وزیر اعظم کی تقریر۔۔۔۔۔ڈاکٹر مختیارملغانی

اٹلی کے معروف مجسمہ ساز مائیکل اینجلو (Michelangelo) نے کہا تھا کہ شاہکار کوئی چھوٹی چیز نہیں، مگر چھوٹی چیزیں مل کر ہی شاہکار کو جنم دیتی ہیں،
سب سے پہلے تو ان لوگوں کی سوچ پر حیرانگی ہے جو وزیر اعظم کے مرغی، انڈہ و دیگر پروگرامز کو چھوٹا ثابت کرنے پہ تلے ہیں، حالانکہ معاشرے میں خوراک کی کمی کو پورا کرنے کی ہر کوشش ایک عظیم کوشش تصور کی جانی چاہیے، اور ساتھ میں اگر یہ منصوبہ خوراک کی فراہمی کے علاوہ بے روزگاری کیلئے بھی مفید ثابت ہو تو اس کی اہمیت دوگنی گردانی جانی چاہیئے۔
لیکن اگر یہ کوئی میگا منصوبہ نہ بھی ہوتو ایک خاص اہمیت کا حامل ضرور ہے، اور ایسے منصوبہ جات مل کر ہی مستقبل کی بہتری کا باعث بنیں گے، مگر ہم چونکہ نفسیاتی طور پر ان دیومالائی کہانیوں پر یقین رکھنے کے عادی ہیں کہ کوئی آسمانی قوت ، بیک جنبشِ ابرو، ہمارے تمام حالات کو سدھار دے، اس لیے محنت سے کنارہ کشی اور مرغی و انڈے جیسی “چھوٹی چیزوں ” کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا تعجب کا باعث نہیں، اگرچہ جیسا کہ عرض کیا کہ یہی معمولی لوازمات مل کر ایک شاہکار کو جنم دیتے ہیں۔

اسی کاروبار کی آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی حمزہ شہباز نے اس کو اپنانا اور شہباز شریف نے انڈوں و مرغی کے فوائد پر سرکاری خزانے کو گھر کی لونڈی کی طرح استعمال کیا، تاکہ فرزندِ ارجمند کا کاروبار زیادہ سے زیادہ پھیلے، تب کے ارسطو ہمیں پروٹین کے فوائد بتاتے تھکتے نہ تھے، مگر آج ان کے لہجوں سے طنز ٹپک رہا ہے، فرق صرف یہ ہے کہ تب تمام سرمایہ ایک ہی خاندان کی جیب میں جا رہا تھا، جبکہ اب آپ خود کمائیں اورخود کھائیں والا فارمولا لاگو ہوگا، اس سے ان ارسطوؤں کی عوام سے خیر خواہی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
خدا کے بندو، لیڈر کی ترجیحات ہی اس کی نیّت کا پتہ دیتی ہیں، اور ترجیحات کا آپ کی سوچ اور جذبۂ نیکی سے گہرا تعلق ہے، نواز شریف، آصف زرداری، فضل الرحمان صاحب کی سوچ کا مرکز ان حضرات کا پیٹ ہے، نواز شریف کی سوچ اسی مرکز سے شروع ہوکر اسی پہ ختم ہوجاتی ہے، زرداری صاحب کی سوچ کا دائرہ قدرے وسیع ہے، یعنی کہ پیٹ اور اس سے کچھ نیچے، جبکہ فضل الرحمن صاحب ایک معمّہ ہیں جو نہ سمجھے جا سکتے ہیں اور نہ سمجھائے جا سکتے ہیں، اس بارے مزاحیہ شاعری کے استاد خالد مسعود کراچی والوں کی بابت ایک لطیفہ سنایا کرتے ہیں، مگر مولانا صاحب کا احترام آڑے ہے کہ یہاں اس لطیفے کو لکھا جائے۔

اسلام کے نام پر مولانا صاحب ووٹ لیتے آرہے ہیں مگر آج تک بے گھر مسلمانوں کیلئے ان کی کیا خدمات ہیں؟، مختلف صوبائی و مرکزی حکومتوں کا حصہ رہتے ہوئے مولانا نے کبھی بھوکوں کیلئے خوراک کی فراہمی کا کوئی پروگرام تجویز کیا ہوتو سامنے لایا جائے، خیبر پختونخواہ میں بچوں کی تعلیم کی اہمیت بارے مولانا صاحب نے اپنے فنِ خطابت کا مظاہرہ کیا ہو تو ہمیں بھی سماعت کا موقع دیا جائے، خداکے بندو، انسانوں کی بنیادی ضروریات ہی ریاست کی اولین ترجیح ہوا کرتی ہیں، بھٹو صاحب اس لئے عوام میں پسندیدہ قرار پائے کہ روٹی کپڑا اور مکان جیسی بنیادی و لازمی ضروریات کو انہوں نے اپنا منشور بنایا، جدید دنیا میں اس کو سوشل سیکیورٹی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی ابتداء خلافتِ راشدہ میں ہوئی تھی، فرات کے کنارے پڑے کتے کی ذمہ داری بھی ریاست کی ہے ، والا قول اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اور اسی سوشل سیکیورٹی کے وزیراعظم خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

خان صاحب کے آہنی اعصاب کی داد دینی پڑتی ہے، کہ وہ عوام کے بھلے کو کوشش میں ہیں، اور یہی عوام نہیں چاہ رہی کہ ان کا بھلا کیا جائے، ایسی صورت میں مشکلات بڑھ جاتی ہیں، اور عوام کا یہ رویہ، نتیجہ ہے اس ذہن سازی کا جو کئی دہائیوں سے مسلّط رہبروں نے کی، اب مثبت سوچ یا فہم و فراست ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔
ایک پیچیدگی جو خود ساختہ ہے وہ خان صاحب کا اسلوبِ تقریر ہے، اسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانےسے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اچھے اچھے منصوبوں و حکمتِ عملیوں کو ایسے انداز میں پیش کریں گے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، اور مخالفین تو اسی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی کمزور جملہ یا مشکوک لفظ ہاتھ آئے اور تنقید کے بہانے مل سکیں، اور خان صاحب اینی تقاریر میں ان ناقدین کو کبھی مایوس نہیں کرتے، خان صاحب کے مشیر انہیں کچھ سنجیدہ کتب کے مطالعے کی تلقین کیوں نہیں کرتے؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply