• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • غافر شہزاد کا ناول” مکلی میں مرگ”/موضوعات کا پھیلاؤ اور تفہیم کے مسائل۔۔رحمان حفیظ

غافر شہزاد کا ناول” مکلی میں مرگ”/موضوعات کا پھیلاؤ اور تفہیم کے مسائل۔۔رحمان حفیظ

کسی مشہور ادیب کا کہنا ہے کہ بڑے ناول کی تخلیق بڑے موضوعات سے مشروط ہے اور تقسیم ہند کے بعد کوئی بڑا موضوع سامنے نہیں آ یا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی نئے موضوعات کی دریافت کا عمل جاری رہا ہے اور ماضی قریب میں شائع ہونے والے کئی ایسے ناولوں کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن کے موضوعات نئے اور منفرد ہیں۔ غافر شہزاد کے تازہ ناول ” مکلی میں مرگ” کو بھی اسی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس ناول میں مزارات اور ان سے وابستہ کہانیوں کو جدید دور کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے ۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ مزارات سے وابستہ سرگرمیاں عوام کی بے پناہ شرکت کے باعث ایک تاریخی انڈسٹری کا درجہ اختیار کر گئی ہیں اور اس پوشیدہ و پراسرار دنیا کا اپنا حسن و قبح ہے جو غافر شہزاد جیسے صاحب نظر سے کیسے اوجھل رہ سکتا تھا خاص طور پر مالی فوائدحاصل کرنے والے حکومتی کارندے اور عوام میں ان کے آلہ کار جو اس شعبے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ غافر ؔشہزاد کے ذہن رسا نے ایسے تما م کرداروں اور ان کے متعلقات سے ایک پلاٹ ترتیب دیا جو ایک شاندار ناول کی شکل میں ہمارے سامنے آیا ہے اور امید ہے کہ یہ نہ صرف شائقین بلکہ نقادوں کی توجہ بھی حاصل کرے گا۔
اس ناول میں غافر شہزاد کے لئے سب سے بڑا چیلنج اس پلاٹ کی منفرد اور مختلف فضا تھی جس کے سیکڑوں پہلو تھے. ان پہلووں میں سے بیشتر کا ایک ہی قاری کے چشم و ذہن کی رسائی میں ہونا مشکوک تھا۔ مثلا مقبروں کی تعمیرکی تاریخی نفسیات ، اس مخصوص فن تعمیر کا پس منظر اور متعلقہ تعمیراتی پیچیدگیاں اس کی چند مثالیں ہیں۔ پھر ان مقبروں سے مسقلا جڑے افراد کے معاملات و مسائل ، ان کی شخصی خامیاں اور خوبیاں، فراہم کردہ ماحول کے نتائج و عواقب اور دیگر کے بارے میں عام آدمی کی معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں، عوام کے ذہن میں مزارات کے حوالے سے صرف اور صرف محبت اور عقیدت کا تاثر حاوی ہوتا ہے۔باقی تمام جہات ان کے لئے اہم نہیں ہوتیں ۔ مصنفکے لئے ان تفصیلات میں دلچسپی پیدا کرنا ایک پیچیدہ اور بہت مشکل عمل تھا ۔
تعمیرات کے حوالے سے صرف یہی نہیں بلکہ ایک اور اہم معاملہ بھی درپیش تھا اور وہ تھا ہمارے مزاراتی انداز تعمیر کا تجزیہ اور کسی حد تک اس کا بین الاقوامی جدید انداز تعمیر سے موازنہ۔ اس کی وجہ اس ناول کا مرکزی کردار ارسلان ہے جو امریکہ کا پڑھا لکھا فردہے لیکن اس کے آباو اجداد کا تعلق بستی غلام فرید پاکستان سے ہے ۔ وہی اس ناول کے ایک اہم ٹرننگ پوائنٹ کا باعث بھی بنتاہے۔ غافر شہزاد کے بقول اس کردار کی کایا کلپ ہوتی ہے مگر ان معنیٰ میں نہیں جس طرح کافکا کے افسانے ” میٹا مارفوسز” یا انتظار حسین کے افسانے ” آخری آدمی” میں دکھائی گئی ہے۔ یہ کایا کلپ نظریاتی اور تخلیقی سطح پر وقوع پذیر ہوتی ہے اور ارسلان کے مجازی بطن سے ایک نیا ارسلان پیدا ہوتاہے۔
لوگوں کی نظر میں تو وہ اپنی تمام تر بین الاقوامی مہارت، حاصل کردہ تجربے اور جدید تخلیقی اپروچ سے دست بردار ہو کر بظاہر پیشہ ورانہ خود کشی کی جانب قدم بڑھاتا ہے لیکن در اصل یہ اس کا نیا تخلیقی جنم قرار پاتا ہے۔ یہی کایا کلپ اس ناول کو ایک نئے اور دلچسپ باب میں داخل کر دیتی ہے جو مصنف کے لئے کسی صورت بھی آسان نہیں ٹھہرا ہو گا۔ اس کردار کی ضروریات کے لئے اسے کئی اضافی کردار بھی تراشنے پڑے ۔ ان سب کا جواز پیدا کرنا، انہیں پینٹ کرنا، اور پھر ان سے کام لینا ایک نئی مہم تھی مگر اسے کامیابی سے مکمل کر لیا گیا۔
اس سلسلے کا مرکزی کردار ایک صحافی طارق اسمعٰیل ہے جو بنیادی طور پر ایک ارکیٹیکٹ ہی ہے لیکن اس کا روزگار صحافت سے جڑ جاتاہے۔ ارسلان کے ساتھ طارق اسماعیل کے ایک سفرکی مدد سے کہانی آگے بڑھتی ہے اور طارق اسمعیل اپنی تمام تر توجہ مزارات کے دوروں ، ان کے سماجی ، روحانی اور تعمیرانی معاملات کو سمجھنے اور ان کا درست تجزیہ کرنے میں صرف کردیتا ہے، اس سلسلے میں اسے ایک اور کرداز بابا مستان کا تعاون بھی مل جاتا ہے جس کے نتیجے میں کئی دلچسپ کہانیاں سامنے آتی ہیں جن کا سرسری ذکر میں نے اس مضمون کے آغاز میں کیا تھا۔
چوبیس ابواب پر مشتمل یہ ناول نہ تو محض تاریخ ہے اور نہ نری فکشن بلکہ قاری کو ان دونوں کے درمیان ایک دلچسپ راستہ سجھایا گیا ہے ۔ ناول کے اندر ایک نازک معاملہ مختلف مباحث اور مکالمات میں مذہبی جذبات کا خیال رکھنا بھی تھا جسے کافی ہوشیاری اور معاملہ فہمی سے نپٹایا گیا۔ مصنف نے کہانی کو اس انداز سے آگے بڑھایا ہے کہ توازن اور غیر جانبداری کو مقدم بنایاجا سکے ۔ مزار اور مقبرہ بظاہر ملتے جلتے الفاظ ہیں لیکن ناول میں ان کی اپنی اپنی معنویت بھی آشکار ہوتی ہے۔ ناول میں جا بجا چشم کشا حقائق اور ان سے اخذ کردہ نتائج قاری کو متوجہ کرتے ہیں۔ کئی ایسے مقامات ہیں جہاں پیرا گراف کے پیرا گراف دانش اور منطق کی آبیاری کرتے ہیں۔ ناول کے ابتدائی باب سے چند سطور ملاحظہ ہوں
کوٹ :
تدفین کے لئے قبرستان بنائے جاتے ہیں مگر ذہنوں میں نقش ایسی شخصیات کے قبرستان کبھی نہیں بنتے۔ آخر کیوں؟ کچھ عرصہ کے لئے کوئی بھول بھی جائے ، تب بھی اچانک کسی روز ، کسی لمحے اس کے وجود کا زبردست احساس اچانک زندہ ہو جاتا ہے ، جیسے کسی قبر سے کوئی اٹھ کر آگیاہو ، مگر حقیقی زندگی کے قبرستانوں سے کبھی کوئی اٹھ کر نہیں آیا ، کبھی آ بھی نہیں سکتا۔ حقیقی قبر ایک ہی ہوتی ہے لیکن مختلف لوگوں کے ذہنوں میں ایک ہی شخص کی الگ الگ قبریں الگ الگ شناختیں ہوتی ہیں جو اگلی نسلوں میں منتقل ہو کر تعداد میں بڑھتی چلی جاتی ہیں
انکوٹ :
اس ناول میں اگرچہ کرپشن ایک مرکزی مسلے کے طور پر سامنے آتی ہے لیکن اس کے علاوہ بہت سی مختصر اور پیچیدہ کہانیاں بھی اس کا حصہ ہیں۔ سات اٹھ اہم کرداروں کی ایک کھیپ ہے جن کو مکمل طور پر سمجھنا ضروری ہے ۔ چونکہ ناول ایک مخصوص , قدرے اجنبی فضا میں تخلیق کیا گیا ہے جو بہت حساس بھی ہے اس لئے اس میں کچھ ان کہے حقائق بھی ہیں اور ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق اسی کرپشن سے ہے جو کوئی سادہ، اور آسانی سے سمجھ میں آجانے والا مسلہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی ناقابلِ یقین ہستیاں اور تنظیمیں ، جعلی زائرین، مقامی و عالمی این جی اوز اور بہت سے دوسرے اہم لوگ اور ادارے بھی شامل ہیں۔ ہر معاملے کو قومی راز سمجھنے والوں کے معاملات ، سرکاری افسروں کی دلچسپیاں، فرقہ واریت پسندوں کی مسابقت غرضیکہ طرح طرح کے مسائل ناول کا حصہ ہیں۔ اس طرح کے ناول کی کہانی بظاہرپیچیدہ سی لگتی ہے اور درست تفہیم کے لئے سرسری نہیں بلکہ بالاستیعیاب مطالعہ چاہیئے جس کے بعد اس ناول کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا ۔
یہ جانبدارانہ تاریخی، رومانوی اور داستانوی ناولوں سے مختلف ایک منفرد کاوش ہے اس لئے اس کی تکینیک بھی الگ ہے۔ اس میںنہ تو روایتی آغاز و اختتام کا اہتمام ہے اور نہ فارمولا قسم کی ترتیب و تنظیم۔ قاری کو اس ناول کے ساتھ وقت گزارنے کا تاکید کی جا سکتی ہے۔ اس سے اس ناول کی تفہیم میں اضافہ ہو گا جو اس کی قدر و قیمت کے درست تعین کا باعث بنے گا(رحمان حفیظ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply