مقبوضہ وادی کشمیر جہاں آئے روز انسانی جانوں کے ساتھ کھلواڑ کر کے ان کے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، بھارت جیسے کثیر المذہب ملک سے وابستہ اکثریت نے کتے اور گائے کی قدر کرنا تو اچھی طرح سمجھ لیا ہے لیکن انسانی جان کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ بھی شائد ان کو آج تک نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز انسانوں کی قتل و غارت گری تو برداشت کی جارہی ہے لیکن کتوں اور گائیوں کو مارنے کاسوچنا بھی برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ چنانچہ یہ طریقہ نہ صرف بھارتی سرکار کی موجودہ پالیسی کا حصہ ہے بلکہ اس سے قبل کی سرکاریں جن میں خاص کر کانگریس سرکار تھی ،کا بھی اس معاملے میں یہی سوچ تھی۔ وہ بھی برابر جانوروں کے حقوق ادا کرنے میں پہل تو کرتے رہتے تھے لیکن انسانی جانوں کی کوئی پرواہ نہیں رکھتے تھے، البتہ وہ اعلانیہ ایسا نہیں کرتے تھے لیکن آر ایس ایس سے منسلک پارٹیوں جن میں بی جے پی کو ایک خاص مقام حاصل ہے ،اس نے علی الاعلان اس بات کو دہرایا کہ مذکورہ جانوروں کو کسی بھی غرض کے لیے ذبح کرنا برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس کی تازہ مثالیں آج بھارت بھر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ گائے کے پرستار گائے کھانے والوں پر قہر برپا کئے جا رہے ہیں۔ رپورٹوں کے مطابق کئی لوگوں کی جانیں اسی لیے لی گئیں کہ وہ اسی کاروبار کے ساتھ منسلک تھے۔ گائو پرستی نے گائے کو اس قدر مقدس بنادیا ہے کہ اس کا ہر عضو قابل پرستش تصور کیا جاتا ہے،حتیٰ کہ اس کا پیشاب ’’پوِتر‘‘ سمجھ کر فخراً پی لیا جاتا ہے ۔ بھارت بھر میں ایک طرف گائو پوجا کرنے والے گائو ماتا کو بری نظر سے دیکھنا برداشت نہیں کرتے اسی طرح اپنے ایک پاس شدہ بل کے مطابق تکلیف دہ جانور کتا بھی ان کے ہاں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انسانی جانوں کے زیاں کی ایک وجہ کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہے، اور اس تعداد میں جو آئے روز اضافہ ہو رہا ہے، بجائے اس کے کہ اس کا تدارک کیا جاتا اس پر کوئی بات تک نہیں کی جاتی بلکہ قانوناً کتا ایک ایسا جانور بنایا جا چکا ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری قانون کے نام پر حکومت کوسونپی گئی ہے، انسانی جان جائے تو جائے ۔لیکن ایک کتے کے حقوق چھین لینے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ پورے بھارت میں عموماً اور مقبوضہ جموں وکشمیر میں خصوصاً ایسے ہی قوانین اور ان کی ’’مذہبی سوچ‘‘کی وجہ سے انسانیت کا خون بہایا جارہا ہے۔
مقبوضہ وادی کشمیر میں اس صورت حال کا سامنا ہے، یہاں اگر کوئی اپنا حق وصول کرنے کے لیے اپنی آواز بلند کرے تو اسے کچل کر یا تو ابدی نیند سلا دیاجاتا ہے یا اس قدر ناکارہ بنا دیا جاتا ہے کہ وہ عمر بھر اپاہج بن کر گھر کے جیل کا قیدی بن کر رہ جاتا ہے۔ وادی کشمیر میں بڑھتے ہوئے کتوں کی تعداد جو انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں ان کے حقوق کی پامالی کے بارے میں تو سوچا جا رہا ہے لیکن انسانی حقوق کی جو دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں اس پر ایک آنسو کا قطرہ بھی نہیں بہایا جاتابلکہ اُلٹا ایسے طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں جن سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بھارت کی موجودہ سرکار کی نظر میں اہمیت کس کو ہے اور کس کو نہیں۔ جانوروں کی قدر کرنے والے بے گناہ اور حق کے طلب گار انسانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ ہر دو روز کے بعد کسی نہ کسی نام پر انسانی جان کے ساتھ کھیل کر اس کا خون بہایا جارہا ہے۔ جن میں سے ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں پر مشتمل ہے جنھیں قوم کا مستقبل کہا جاتا ہے یعنی نوجوان طبقہ۔ نوجوان طبقہ کو جیل کی کال کوٹھریوں میں پابند سلاسل تو کر دیاجاتا ہے لیکن ان کے حقوق ادا نہیں کئے جاتے، جانوروں کی پرواہ کرنے والے شاید یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ہم بھی انسان ہی ہیں۔
مقبوضہ جموں وکشمیر کی موجودہ مخلوط اور کٹھ پتلی سرکار بھارت کے مرکزی حکم ناموں کی من وعن اس طرح عمل داری کرتی ہے کہ گویا اس کی آنکھوں پر پٹی لگی ہوئی ہو۔ صحیح اور غلط کی تمیز کئے بغیر صرف یہ دیکھا جارہا ہے کہ ’’کرسی‘‘ کس طرح سے محفوظ ہے۔ گویا اس کٹھ پتلی اور نام نہاد حکومت کے سامنے قدر اپنی کرسی کی حفاظت کی ہے انسانی جانیں چلی جائیں تو جائیں ، کسی نے کہا تھا کہ ’’جان جائے پر وچن نہ جائے‘‘ برابر اسی صورت حال کا سامنا مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو ہے۔ اپنے بنیادی حق ’’آزادی‘‘ کی بات کرنے والے انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کیا جارہا ہے۔ یہاں کی نوجوان نسل کو ناکارہ بنا کر ان کے اندر ایسی سوچ پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ وہ ہمیشہ ناکارہ ہی رہنے کے لیے پیدا کئے گئے ہیں اور ان کا ناکارہ ہی رہنا ضروری ہے۔ جموںوکشمیر کے لوگوں کے ساتھ ایسا برتائو کیا جارہا ہے کہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں کے جانور، یہاں کی دھرتی اور یہاں کے پیڑ پودوں کے متعلق بڑی بڑی باتیں اور باشن دئے جاتے ہیں لیکن یہاں رہنے والی انسانیت کو دہشت گرد اور اسی طرح کے کئی اور ناموں سے ملقب کر کے ان کی جانوں کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔
طالب علم جب شرارت کرے تو عام معمول ہے کہ اسے سمجھا بجھا کر اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اس طرح نہیں بلکہ اس طرح کرے لیکن یہاں کی نوجوان نسل جن میں طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں جب اپنا بنیادی حق حاصل کرنے کی’’ غلطی‘‘ کرتا ہے تو انہیں اس طرح انہیں کچلنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ آئندہ وہ اپنے بنیادی حق کی بات تو دور اس کے بارے میں سوچے بھی نہیں، لیکن ’’ایں خیال است وومحال است‘‘کے مصداق طلبہ برادری میں مزید اپنی جدوجہد کے تئیں اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ یہاں کی بیٹیاں جنہیں نہ صرف اپنے حقوق نسواں ادا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ان کی عزت وعصمت اور ان کے محافظ بھائیوں اور ان کے بیٹوں کی حفاظت بھی ضروری ہے، جب وہ اپنے ان حقوق کی بات کرتی ہیں تو ان پر بھی قہر برپا کیا جارہا ہے، انہیں بھی ایک نام اور دوسرے نام سے دہشت گرد اور امن کو بدامنی میں تبدیلی کرنے کی وجہ بتا کر ان کے ساتھ بھی برابر مردوں جیسا سلوک اختیار کر دیا جاتا ہے، ان پر گولیاں برسائی جا تی ہیں، ان کی آنکھوں پر پیلٹ کے چھروں کا استعمال کر کے ان سے آنکھوں کی بصارت چھینی جا رہی ہے، اس پر ہی بس نہیں بلکہ انہیں بھی اپنے لیے خطرہ سمجھ کر جیلوں کی نذرکر دیا جاتا ہے۔ یہاں کے بزرگوں پر بھی پیپر اور دوسرے مہلک قسم کے ہتھیار استعمال کر کے ابدی نیند سلایا جارہا ہے۔
بہرحال یہ واضح اور مسلمہ حقیقت ہے کہ قوموں کی پہچان اور ان کے مہذب و غیر مہذب ہونے کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ انسانیت کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہیں۔ اگر انسان کا خیال رکھ کر انسانیت کی فلاح وبقا کا خیال رکھا جاتا ہو تو اس سے بڑھ کر مہذب ہونے کی کیا دلیل ہو سکتی ہے لیکن اگر ہر چیز کو قبول کیا جاتا ہو مگر انسان کو گوارا نہ کیا جاتا ہو تو مہذیب کو غیر مہذب کہلانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔
ترقیوں کی منزلوں کو چھونے کا خواب دیکھنے والا بھارت ضرور ترقی کی منزل کو پا سکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ انسانیت کی بقاء اور انسانی حقوق کا پاسدار بن کر تمام انسانوں کو انسان سمجھے اور ان کے ساتھ انسانوں جیسا رویہ اختیار کرے کہ جس کی جو طلب ہے اسے پورا کرنے کی کوشش کرے۔ جس کا جو سلب شدہ حق ہے، اسے اپنے حق سے بے دخل نہ کرے، جس کا جو مقام ہے اسے اپنے مقام پر فائز رہنے دے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ بھارت برصغیر میں ایک طاقتور اور مضبوط ملک کے طور پر ابھر سکتا ہے لیکن اگر موجودہ طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائی گئی تو دور سے دکھنے والے اسی ترقی پذیر ملک کو زوال سے دوچار ہونے میں دیر نہیں لگے گی، بلکہ ایسے طریقے اختیار کرنے والے ممالک کو پوری دنیا کے لیے نشان عبرت بناکر رکھا جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں