مکالمہ کیوں ضروری ہے؟؟

انسان جب بچہ ہوتا ہے تو مکمل انسانی فطرت کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے اور جب شعور سنبھالتا ہے تو اس کے ماحول سے اس کی فطرت میں آمیزش کی صورت وہ ماحول کے اثرات لیتا ہے اور پھر ان اثرات کا آؤٹ پٹ معاشرے میں اس کے کردار کی صورت اثر انداز ہوتا ہے ۔ ایک چھوٹی عمر کے بچے کے ساتھ کھیلتے اسے شرارت سے ماریں تو وہ چہرہ دیکهے گا کہ آیا اسے غصے سے مارا گیا ہے یا مذاق میں اگر چہرے پر مسکراہٹ ہو تو وہ آگے سے لڑے گا اور مستی کرے گا اور اگر چہرے پر غصے کے آثار دیکھے گا تو رونا شروع کر دے گا یہ انسان کی فطرت ہے کہ انسان عموماً درست الفاظ کو بھی لہجے سے جانچتا ہے اور بعض اوقات ہمارے لہجے ہماری درست بات کو بھی صیح معنوں میں پیش نہیں کر پاتے ۔ پھر ہمارے لہجے اور تحریر کی صورت اپنی بات پیش کرنے میں ہمارے الفاظ کا چناو ہماری بات کی اہمیت کو صفر کر دیتا ہے ۔ دوسرے کے نظریات افکار اور عقائد اگر ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہوتے تو ہم ان کی تذلیل کرنے پر اتر آتے ہیں ۔
کیا یہ ہماری غلطی نہیں کہ ہم اپنی سوچ کو باقی سب پر مسلط کریں ایک انسان سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے تو وہ کیوں کر ہماری بات تسلیم کرے کیا یہ امکان نہیں کہ اس کی تحقیق ہم سے بہتر ہو کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم انسان ہونے کی وجہ سے غلطی پر ہوں ۔ یہ ہماری پستی نہیں کہ دوسرے سے اس لیے نفرت کی جائے کہ وہ ہم سے مختلف کیوں سوچتا وہ ہماری بات من و عن کیوں تسلیم نہیں کرتا اور اگر ہمیں یقین ہے ہم درست ہیں اور دوسرے کی اصلاح چاہتے ہیں تو اپنی بات کو محبت اور شائستگی کہ ساتھ پیش کریں تو وہ دوسرے انسان کو سوچنے پر مجبور ضرور کرے گی اس کا ماننا نہ ماننا الگ بات اور دوسرے انسان کو اس کے افکار اور نظریات پر نظرثانی کرنے پر آمادہ کرنے سے بڑی کامیابی کوئی نہیں ہوتی اور ہم کبھی کسی کو طنز اور تذلیل کے ذریعے سوچنے پر مجبور نہیں کر سکتے کیوں کہ انسان اپنے اندر انا رکھتا ہے اور اپنی تذلیل کے ردعمل کی صورت ضرور اپنے افکار کے دلائل مضبوط کر کے پیش کرے گا اور تب اس کے دلائل دوسرے کو نیچا دکھانا بھی ہو سکتے ہیں۔۔ کسی کی اصلاح کا سوچ کر اس سے بات کرنے کا ہنر میں نے ہمیشہ تبلیغی جماعت سے سیکھا کہ اپنی بات اور فکر کو اتنی شائستگی سے پیش کرتے ہیں کہ دوسرا انسان اختلاف کے باوجود صرف محبت کی وجہ سے ساتھ ہو جاتا اور وہ محبت پھر انسان کو تبدیل ہی کر دیتی ہے اگر تبلیغ والے پہلے دن ہی کفر ،جاہل اور گمراہ کے فتوے سے بات کا آغاز کریں تو آج شاید اتنی بڑی تعداد میں نہ ہوتے ۔
ہم کسی مخالف نظریہ رکھنے والے سے مکالمے کا آغاز اس کی اچھائیوں سے کریں اور ان باتوں سے کریں جو ہماری مشترک ہوں تو بات اثر بھی رکھے گی ۔ ہمارے ہاں نظریاتی اختلافات اسی لیے دشمنی کی صورت اختیار کرتے ہیں کہ ہم اپنے مخالف سوچ والے سے مکالمہ نہیں کرتے بلکہ مناظرہ کرتے ہیں اور مناظرے کا اختتام دشمنی اور نفرت پر ہوتا ہے اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔ ہمیں معاشرے میں مکالمے کو فروغ دینا ہو گا تا کہ ہمارا معاشرہ اس ڈگر پر چلے نا کہ ایسا جسے ہم روز ہر نیوز چینل پر سیاست دانوں اور دوسرے مخالف نظریات والوں کو ایک دوسرے پر برستے دیکھتے ہیں دوسروں کی پگڑیاں اچھالنا ذاتیات پر حملے کرنا معمولی بات سمجھی جاتی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں نظریاتی اختلافات کے باوجود ہماری گفتگو محبت عزت و احترام کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے ۔۔۔ ہم جب بچے کی ے گھر میں تربیت کرتے ہیں تو اسے دوسرے کا احترام سکھائیں نا کہ ہمیشہ پڑوسیوں کے بچے کے آگے نکلنے کا طعنہ دے کر اسے نفرت سکھائیں ۔سکول میں دوسرے مذاہب کے بارے میں نفرت سکھانے کے بچائے اپنے مذہب کی بہترین تربیت دی جائے اور پھر ہمارے مخصوص علماء کا کردار بھی ہماری اس طرح تربیت نہیں کر پاتا ہمارا مذہب جو محبت عزت و احترام سکھاتا اسے عام کیا جائے منبروں پر بیٹھ کر مخالفت فرقوں کی تذلیل نفرت پیدا کرتی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی حقیقی روح کو سمجھا جائے اور اسلام کو ایک فرقے کی قید میں نہ رکھا جائے بلکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اور دوسرے سارے فرقے گمراہ والی سوچ مذہب کے لیے نقصان دہ ہے ۔ اور پھر سوشل میڈیا جو معاشرے کے حقیقت کو سامنے لاتا ہے اور سوشل میڈیا ہی نوجوان نسل کی بہترین تربیت میں اہم کردار ادا کر رہا لیکن ہم شدت پسندی کو سوشل میڈیا میں ہی گھسا دیں تو بچارا میرے جیسے سادہ ذہنیت والا بندہ کدھر جائے۔
مکالمہ کی روایت عام کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے اور معاشرے کی اصلاح میں سوشل میڈیا پر مکالمہ کی روایت جو تبدیلی لا سکتی ہے وہ شاید درسگاہوں میں بھی ممکن نہ ہو

Facebook Comments

فہیم اکبر
راولاکوٹ سے تعلق رکھنے والا ایک طالب علم سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خطے کے بنیادی مسائل کو رونا رونے والا ایک سائل

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply