ہونگی اور ہم نے کیسے اس سے معلومات حاصل کرنی ہیں، اندازہ ہے کہ روزانہ ہزاروں کے حساب سے امواموا جیسے پتھر ہمارے نظام شمسی میں داخل ہوتے رہتے ہیں اور کئی تو زمین کے پاس سے گزر کر چلے جاتے ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں ہوپاتا،لیکن سائنسدان مستقبل کے لئے محتاط ہوچکے ہیں تاکہ اگر کوئی ایسا مسافر آئے تو اس کی “مہمان نوازی” لازمی کی جائے اور اس سے نظام شمسی سے باہر کا حال احوال بھی پوچھا جائے
2019ء میں سائنسدان چلی میں Large Synoptic Survey Telescope کو فعال کریں گے جس کے باعث امید ہے کہ آنے والے وقت میں ایسے کئی پتھر detect ہوسکتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ 21ویں صدی میں رہتے ہوئے بھی ہمیں کائنات کے متعلق ہر آن ایسے حقائق جاننے کو مل رہے ہیں کہ انسان حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دبا لیتا ہے۔امواموا کیا واقعی ایک خلائی پتھر تھا یا metal کابنا ہوا کوئی ایلین اسپیس شپ جو ہماری زمین کے متعلق معلومات لینے آیا ہو،اور اب اپنی رفتار بڑھا کر دوبارہ اپنی منزل کی جانب گامزن ہو…اب تک کی معلومات کے مطابق ہمیں کائنات کے کسی گوشے میں کہیں بھی زندگی کا کوئی سراغ نہیں مل پایا،لیکن ہمیں امید ہے کہ کائنا ت میں زندگی موجود ہوگی،اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو یہ کہ کائنات کے دُور دراز علاقوں میں جب ہم جھانکتے ہیں تو دراصل ہم اُن کا لاکھوں کروڑوں سال پُرانا ماضی دیکھ رہے ہوتے ہیں، آج ان کی کیا حالت ہے یا وہاں زندگی موجود ہے؟ ہمیں نہیں معلوم…دوسری وجہ یہ ہے کہ جو عناصر زمین پہ موجود ہیں وہی کائنات کے دوسرے سیاروں پہ بھی موجود ہیں،لہذا اگر زندگی کے بیج زمین پہ پنپ سکتے ہیں،تو کائنات کے دوسرے گوشوں میں بھی اُگ سکتے ہیں، لیکن اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے نزدیک جو زندگی کی definition ہے وہ ٹھیک ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کائنات میں زندگی موجود تو ہو مگر کسی اور شکل میں…. کائنات اتنی پُراسرار کیوں ہے؟ اس کا جواب جو بھی ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہی پُراسراریت اسے ہمارے نزدیک خوبصورت بنائے رکھتی ہے!
زیب نامہ
اورٹ کلاؤڈ کے متعلق تفصیلی مضمون پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجئے:
اورٹ کلاؤڈ کے متعلق اردو ڈاکومنٹری دیکھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پہ کلک کیجئے:
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں