رابرٹ جیسے ہی پاکستانی مارکیٹ میں داخل ہوا اس کی آنکھیں حیرت کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ بھلا انگریز بابو کہاں ان رمز آشنائیوں سے واقف ہوں گے۔ بازار میں کیا ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ کوئی سامان اٹھائے بھاگ رہا تھا تو کوئی سامان اٹھانے کے لیے بھاگم بھاگ میں مصروف تھا۔
رابرٹ کا لباس دیکھ کر پوری مارکیٹ قہقہہ لگانے لگی۔
کس سیارے سے آئے ہو۔
اسے خلائی لباس میں ملبوس دیکھ کر ایک دکاندار نے سوال کیا۔
کیا یہاں کرونا نہیں آیا؟
اس نے حیرت سے سوال کیا۔
یہاں وقت پر پانی نہیں آتا۔ سردیوں میں گیس نہیں آتی۔ گیزر بھی ہو تو پانی گرم نہیں آتا۔ کھانا کھانے کے بعد ڈکار نہیں آتا۔ تم کرونا کی بات کررہے ہو۔وہ کہاں سے آئے گا۔
چند صاحبان اس کے لباس کی جانب دیکھتے ہوئے ہنس کر کہنے لگے۔
مگر اعداد تو بتاتے ہیں کہ لوگ روز مررہے ہیں۔
اس نے دوبارہ حیرت سے سوال کیا۔
اوہ۔۔۔اس شخص نے دوبارہ رابرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت سے سامنے کی جانب اشارہ کیا۔
وہ سامنے جو شخص طوطا لیے بیٹھا ہے وہ علم الاعداد کا ماہر ہے۔ جاؤ اپنی قسمت کا فال بھی نکالو۔ ہم اسی عدد کو جانتے ہیں۔
ہر طرف ہنسی گونجنے لگی۔
آپ لوگ کرونا پر یقین نہیں رکھتے؟
اس نے حیرت سے دوبارہ سوال کیا۔
کرونا! وہ چِپ والی کہانی۔۔۔۔۔۔تمہارا بل گیٹس ۔۔۔۔
ایک شخص نے اس کے کیمرے کو چھیڑتے ہوئے ادھوری بات کی۔
کیسی چپ، کیسا بل گیٹس۔۔۔۔۔۔یہ تو سفاک وائرس ہے۔
اس نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں۔ یہ اسرائیل کی چال ہے۔ تاکہ 5جی چپ ہمارے اندر ڈالی جا سکے اور ہمارے دماغ کو کنٹرول کیا جاسکے۔
سڑک پر پان کی پیک سے حملہ آور دوسرا شخص بولا۔
تم مانو یا نہ مانو۔ یہاں ہسپتالوں میں زہر کے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ کوئی کرونا نہیں ہے۔ لوگوں کو مار کر امداد لی جارہی ہے۔ مسلمان کو کرونا نہیں ہوسکتا۔ یہ کافروں کی بیماری ہے۔
قدرے فاصلے پر بیٹھا شخص چیخنے کے انداز میں چائے کا سپ لیتے ہوئے کہنے لگا۔
کیا واقعی۔۔
رابرٹ نے غیر یقینی نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
تبھی ایک بوڑھے اسی 80 کے بابا جی اس کی جانب مڑے۔
میں کبھی تمہاری ویکسین نہیں لگاؤں گا۔ سنا ہے اس سے بندہ مزید بچہ پیدا نہیں کرسکتا۔
یہ بات سن کر رابرٹ نے سر پیٹ لیا۔
اس نے غور سے دیکھا تو کہیں کوئی پان کھارہا تھا تو کسی کھوکھے پر چائے پینے والوں کا ہجوم تھا۔ قریب ہی خواتین کپڑوں پر یوں ٹوٹ رہی تھیں جیسے آج سب کچھ لے کر جائیں گی۔80 فی صد لوگ ماسک کے بغیر گھوم رہے تھے۔ سڑکوں پر گھمسان کا رش تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی اور مستزاد یہ قوم اس بیماری پر کسی صورت یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔
بل گیٹس چپ لگا کر کیا حاصل کرے گا۔
اس نے مایوسی سے ایک پڑھے لکھے شخص سے سوال کیا۔
وہ چاہتا ہے کہ ہمارے ذہنوں کو کنٹرول کیا جائے۔ اسے ہمارا اٹیم بم چاہیے۔ وہ وہاں تک پہنچنا چاہتا ہے بلکہ وہ ہمیں ذومبی بنانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم سب اس کے ونڈوز سے کنٹرول ہوں۔ بھائی ایپل کی ونڈو بھی ہو تو سمجھ آتی ہے۔ ویسے آپ کا آئی فون بڑا پیارا ہے لگتا ہے سستے میں ملا ہے۔
اس شخص نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یعنی آپ ماسک نہیں لگائیں گے؟
اس نے آخری بار پوچھا۔
نہیں ماسک بھی لگاتے ہیں جہاں ناکہ لگا ہو،وہاں لگاتے ہیں۔ پلازوں میں جاتے وقت مجبوراً لگانا پڑتا ہے۔ ویسے سنا ہے اس ماسک میں بھی وائرس ہے۔ یوٹیوب پر اس کی ویڈیو بھی ہے۔
اس شخص نے دوبارہ جرح کرتے ہوئے کہا۔
مگر ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ یہ وائرس موجود ہی نہیں ہے۔ ایک چیز جب موجود ہی نہیں ہے تو ماسک میں کیسے آگئی ۔۔؟
اس کی بات سے وہ صاحب ذرا ڈگمگائے ۔
بس جی ایسا ہی ہے مگر ہم مسلمان ہیں۔ سونف اور ادرک کا قہوہ پئیں۔ نیم استعمال کریں۔ وائرس حملہ نہیں کرسکے گا۔بس ناک میں پانی ڈالتے رہیں۔ اگر پھر بھی فرق نہ پڑے وہ ہمارے محلے میں حکیم صاحب ہیں۔ ان کی پھکی سے موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہوتا ہے۔ وہ استعمال کرلیں۔
رابرٹ سٹپٹا کر ارد گرد دیکھنے لگا۔ کوئی اس کے کیمرے کو چھیڑ رہا تھا۔ کوئی منہ کھول کر اس کی جانب ہنستے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ سامنے ہی ایک لڑکا اس کے سامنے شیخی بھگارتے ہوئے ون ویلنگ کرنے میں مصروف تھا۔ غرض پورا مجمع اسے کارٹون سمجھ کر نظروں کو سکون پہنچا رہا تھا۔
تبھی اس نے رخ بدلا۔ اگلے دن کی فلائیٹ لی اور یہ کہہ کر اپنے ملک میں چلا گیا۔
یہاں کرونا ، پولیو، یا کوئی بھی وائرس کسی بھی حکیم کی پھبکی یا پھر ادرک اور لیموں کے قہوے سے ٹھیک ہوسکتا ہے۔ اس ملک کے ہر شخص پر ہزاروں کی بجائے کروڑوں کا قرض چڑھا دو تو یہ کسی کسی حکیم کی پھکی سے اس کا توڑ بھی لے آئیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں