پِنجرہ ( چار دِلوں کی داستان )قسط2۔۔سید علی شاہ

” بہتر ہوگا کہ تُم دونوں بہن بھائی آج ہی آفس چھوڑ دو ۔ میں ایک ماہ کی تنخواہ تم دونوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کروا دیتا ہوں اور آج کے بعد سے تم دونوں کا ساعقہ انڈسٹریز سے کوئی تعلق نہ ہوگا “۔۔
منیجر کے لہجے میں  سانپ کی سی پھنکار تھی اور ساجدہ سامنے کرسی پرسر جھُکائے بیٹھی تھی، اُس کی آنکھوں کے کونے نم ہو رہے تھے مگر وہ کِسی صورت خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
اُس نے بمشکل سر اُٹھا کر اکرام شاہ کی جانب دیکھا اور بولی ۔

” شاہ جی میں نے اپنی زندگی کے بِیس سال اِس اِدارے کودِیے ہیں اور ایک عام کمپنی سے ایک امپائر بنایا ہے اور ایک کارخانے سے گروپ آف انڈسٹریز بنتے دیکھا ہے، کیا میری خدمات کا یہی صلہ ہے کہ ایک ذرا سی بات پر جس میں ہم دونوں بہن بھائیوں کا کوئی قصور بھی نہیں، ہمیں اِس طرح سے نِکالا جائے گا”۔۔
ساجدہ کے لہجے کی تلخی کو بھانپتے ہوئے اکرام شاہ ایکدم نرم پڑ گیا اور بولا ۔

” دیکھو ساجدہ ۔ میں بھی تمہاری ہی طرح اس کمپنی کا ملازم ہوں اور جو مالکان کی طرف سے آرڈر آیا میں نے تم تک پہنچا دیا ، تمہاری لگن، محنت اور خدمات کا مجھے دِل کی گہرائیوں سے اعتراف ہے مگر یہاں میں کُچھ نہیں کر سکتا “۔۔
“مجھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے جو کمپنی سے دس لاکھ کریڈٹ لیا ہوا ہے اس میں سے ایک لاکھ بارہ ہزار آپ نے تنخواہوں میں سے کٹوا دیا ہے باقی رقم کے لئے آپ سے چھ مہینے کا ٹائم لیا جائے اور آپ سے معاہدے پر دستخط کروا کے چیک لئے جائیں “۔۔

اِکرام شاہ نے سر جھُکائے نرم لہجے میں ساجدہ کو بتایا تو ساجدہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور بے اختیار ساجدہ کی آنکھیں چھلک اُٹھیں وہ دوپٹے سے آنسو صاف کرتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
ابھی وہ واپس جانے کے لئے مُڑی ہی تھی کہ ایک دھماکے سے دروازہ کھُلا اور اشعر اندر داخل ہُوا ۔
اشعر کی آنکھیں شعلے اُگل رہی تھیں ۔

“آپا آپ خود کو اتنا مجبور کیوں بنا رہی ہیں ؟ ۔۔ آپ نے ہی تو ہمیں سِکھایا ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے “۔۔
“آپ چلیں میرے ساتھ ۔۔ ہم نے نہیں کرنی ان کی غلامی “۔۔
اشعر نے تیز تیز لہجے میں کہا اور ساجدہ کا ہاتھ پکڑے دفتر سے باہر نکل گیا ۔۔

اکرام شاہ شیشے میں سے اُن دونوں کو جاتا ہوا دیکھ رہا تھا اور وہ افسوس سے ہاتھ ملنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساجدہ کو ساعقہ انڈسٹریز میں کام کرتے ہوئے بیس سال سے زیادہ ہوگئے تھے
اُس کے والدین ایک کار حادثے کا شکار ہوئے تھے جس میں اُس کے والد اور بڑا بھائی موقع پر انتقال گئے تھے جبکہ والدہ شدید زخمی حالت میں چند روز ہسپتال میں رہ کر انتقال کر گئیں تھیں ، کچھ دن تو رشتے داروں نے اُن کا ساتھ دیا پھِر وہ بھی آہستہ آہستہ دُور ہوتے گئے والد اور بھائی کرش دانے کا کام کرتے تھے اور کاروبار اچھا تھا اور اُن کا لوگوں سے کافی کاروباری لین دین تھا مگر ان کی وفات کے بعد سب ہی لینے والے آئے ( معاف کر کے بتانے کے لئے )،مگر کوئی ایسا سامنے نہ آیا جِس نے اُن کا کوئی پیسہ دینا ہوتا، ساجدہ کی عمر تب انیس سال تھی اور باقی تینوں بہنیں اور ایک بھائی اشعر چھوٹے تھے ، مکان اپنا تھا اس لئے سر چُھپانے کی جگہ تو پاس تھی مگر آمدن کا کوئی ذریعہ نہ تھا ۔
مجبوراََ ساجدہ کو تعلیم ادھوری چھوڑ کر نوکری ڈھونڈنی پڑی ، اُس نے کافی جگہ نوکری کی۔۔ مگر ہر جگہ ایک ہی بات آڑے آتی رہی کہ لڑکیوں کا باریک اور چُست لباس، بڑے گلے ، لمبے چاک اور نیچے باریک ٹائیٹس پہننا دفتروں میں عام تھا اسی لئے اُس سے بھی ایسا ہی لباس پہننے کی ڈیمانڈ کی جاتی جو اُس کے لئے ناممکن ہوتی، کیونکہ وہ اگر کبھی بغیر چادر کے دفتری کام میں مصروف ہوتی تو لوگوں کی نظریں اُسے اپنا جسم چیرتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں ، اُسے لگتا تھا اُس کے جسم پر کوئی لباس موجود نہیں ہے ، اور وہ بے دھیانی میں کبھی  قمیض کا دامن ٹھیک کر رہی ہوتی تو کبھی سینے پر دوپٹہ درست کرنے میں لگ جاتی ، اُسے یہ حرکت کرتے دیکھ کر مرد تو مرد دفتر میں موجود دوسری لڑکیاں بھی ہنسنے اور اُس کا مذاق بنانے لگ جاتیں ۔

اصل میں جو حقیقی معنوں میں عورت ہوتی ہے نا وہ اندر سے بڑی نازک سی ہوتی ہے۔
اِس میں پندارِ ذات کا بڑا دھیان ہوتا ہے، وہ لاشعوری طور پہ اِس اَمر پہ ایمان رکھتی ہے کہ کائنات کا سب سے خوبصورت اور اعلیٰ اثاثہ اس کے پاس محفوظ ہے، وہ اِس اثاثے کو سینت سینت کر رکھتی ہے، اِس کی حفاظت کے لئے وہ اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتی۔

عورت کی سنبھالی ہوئی اِسی دولت کو آپ اس کی عصمت، عزتِ نفس کہہ سکتے ہیں اور اس عصمت اور عزتِ نفس کا ساجدہ کو بہت احساس تھا ، اِس لحاظ سے اُسے ایک مکمل عورت کہا جا سکتا ہے کیونکہ ایک مکمل عورت کی نِسائیّت ہی تو سب سے اہم چیز ہوتی ہے اور اس کی نِسائیّت کو سب سے زیادہ تسکین و تفاخر اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کوئی اسے یہ احساس دِلادے کہ وہ اس کی نظر میں خاص اہمیت رکھتی ہے، بس اسے اپنی نِسائیّت کی توہین برداشت نہیں۔

یہی وجہ تھی کہ ساجدہ کو جہاں اپنی نِسائیّت نشانہ بنتے نظر آتی وہ سب چھوڑ چھاڑ گھر آجاتی تھی اورجب بھی کِسی نوکری سے جواب دے کر آتی تو گھر آکر بہت رویا کرتی تھی، جائے نماز پر بیٹھ کر اونچی آواز میں اللہ سے سب باتیں ایسے کیا کرتی تھی جیسے کبھی کالج یا یونیورسٹی کی باتیں ماں کو بتایا کرتی تھی ۔
اشعر اور تینوں بہنیں خاموشی سے دروازے میں کھڑے اُس کی باتیں سُنتے اور اُسے روتا دیکھتے تھے ۔۔

ایک دِن اللہ نے اُس کی دُعائیں سُن لیں اور ساجدہ کے دور کے عزیز جو ساجدہ کے ابو کے کزن تھے وہ اُن لوگوں سے ملنے آئے اور اِن لوگوں کی حالت دیکھ کر بہت افسردہ ہوئے، ساجدہ نے اُنہیں ساری صورتحال بتائی کہ کیا وجہ ہے جو میں کوئی نوکری ٹِک کر نہ کرپائی ۔۔

وہ جاتے ہوئے وعدہ کرکے گئے کہ تمہارے لئے ایک اچھی ملازمت کا بندوبست ضرور کرونگا ۔
انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے مالک سے کہہ کر ساجدہ کو ساعقہ انڈسٹریز میں نوکری دلوادی ۔

اس دفتر کا ماحول ساجدہ کو بہت پسند آیا ، حالانکہ دفتر میں ساجدہ اکیلی عورت تھی باقی سارا کا سارا عملہ مردوں پر مشتمل تھا مگر سب ہی دیندار تھے اور اُسے کبھی جھجھک محسوس نہیں ہوئی، ساعقہ نے عبایہ لینا شروع کر دیا تب بھی کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا اور یوں وہ اس دفتر کی ہی ہو کر رہ گئی ۔

وہ یہاں بطور اکاؤنٹ اسسٹنٹ آئی تھی مگر جلد ہی اُس نے ساعقہ انڈسٹریز کے ساتھ ساتھ مالکان کے پرائیویٹ اکاؤنٹس بھی دیکھنے شروع کر دیئے اور اُس کی محنت اور لگن کو دیکھتے ہوئے چار مزید لوگوں کو اُس کی ماتحتی میں دے دیا گیا ۔

اشعر نے پچھلے سال بی اے کلیئر کیا تھا تو منیجر صاحب نے خود آفر دے کر اُسے دفتر بُلوا لیا کہ ملازمت کے ساتھ ساتھ پڑھائی بھی کرتے رہنا اور بہن کا ہاتھ بھی بٹاتے رہنا ۔
ساجد کو یہاں کام کرتے ہوئے آٹھ ماہ ہوئے تھے اور اُس نے بھی جی جان سے محنت کر کے اپنا مقام بنا لیا تھا ۔
اور یہاں کام کرنے والی ایک لڑکی سجل سے اُس کی دوستی عہد و پیماں میں بدل چُکی تھی لیکن اشعر نےاسے کہہ دیا تھا کہ آپی نے تو شاید شادی نہیں کرنی مگر مجھ سے چھوٹی دو بہنیں ہیں اُ ن کے بعد میں شادی کرونگا ۔

اسی طرح شب و روز گزر رہے تھے کہ پھِر اچانک سب تلپٹ ہو گیا ۔
ہُوا کُچھ یوں کہ کمپنی کا مالک ایک روز دورے پر تھا اور اشعر کی ڈیوٹی تھی ساری بریفنگ دینے کی جو اشعر بخوبی نبھا رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک جانب اُٹھی ۔
مُسکراتے ہونٹوں کے اوپر سجی دو آنکھیں مسلسل اُسے گھُورے جا رہی تھیں اور یہ تھی نوشین ، کمپنی کے مالک مرزا وقار بیگ کی بیٹی ۔
مرزا وقار بیگ اشعر کی قابلیت سے بہت متاثر نظر آ رہے تھے اور انہوں نے منیجر سے اشعر کو اپنے کراچی والے آفس بھجوانے کا بھی کہا اور اس کی باقی تعلیم بھی کمپنی کے ذمہ لگادی ۔
اشعر کو نوشین کی نظریں اپنے جسم کا طواف کرتی محسوس ہو رہی تھیں اور وہ سارا دِن اِسی اُلجھن میں رہا ۔
رات گھر آ کر بھی اُسے ایسا لگ رہا تھا کہ نوشین چاروں طرف سے اُسے مسکرا کر دیکھ رہی ہے ۔۔
نوشین کے دیکھنے سے کوئی اُلجھن نہ تھی بلکہ اُلجھن یہ تھی کہ وہ جس انداز سے دیکھ رہی تھی وہ انداز اشعر کے جسم میں سوئیاں چبھو رہا تھا ۔
کچھ دیر سوچوں میں گم رہ کر اشعر سو گیا اور صبح حسب معمول وہ آفس میں تھا ، اچانک اسے فدا محمد نے آکر کہا کہ منیجر صاحب بلا رہے ہیں ۔
وہ مینیجر صاحب کے آفس میں پہنچا تو انہوں نے دو فائلیں اُسے پکڑاتے ہوئے کہا کہ یہ ابھی جاکر میڈم سے سائن کروا لاؤ بینک بھیجنی ہیں ۔
اشعر بہت حیران ہوا کہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اُسے آفس کے علاوہ ایسے کِسی کام سے بھیجا جا رہا تھا ۔۔

” کون میڈم سر ۔۔؟
اشعر نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے پوچھا ۔
” بیگ صاحب کی بیٹی یار ۔ میڈم نوشین ۔ انہوں نے کال کی ہے کہ کمپنی کے نام سے ایک اور بینک اکاؤنٹ اوپن کروانا ہے تمہارے ہاتھ فائلیں بھیج کر سائن کروالوں “۔۔
منیجر نے کمپیوٹر کی سکرین پر نظریں جمائے جمائے کہا اور اشعر “جی اچھا ” کہہ کر دفتر سے باہر نکل آیا ۔
————
اشعر کوٹھی میں پہنچا تو دروازے پر اسکی ملاقات اپنے چچا سے ہوئی وہ کہیں کام سے جا رہے تھے ۔۔جی ہاں۔۔ سعید صاحب ہی ساجدہ کے وہ چچا تھے جنہوں نے ساجدہ کو اس دفتر میں ملازمت دلوائی تھی ۔
اندر داخل ہوا تو ایک ملازمہ اُسے ساتھ لے کر نوشین کے کمرے کے پاس لے گئی اور کہا کہ میڈم اندر ہیں ۔
اشعر جو بنگلے کی چکاچوند میں ڈوبا ہوا کسی معمول کی مانند ملازمہ کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا ایک دم چونک گیا ۔۔ اس نے ہکلا کر پوچھا ۔۔” کک کیا مطلب میڈم باہر نہیں آئیں گی ۔۔؟
۔۔” نہیں صاحب ۔۔ میڈم آرام کے ٹائم میں باہر نہیں آتیں آپ چلے جائیں میں نے انہیں بتا دیا ہے کہ آپ آئے ہیں “۔۔
ملازمہ نے مُسکراتے ہوئے کہا اور ایک جانب بڑھ گئی ۔
اشعر نے گھبراتے ہوئے دروازے ہلکی سی دستک دی تو اندر سے آواز آئی ۔۔” آجائیں ۔ ۔ دروازہ کھُلا ہے “۔۔
اشعر نے ہلکا سا دھکا لگایا تو دروازہ کھل گیا اور وہ اندر داخل ہوا تو اندر روشنی نہایت مدھم تھی اور اشعر باہر کی روشنی میں سے آنے کی وجہ سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
اُسے نوشین کی کھنکھناتی ہوئی آواز آئی ۔۔
” کھڑے کیوں ہیں ۔ تشریف رکھیں “۔۔
اشعر بادل نخواستہ قریب موجود صوفے پر ٹِک گیا ۔
نوشین آرام سے بیڈ سے اُٹھ کر آئی اور اشعر کے پہلو میں بیٹھ گئی ۔۔
اُس نے بہت ہی مسحور کُن پرفیوم لگایا ہوا تھا جس کی وجہ سے اشعر نہ چاہتے ہوئے بھی تھوڑا سا ریلیکس ہو کر بیٹھ گیا ۔
نوشین نے فائلیں لے کر ٹیبل پر رکھیں اور اشعر کا ہاتھ تھامنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔
اشعر اس اچانک افتاد سے گھبرا گیا اور وہ اُٹھنے لگا کہ نوشین نے اُس کا بازور پکڑ کر کھینچا تو اشعر ٹیبل سے ٹکرا کر لڑکھڑاتا ہوا نوشین کے اوپر جا گرا ۔۔
نوشین جتنی بھی بے باک سہی مگر تھی ایک عورت اور یہیں وہ مات کھا گئی ۔ اشعر نے ایک زور دار جھٹکے سے خود کو چھُڑوایا اور جلدی سے اُٹھ کھڑا ہوا ،
نوشین بھی اُٹھنے لگی تو اشعر نے دھکا دے کر نوشین کو واپس صوفے پر پھینکا اور اُسے کہا۔۔
۔۔” تم نے اپنے جسم کی بھوک مِٹانی ہے تو کسی اور کا انتخاب کرو ۔۔ مجھے آئندہ اپنے قریب کرنے کی کوشش کی تو میں یہ بھی بھول جاؤں گا کہ تم ایک عورت ہو اور یہ بھی یاد نہیں رکھوں گا کہ تم مالک کی بیٹی ہو “۔۔
یہ کہہ کر اشعر تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا ۔

کوٹھی سے باہر پہنچا تو سعید صاحب اُسے لانے والے کمپنی ڈرائیورسے ہی باتیں کر رہے تھے ۔
وہ قریب پہنچا تو چچا نے پوچھا کہ بیٹا سائن نہیں کروائے میڈم کے اور وہ فائلیں کہاں ہیں ۔۔؟
اُس نے کوئی جواب نہیں دیا اور ڈرائیور کو چلنے کا کہا ۔۔

سعید صاحب حیران پریشان وہاں کھڑے دُور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھتے رہے اور پھر سر جھٹک کر گیٹ سے اندر داخل ہو گئے ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply