وہ جہاں بھی گیا لوٹا۔۔۔۔فاخرہ نورین

فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا۔۔۔
استنبول ایئرپورٹ پر یورپ سے پہلا تعارف ہوا اور کراہیت کا ایک مستقل احساس ایسا چپکا کہ انگلینڈ، فرانس بیلجیم ، ہالینڈ، جرمنی آسٹریا اور اٹلی کے آبانو تیرمے تک بھی اس سے نجات ممکن نہ ہو سکی۔

ائیر پورٹ پر اترتے ہی پہلا کام حضرت باتھ روم کے دربار میں حاضری تھی ۔میں سارے راستے پانی پی پی کر اپھارہ زدہ بلی بنی پڑی تھی، خوف لاحق تھا کہ انسانی مثانہ کہیں تابکاری و نابکاری پر نہ اتر آئے ۔مثانے کی مرمت اور تعمیر نو کے ساتھ ساتھ اسکی گرمی اور ٹھنڈک کے اسباب علاج کے دعوے دار وطن عزیز میں تو مثانہ دار مخلوق سے بھی زیادہ پائے جاتے ہیں لیکن یہ دیار غیر تھا اور اس پر یہ احساس بھی کہ غریب الوطنی بہر کیف امیر ملک میں بھی غریب ہی رہتی ہے ۔

پھر ایک قباحت یہ بھی درپیش تھی کہ زنانہ مثانہ تو ملکی حکماء کے دست شفا رسا سے محروم تھا یورپ میں کہاں توجہ حاصل کر پاتا۔غالباً یہ لوگ دیگر اعضائے رئیسه و خبیثہ پر اس قدر مہربان تھے کہ
انھیں یاد ہی نہیں تھا، ہم لوگوں کا مثانہ۔۔۔
خیر باتھ روم صاف چمکتے لش لش کرتے، خوشبو دار فینائل میں بسے تھے، میں متاثر ہو گئی ۔

جب انگریزی محاورے کے مطابق پانی بنا لیا تو معلوم ہوا کہ اب عین اسلامی اور غین اردو زبان میں پانی بنانے کی ضرورت ہے ۔باتھ روم میں ٹائلٹ پیپر تھے اور میں کہ دیسی اور روایتی عورت تھی، رونے کے لئے بھی دوپٹہ استعمال کرتے عمر گزارے ہوئے تھی، دھونے کے لئے پانی کے علاوہ کسی ٹھوس مائع کی قائل نہیں تھی۔

ساری زندگی سڑ سڑ کرتی ناک بھی دوپٹے سے پونچھی تھی، ٹشو پیپر کو قابل اعتنا نہیں گردانا تھا اب ٹشو کو کسی طرح بھی اپنی ذاتیات میں دخل کی اجازت نہیں دے سکتی تھی ۔
میں سائنس دان نہیں تھی کہ دو گیسوں کے ملاپ سے پانی بناتی ،ویسے بھی وہاں دستیاب گیس سے غالباََ پانی نہیں بنتا۔

باتھ روم رنگ رنگ کی حسین عورتوں سے لبا لب تھا ،گھٹنوں سے پھٹی جینز اور آدھے سے زیادہ سازوسامان دکھاتی ٹی شرٹس اور ٹاپ، وہ سب اپنے اپنے بیگ سے لپ اسٹک اور دیگر سامان آرائش نکالے مصروف عمل تھیں لیکن میں ایک ایک کو بغیر کسی وقفے کے دوسری کے نکلتے ہی بھاگ کر باتھ روم گھستے اور بنا دھلائی محض پونچھائی  کے زور پر باہر نکلتے دیکھ رہی تھی سو اس حسن قیامت خیز کی بجلی جس جس پر گرنے والی تھی مجھے اس پر ترس آیا ۔یہ تو پانی کی بوتل پکڑانے آنے والے زبیر نے بتایا کہ

دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی

مردان یورپ بھی دھونے دھلانے کے تکلف سے مبرا تھے۔سو یہ ہم نوواردان یورپ ہی ہیں جو تبلیغی جماعت کی صورت اپنا لوٹا اٹھائے حاجات رفع کرتے رہے، ورنہ یورپ ایسی تمام حاجات کو رفع دفع کر چکا ہے ۔غالباََ یورپ کو استنجے میں غلو کے نقصانات معلوم ہو چکے تھے اور وہ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ پانی کا بے جا استعمال معدے کو پانی سے بھر سکتا ہے، سو گربہ کشتن روز اول اور دیگر محاورے ذہن میں رکھ کر انھوں نے تیل کے وہ نو من ہی مہیا نہ کیے جن کی شہہ پر کسی کی /کا رادھا ناچ سکے۔

مسلم سائنس دانوں کے پیٹنٹس کو میں نے ہمیشہ شک و شبے کی نظر سے دیکھا ہے، کیوں کہ دنیا میں آنے والی ہر نئی  ریسرچ اور ایجاد کو گھما پھرا کر کسی ابو فلاں و ابن ڈھمکاں کی طرف منسوب کر کے ہم اولیت کے مزے مفت لیتے ہیں، سائنسی ترقی سے ایمان اٹھنا لازمی امر ہے۔
لیکن مسلم شاور دائرہ اسلام میں نووارد یا مشکوک ایجاد نہیں ۔اسے پہلے دن سے پیٹنٹ کرا کے باقاعدہ حلقہ بگوش کیا گیا ہے ۔

میں نے پورے یورپ میں مسلم شاور کو اتنا یاد کیا کہ پچھلے تین سال میں زبیر کو بھی نہیں کر پائی  ہوں گی۔ یورپی ممالک میں سارا وقت آپ اپنے آپ کو غلیظ محسوس کرتے ہیں اس میں ان کی صفائی ستھرائی سے زیادہ آپ کی ذاتی گندگی کا دخل ہوتا ہے ۔

اٹلی میں تو حد ہی ہو گئی ۔باتھ روم کموڈ کے ساتھ ایک پیندے والا قدرے پست قامت کموڈ بھی لگارکھا تھا جس کی پشت پر ایک ٹوٹی لگی تھی جو بیٹھنے کی صورت میں اپنی پشت پر لگ جاتی تھی۔دو بار باتھ روم جا کر بھی اس کا طریقہ استعمال اور اس سے زیادہ جواز و استدلال سمجھ نہ آیا ۔ تب ایم فِل اور پی ایچ ڈی کے مقالہ لکھنے کے مرحلے پر آ چکے سکالرز کی مشکل بھی سمجھ آ گئی کہ جو اپنی سمجھ اور دائرہ علم سے باہر ہو اس پر کام کا جواز اور استدلال صرف غیبی امداد ہی سے ممکن ہے۔

دروازہ بند کر کے اس کا مشاہدہ کیا اس کے دخول و خروج کے میکنزم پر سوچ بچار کی، پھر دروازہ کھول کر اس معاملے پر روشنی ڈالی
مگریہ مسئلہ زن کہ رہا وہیں کا وہیں

آخر اس مرد درویش صفت جو پچھلے بائیس برس سے اٹلی کی خاک چھان کر زیر و زبر کر چکا تھا آواز دی کہ اے بندہ خدا مددگار ہو کہ اس مشکل سے نجات پا جاویں اور دیس اپنے جا کر دوسرے لوگوں کو بھی سمجھا پاویں۔
تب وہ دانا مرد یوں گویا ہوا۔

یہ ظرفِ کم ظرف کہ جس کے پیندے کو تو مسطح دیکھتی ہے، اور ایک خروجِ آب کا مرمریں آلہ جس کی پشت پر نصب ہے، خاص اس واسطے ہے کہ بعد از رفع دفع حاجت محتاج اس پر تشریف فرما ہووے اور اپنی نکاس کو دھووے۔
یاخواہی تو پانو اس کے اندر رکھے اور ان کی
میل کچیل سے مستثنی ہووے۔

ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی دھلائی کا طریقہ سن کر مجھے ابکائیاں شروع ہو گئیں۔قریب تھا کہ میں اس ظرفِ کم سواد کا ایک اور استعمال یعنی کھائے پیے کے براستہ حلق اخراج کو بھی ٹھکانے لگانا دریافت کرتی، زبیر نے مجھے باتھ روم سے باہر کھینچ لیا ۔اس کی شریعت میں عورت کی ابکائی  غیر پیداواری وجوہات کے ساتھ حرام ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

بندگان خدا، بے شک
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
افرنگ مگرڈھیلے کے پاسنگ بھی نہیں ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply