سیاست کی درست صورت؟

کیا پاکستان اتا ترک کے دور والے ترکی جیسا کوئی سیکولر ملک ہے؟؟؟ جس میں ہمیں یہ مسلہ درپیش ہو کہ
01۔۔ مسلم اکثریتی ریاست کو اسلامی دستور دیا جائے۔۔
02۔۔ قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دیا جائے۔۔
03۔۔ اسلامی نظریاتی کونسل، شریعت کورٹ اور محکمہ اوقاف کا قیام عمل میں لایا جائے۔۔
اگر ایسا کوئی مسلہ درپیش ہوتا تو یقیناً تمام اسلام پسندوں کو، مذہبی طبقات کو بلکہ سارے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے تحریک چلائی جاتی، احتجاج کیا جاتا، ایک ہی پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاتا اور آخری چارۂ کار کے طور پر خونی انقلاب کا راستہ بھی چن لیا جاتا۔
مگر پاکستان کی اساس ہی کلمہ طیبہ پر ہے، قرارداد مقاصد دستور کی بنیاد ہے، عوام کی عظیم اکثریت بشری کمزوریوں کے باوجود محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جان چھڑکتی ہے، مسجدوں اور عبادت گاہوں میں جانے کی نیز تحریر و تقریر کی مکمل آزادی ہے، عدالتی نظام فعال ہے، بالغ رائے دہی پر مبنی انتخابی جمہوریت کے زریعے آئینی اور قانونی تبدیلی کا طریقۂ کار موجود ہے۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ایسے معاشرے میں تبدیلی کے لئے کونسی سیاسی حکمت عملی اپنائی جائے اور سیاست کن اصولوں پر استوار کی جائے؟
01:- مذہبی سیاست
02:- عوامی سیاست

مذھبی سیاست۔۔
مذھبی سیاست کا حال ہم پچھلے 70 سال سے دیکھتے آ رہے ہیں، عوام کی 94٪ سے زائد اکثریت نے ہمیشہ خود ساختہ پارسائیت، نرگسیت، مسلک پرستی اور شدت پسندی میں لتھڑی ہوئی مفاد پرستانہ مذہبی سیاست کو مسترد کیا ہے۔
1947 سے 1973 تک علمائے کرام نے ایک دستوری جدوجہد کی۔ مشکلات و مصائب کے باوجود قراداد مقاصد اور 73 کے متفقہ آئین کی منظوری بلاشبہ ایک سنہری کارنامہ ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد کے دور میں ہمارا روایتی مذہبی طبقہ ہر حکومت کے ساتھ کھڑا رہا، اس بات سے قطع نظر کہ حکمران سیکولر ہے یا دین دار، ڈکٹیٹر ہے یا منتخب، کرپٹ ہے یا دیانتدار بلکہ چشم فلک نے تو یہ منظر بھی دیکھا کہ اہل جبہ، قبہ و دستار حکمرانوں کی کرپشن کے دفاع میں حکمرانوں سے بھی دس قدم آگے نکل گئے۔
یہ طے ہے کہ مذہبی سیاست کے علمبردار تو کسی قیمت پر مسلکی کنویں سے نکلنے پر آمادہ نہیں کیونکہ انکی روٹیاں اپنے مسلک و مدارس سے جڑے سادہ لوح لوگوں سے جڑی ہوئی ہیں مگر خود کو مسلکی سیاست سے بالاتر، ماڈرن اسلامی تحریک کہلوانے والی جماعت اسلامی بھی اپنی سیاسی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بجائے ہمیشہ عوام کو جاہل قرار دے کر بری الذمہ ہونے میں عافیت سمجھتی ہے۔ جب کبھی آپ کو جماعت اسلامی سے ملنا ہو تو جماعت اسلامی آپکو مسلکی مولوی صاحبان اور کالعدم تنظیموں کے جھرمٹ میں ہی ملے گی۔

عوامی سیاست۔
عوامی سیاست بنیادی ضروریات زندگی بجلی، پانی، گیس، روٹی، کپڑا مکان، صحت، تعلیم، روزگار اور تھانہ، کچہری، کورٹ سے منسلک ہے۔ علاقائی، قبائلی اور برادری عصبیت بھی عوامی سیاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لوگ بنیادی ضرویات زندگی کے حصول کے لیے مذہب و مسلک سے بالا تر ہو کر ہر اس شخص پر اعتماد کرتے ہیں جو انہیں بہتر طرز زندگی کی امید دلائے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے میاں نواز شریف تک لوگ سراب کو پانی سمجھ کر ہی تو بھٹکے ہیں۔
میاں نواز شریف کے معاملے میں عوام شعوری طور پر اس منطق کو قبول کر چکے ہیں کہ وہ زرداری سے کم کرپٹ ہیں اور یہ کہ اگر وہ کمیشن لیتے ہیں تو گراؤنڈ پر کچھ بناتے بھی ہیں، وہ خود بکرا اور پھل کھاتے ہیں تو چھیچھڑوں اور چھلکوں میں عوام کو بھی شامل رکھتے ہیں۔

جماعت اسلامی نے الخدمت فاؤنڈیشن، کراچی کی نظامت اور کے پی کے میں شراکت اقتدار کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی سنجیدہ کوشش ضرور کی مگر خود پر ایک روایتی مذہبی جماعت کا ٹھپہ لگوا کر عوام الناس کی عظیم اکثریت کو اپیل کرنے میں ناکام رہی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان ایک دستوری ریاست ہے جس کے تمام تر مسائل کا حل صرف و صرف قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری میں مضمر ہے۔۔ ان حالات میں ایک ایسے "پلیٹ فارم" کی اشد ضرورت ہے جس کا منشور ہی "دستور پاکستان" ہو، جہاں مذہبی اور غیر مذہبی کے بجائے رائٹ اینڈ رانگ، دیانت و کرپشن، اہل و نا اہل کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد کی جائے۔ جہاں ہر طبقہ فکر کے دیانتدار لوگوں کو کرپٹ سیاسی مافیا اور مذہبی اجارہ داروں کے خلاف متحد کیا جائے اور یہ کام جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اشتراک سے ہی ممکن ہے بشرطیکہ دونوں جماعتیں اپنی اپنی ساخت و پرداخت اور سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کے لیے تیار ہو جائیں۔

Facebook Comments

سردار جمیل خان
کرپشن فری آزاد و خود مختار پاکستان کے لیے جدوجہد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply