برطانیہ میں مہنگائی کا بحران۔۔فرزانہ افضل

برطانیہ میں مہنگائی یا افراط زر کی شرح بڑھ کر نو فیصد تک کی بلندی کو پہنچ گئی ہے جو گزشتہ چالیس سالوں میں یعنی 1982 سے لے کر اب تک یہ سب سے زیادہ ہے۔ بینک آف انگلینڈ نے متنبہ کیا ہے کہ افراط زر میں 10 فیصد تک بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ برطانیہ یورپ کی پانچ بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے جس میں روس یوکرین جنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ کسی بھی ملک کا روس کی توانائی پر انحصار کی حد اس بات کے اہم عوامل میں سے ایک ہے ، کہ یوکرین پر ماسکو کے مکمل حملہ کے بعد افراط زر میں کتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جو ممالک روس کے جتنے قریب ہیں اتنی ہی زیادہ ان میں مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ افراط زر کی وجوہات میں وجہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ریکارڈ توڑ اضافہ ہے۔ گیس کی قیمت میں 53.5 فیصد جبکہ بجلی کی قیمت میں 95.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے پٹرول کی قیمت 125.5 پینس فی لیٹر سے 161.9 پینس فی لیٹر ہو گئی ہے۔ اپریل 2012 سے لیکر اب تک یہ ریکارڈ میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ بینک آف انگلینڈ کے گورنر کا کہنا ہے کہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ایک بڑی پریشانی ہے جس کی وجہ سے خریداری کے بل بڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ قیمتوں میں 6.7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ریستوران ہوٹلوں اور فرنیچر کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ وی اے ٹی جو سامان اور خدمات خریدنے پر ادا کیا جانے والا ٹیکس ہے اس میں بھی کچھ کاروباروں کے لیے اضافہ ہوگیا ہے حکومت نے کووڈ کے دوران وی اے ٹی کی شرح کو کم کیا تھا مگر یکم اپریل 2022 سے بیس فیصد کی شرح پر واپس آ گیا ہے۔ ایئر پیسنجر ڈیوٹی اور گاڑیوں کی ایکسائز ڈیوٹی کے ریٹس میں بھی اضافہ ہوا ہے اس کے ساتھ ساتھ انگلینڈ میں ڈاک کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں اور انگلینڈ اور ویلز میں پانی کے بلوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بینکوں کی شرح سود میں اضافے سے مارگیج کی قسطیں بھی بڑھ گئ ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مہنگائی کی 9 فیصد کی شرح جو موضوع بحث ہے وہ درحقیقت اوسطاً شرح ہے۔ کیونکہ ہر صنعت میں قیمتوں میں اضافہ مختلف شرحوں پر ہوتا ہے۔ فوڈ انڈسٹری کے ایک باس نے خبردار کیا ہے کہ اس سال خوراک کی قیمتوں میں 15 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ گو کہ اسی سال حکومت نے تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے مگر یہ اضافہ مہنگائی کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ یعنی تنخواہوں میں اضافے کے باوجود افراط زر میں اضافے کی وجہ سے گزشتہ برس کی نسبت اوسطاً تنخواہ میں کمی واقع ہوئی ہے۔
یوکے میں افراط زر کا حساب کس طرح لگایا جاتا ہے؟
افراط زر شرح کا ایک پیمانہ ہے جس پر قیمتوں کی ایک حد مقررہ مدت میں بڑھ رہی ہے ۔ برطانیہ میں ادارہ برائے عوامی شماریات یعنی آفس آف نیشنل سٹیٹسٹکس او این ایس اس پر کام کرتا ہے جو روزمرہ کے استعمال کی سینکڑوں اشیاء کی قیمتوں کو نوٹ کرتا ہے۔ جسے سامان کی ٹوکری کہا جاتا ہے یعنی روز مرہ کی ضرورت کے استعمال کی جتنی اشیاء باسکٹ میں آ جاتی ہیں ان کی قیمتوں کا حساب لگایا جاتا ہے اور اسے مسلسل اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔ او این ایس ہر ماہ مہنگائی کے اپنے اعداد و شمار جاری کرتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ سال اسی تاریخ سے ان قیمتوں میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ اسے کنزیومر پرائس انڈیکس یا سی پی آئی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اپریل سے 12 مہینوں میں افراط زر کی شرح میں 9 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو گزشتہ ماہ مارچ میں 7 فیصد تھا۔ مہنگائی میں اضافے سے نمٹنے پر بینک آف انگلینڈ کا روایتی ردعمل شرح سود میں اضافہ کرنا ہے ، جس سے بچت یا سیونگ کرنے والوں کو فائدہ پہنچے گا مگر مارگیج کی ادائیگیوں میں اضافہ ہوجائے گا کیونکہ گھر یا کاروبار خریدنے کے لئے قرض لینا مشکل ہو جائے گا۔ مارگیج میں اضافے سے لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لئے کم رقم ہوگی جس کے نتیجے میں خریداری میں کمی آئے گی اور قیمتی تیزی سے بڑھنا بند ہو جائیں گی۔ مگر جب افراط زر بیرونی عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے جیسے کہ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، تو پھر شرح سود میں اضافہ ایک حد تک ہی مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں موثر ہو سکتا ہے۔ ضروریات زندگی میں مہنگائی کے بحران کی وجہ سے برطانیہ کے صارفین کا اعتماد 1974 کے بعد سے نچلی ترین سطح پر آگیا ہے۔ صارفین معیشت اور پرسنل فنانس کے معاملے میں مایوسی کا شکار ہو رہے ہیں۔ خاندانی بجٹ پر دباؤ کی وجہ سے برطانیہ ریسیشن کی طرف بڑھ رہا ہے۔
گروتھ فرام نالج جی ایف کے جو مارکیٹ ریسرچ کمپنی ہے ان کی کلائنٹ اسٹریٹجی ڈائریکٹر نے کہا، “صارفین کا اعتماد اب عالمی بینکنگ بحران کے تاریخ ترین دنوں میں ہے۔ جو معیشت پر بریگزٹ کے اثرات اور کووڈ شٹ ڈاؤن کے مقابلے میں بھی کمزور تر ہے۔ برطانیہ میں مہنگائی کے بحران کا اثر سے سب سے زیادہ عمر رسیدہ افراد پر ہوا ہے جو ایک مقررہ آمدنی پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔” ویب سائٹ انٹریکٹو انویسٹر مشن اور بچت کی سربراہ بیکی او کونر نے کہا، ” یہ بالکل ناممکن بات ہے کہ برطانیہ کے کم ، مقررہ آمدنی والے لوگ جن میں یوکے کے گیارہ ملین پینشنرز شامل ہیں ، سے قیمتوں میں اضافے کو برداشت کرنے کی توقع کی جائے، برطانیہ میں 66 سال اور اس سے اوپر کی عمر کے افراد ریاستی پنشن پر منحصر ہیں۔” بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے اور روزمرہ کی اشیاء میں مہنگائی کے بارے میں ایک شہری نے کہا ،” اب تو ہمیں گھر کا اوون آن کرتے ہوئے بھی پریشانی ہوتی ہے۔” ان حالات میں جب بینک آف انگلینڈ غیر یقینی کیفیت میں ہے کہ شرح سود کس حد تک بڑھانے سے قیمتوں میں اضافے کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اخبار فنانشل ٹائمز کے ایڈیٹر سبیسٹیئن پین کی رائے کے مطابق فلاحی بینیفٹ کو بڑھانا درست سمت میں ایک قدم ہوگا۔ اور وزراء کو سہ ماہی کی بنیاد پر فلاحی بینیفٹ کا تجزیہ کرنا چاہیۓ ۔ فنانشل ٹائمز کے ایک سروے کے مطابق ان کے تین چوتھائی قارئین کا کہنا ہے کہ حکومت کو توانائی کمپنیوں پر ونڈ فال ٹیکس لگانا چاہیے اور اس یکمشت لیوی سے حاصل ہونے والی رقم سے بینیفٹس کی رقم میں اضافہ کیا جائے تاکہ گھرانوں کو توانائی کے بڑھتے ہوئے بلوں سے نمٹنے میں مدد مل سکے۔ مگر دوسری طرف برطانیہ کے چانسلر رشی سناک پر ٹیکسوں میں کمی کیلئے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
مہنگائی کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کی خریداری اور بلوں پر اثر پڑا ہے بلکہ ان کا میل ملاپ اور سوشل لائف بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ کیونکہ اس پر بھی رقم خرچ ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں تنہائی، مایوسی اور ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply