مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے ستر سال سے زائد کے عرصے میں جس قدر مظالم ڈھائے گئے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔نہتے کشمیریوں کے جذبہء حریت کو دبانے کے لیے بھارتی قابض فوج نے تشدد کے وہ تمام حربے استعمال کیے جن کی عالمی قوانین میں سخت ممانعت ہے، حتی کہ پیلٹ گن تک کا استعمال، مظلوم کشمیریوں پر کیا گیا،کشمیری خواتین کی عزتوں کو آج تک پامال کیا جا رہا ہے،لیکن ظلم کا یہ دائرہ کار اس نیم پاگل مودی سرکار میں مقبوضہ کشمیر سے نکل کر، بھارت کے دوسرے شہروں تک جا پہنچا ہے۔
بھارت میں نریندر مودی کے دور ِ حکومت میں مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جا چکا ہے،مسلمانوں کو نماز ِجمعہ کے اجتماعات کرنے سے بھی روکا جانے لگا ہے,انڈین میڈیا ہر وقت مسلمانوں کے خلاف آگ اگلنے اور ہرزہ سرائی میں مصروف عمل ہو کر ان کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہا ہے۔جس کی وجہ سے انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے واقعات میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
بھارتی میڈیا کے منفی رویے نے اسے دنیا بھر میں بے آبرو کروایا ہے۔بھارتی حکومت اور میڈیا کا انتہا پسندانہ رویہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس کا شکار ہیں،بھارت میں گزشتہ ایک سال سے کسان مودی سرکار کی جانب سے کسان مخالف قوانین پر سراپا احتجاج رہے ہیں،جب ان کا احتجاج حد سے بڑھا تو مودی سرکار نے کچھ قوانین کو واپس لے لیا جو کہ تھوک کر چاٹنے کے مترادف ٹھہرا،مگر کسانوں کے اس احتجاج کو مودی سرکار اور ان کے بکاؤ میڈیا نے خالصتاً ن احتجاج قرار دیا،کسانوں کی احتجاجی ریلی پر، بی جے پی کے منسٹر نے اپنی گاڑی چڑھا دی اور 9 لوگوں کی موت ہوگئی،مگر اس معاملے کو بھارتی بکاؤ میڈیا نے دبانے کی کوشش کی۔
حال ہی میں ٹی 20 ورلڈ کپ 2021 میں بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان سے عبرتناک شکست ہوئی، جس کی وجہ سے بھارتی عوام اور میڈیا دونوں ہی آپے سے باہر ہوگئے، اور اپنا سارا غصہ اپنے سٹار فاسٹ باؤلر محمد شامی پر نکالا، ان کو یہ تک کہا گیا کہ وہ پاکستان چلا جائے،بھارتی مسلمانوں کے لیے بھارت نہایت غیر محفوظ ہوچکا ہے، کچھ عرصہ قبل بھارتی فلم انڈسٹری کے شہنشاہ شارخ خان کے بیٹے آریان خان کے ڈرگ کیس کو صرف اور صرف اسی بناء پر رائی کا پہاڑ بنایا گیا کہ وہ مسلمان ہے،بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
بھارت میں کورونا وائرس کے بدترین حملے کی وجہ بھی بھارت میں موجود تبلیغی جماعت کو بتایا گیا اور میڈیا نے اس معاملے پر بدترین منفی رپورٹنگ کی، اور ان پر انتہا پسند ہندوؤں نے تشدد بھی کیے،
قائداعظم محمد علی جناح کے تاریخی جملے آج بھی فضاء میں گونج رہے ہیں کہ “جو لوگ ہندوستان رہ گئے ہیں ان کو ساری زندگی وہاں اپنی حب الوطنی کا ثبوت دینا پڑے گا”
اور آج ایسا ہی ہورہا ہے، بھارتی مسلمان بد ترین حالات کا شکار ہیں،لیکن دوسری جانب ایک بات نہایت غور طلب ہے کہ بھارتی ہندوؤں کی ایک کثیر تعداد عرب امارات، دبئی، قطر، بحرین اور دیگر مسلم ممالک میں روزگار کما رہی ہے اور ان مسلمان ممالک سے زر مبادلہ کما کر بھارت بھیج رہی ہے،ان ممالک میں ان ہندوؤں کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مسلم ممالک بھارت پر اپنا سفارتی اثر و رسوخ استعمال کرکے اسے مجبور کرتے کہ وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنے مظالم بند کریں اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب رائے کروا کر، کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے اور بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی مکمل مذہبی آزادی کو یقینی بنائے،مگر حالات اس کے برعکس جارہے ہیں۔
سعودی عرب نے بھارت میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کردی ہے،عرب امارات میں تاریخ کا سب سے بڑا مندر تعمیر کروایا جا چکا ہے،اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کیخلاف بڑھتی انتہا پسندی دراصل عالمِ اسلام کی مجرمانہ خاموشی کا نتیجہ ہے۔
دنیا میں 57 اسلامی ممالک ہیں، ان سب کو اپنے اختلافات کو ختم کرکے ایک ہونا پڑے گا،تاکہ وہ دین اسلام کی اور مسلم دنیا کی نہ صرف حفاظت کر سکیں بلکہ مضبوط اسلامی معاشی نظام کو بھی فروغ دے سکیں،
بقول ڈاکٹر محمد علامہ اقبال
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں