پڑھنا اہم نہیں ،”کیا پڑھنا ہے” زیادہ اہم ہے/عبدالرحیم خان

تعلیم کے ضمن میں ہم میں سے زیادہ تر بھیڑچال کی پیداوار ہیں۔ جب تعلیمی کیریئر کے انتخاب کا وقت تھا تو ہمیں اتنا شعور ہی نہ تھا کہ پڑھنا کیا ہے، دیکھا کہ جس طرف بھیڑ جارہی ہے اُسی رُخ ہم بھی ہو لئے، اور جب تک تعلیم و کیریئر کا تعلق سمجھ آیا ،بڑی دیر ہوچکی تھی۔
آج بھی گرچہ کچھ حد تک بیداری آگئی  ہے پر ایک بڑی تعداد ابھی بھی بھیڑ چال ہی کا  شکار ہے۔ والدین اور بچوں کی دو اقسام ہیں اس حوالے سے۔۔

ایک، جو میڈیکل، انجینئرنگ اور کچھ پروفیشنل کورسز کو لیکر اتنے متشدد ہیں کہ جانتے ہوئے کہ ہمارے بچے میں نہ دلچسپی ہے اور نہ استطاعت، پھر بھی سال در سال نیٹ اور جے ای ای ٹیسٹ کرائے جارہے ہیں۔ نتیجتاً بچے کے ہاتھ سے وہ بھی چھوٹ جاتا ہے جس میں اس کی اپنی دلچسپی تھی، اور تا زندگی ایسا بچہ فرسٹریشن اور کنفیوژن کا شکار ہی رہتا ہے۔

دوسرے، جن کے ہاں بس کچھ پڑھ لینا ہے، کیا پڑھنا ہے اور کیوں پڑھنا ہے کوئی  طے شدہ وژن ہی نہیں ہوتا ہے۔

موجودہ وقت میں نہ صرف تعلیم ضروری ہے بلکہ حسب استطاعت و دلچسپی تعلیم کا انتخاب اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ مثلاً، جن دنوں میں یونیورسٹی میں طالب علم تھا ارد گرد بے شمار ایسے احباب تھے جنہوں نے گریجویشن مکمل کیا، اور پھر ماسٹرز میں داخلہ لے لیا، ان کا حدف واضح بالکل نہیں کہ وہ ماسٹرز کس مقصد کے تحت کرنا چاہتے ہیں۔ حد تو یہ تھی کہ ماسٹرز کے بعد ریسرچ / پی ایچ ڈی میں بھی رجسٹریشن کروالیا، صرف اس مقصد سے کہ ہوسٹل میں دو چار سال مزید رہنے کا موقع  مل جائے گا، اس دوران کہیں کچھ نوکری مل گئی  تو ریسرچ چھوڑ کر چلے جائیں گے۔  اب اگر کسی طالبعلم کو مستقبل میں تدریس یا تحقیق سے دلچسپی نہیں تھی تو بھلا اسے پی ایچ ڈی کرکے وقت اور کسی اور کا حصّہ ضائع کیوں کرنا تھا۔ یہی معاملہ دیگر کورسز کا بھی ہے۔

ایک اور مثال۔ ۔ گزشتہ چند سالوں میں مَیں نے دیکھا کہ ہر شخص اپنے بچے کو ڈی فارما یا بی فارما کی طرف ڈھکیل رہا ہے، بنا اس بات کا تجزیہ کیے کہ اگر اسے کہیں اچھی نوکری کرنی ہے تو اس لائن میں کم از کم کہاں تک پڑھنا ہے، بِنا یہ اندازہ لگائے کہ مارکیٹ میں ڈیمانڈ کتنی ہے اور بچہ جب تک پڑھ کر نکلے گا اس وقت تک اسکوپ کتنا باقی رہے گا۔ مجھ سے کئی  لوگوں نے کہا کہ فلانے فلانے کو دیکھ کر میں نے اپنے بچے کو ڈی فارما کرادیا، پر ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ اس سے کچھ بہت اچھا نہیں ہوسکتا ہے۔

اس وقت بیحد ضروری ہے کہ رجحان کا  بروقت تعین  کرلیا  جائے کہ آپ کو کرنا کیا ہے۔ کچھ ذاتی کاروبار یا نوکری۔۔ کاروبار کا ارادہ ہے تو تعلیم پر بس اتنا ہی وقت لگایا جائے جتنا کہ آپ کے کاروباری عمل کے لئے ضروری ہو، عقلمندی یہی ہوگی کہ ماسٹرز اور ریسرچ جیسی فارمیلٹیز پوری کرنے کے بجائے وہی وقت و توانائی  عملی طور پر کاروبار کو سیکھنے و پروان چڑھانے میں لگائی جائے۔ مثلاً آپ کا کوئی  کارپوریٹ کمپنی کے مالک نہیں بلکہ آپ کا کوئی  چھوٹا یا متوسط بزنس ہے، اب آپ گریجویشن کریں اور لگ جائیں کام میں، اگر آپ ایم بی اے کرنے کی حماقت کر رہے ہیں تو سوائے اس بات کے کہ آپ صرف گریجویٹ نہیں بلکہ پوسٹ گریجویٹ ہیں مزید کوئی  فائدہ نہیں۔ جو وقت آپ ایم بی اے کو  دیں گے، اگر عملاً کاروبار میں ہیں تو اس سے کہیں زیادہ آپ کو زمینی تجربہ حاصل ہوجائے گا۔   آپ کو نوکری میں دلچسپی ہے تو آپ کو طے کرنا پڑے گا کہ مقامی یا عالمی کون سی دنیا آپ کا ہدف ہے اور آپ کس اونچائی  تک اپنی ملازمت میں پہنچنا چاہتے ہیں، اسی کے مطابق آپ کو تعلیمی کیریئر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ مثلاً آپ کو کسی بڑی کمپنی میں سینئر پوزیشن تک پہنچنے کی چاہ ہے تو اب وہ زمانہ چلا  گیا کہ صرف تجربات کی بنیاد پر دھیرے دھیرے آپ کو وہاں بٹھا دیا جائے گا، بلکہ اسکے لئے آپ کو پہلے سے تعلیمی اہلیت حاصل کرنی لازمی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ چند بالکل بنیادی باتیں تھیں، اس ضمن میں بہت ہی تفصیل ہے جو ظاہر سی بات ہے کہ ایک سوشل پوسٹ میں نہیں کی جاسکتی ہے۔ صرف روایتی نہیں بلکہ ماہرین کے ذریعہ ہر سال کیریئر گائیڈنس پروگرامز کرنے کی ضرورت ہے جو باریکی کے ساتھ طلباء و والدین دونوں کی رہنمائی  کرسکیں۔ بدنصیبی یہ ہے کہ ہماری مساجد جنہیں ان سب چیزوں کا مرکز ہونا چاہیے  تھا وہ صرف خطبۂ جمعہ و دروس تک سِیمِت ہوکر رہ گئی  ہیں۔ ضروری ہے کہ اس پر جتنا ہو رہا ہے اس سے زیادہ کام ہو۔ کچھ تنظیمیں کر بھی رہی ہیں پر ان میں سے زیادہ کا ہدف گائیڈنس کم ،خانہ پُری کرنا زیادہ ہوتا ہے کہ اپنی سالانہ رپورٹ میں بتا سکیں کہ سالِ گزشتہ ہم نے یہ یہ کام کیا تھا۔ ۔ اب یہ مت کہیے گا کہ سب کچھ مسجد و مدرسے والے ہی کیوں کریں، باقی لوگ بھی تو ہیں۔ کرنا آپ ہی کو ہے، کہ خیر امت آپ ہیں، لوگوں کی فلاح و رہنمائیوں کے لئے لوگوں کے بیچ سے آپ ہی کو چُن کر نکالا گیا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply