انڈیا کا یو سی سی پلان کیا ہے؟-عزیر احمد

آپ اس بات کو سمجھیے ،مقتدرہ کو بھی معلوم ہے کہ ہندوستانی مسلمان برما کے مسلمان نہیں ہیں کہ راتوں رات ان پر زمین تنگ کردی جائے، انہیں سمندروں میں غرق کردیا جائے، یا در بدر کردیا جائے، ہندوستانی مسلمانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ باقاعدہ اگر وہ مہم چلانے لگیں اور سب کو فری ہینڈ دے دیں تو بھی شاید صفایا کرنے میں سالوں لگیں، اور پھر ہندوستانی مسلمان اتنا آسان تر نوالہ نہیں ہیں، اس لئے وہ اس اصول پر عمل کر رہے ہیں کہ اگر ان کا خاتمہ نہیں ہوسکتا آپ انہیں غیر مرئی بنا دیں، نہ وہ پبلک کو دکھیں گے، نہ ان کے ویلفئیر اور حقوق کے بارے میں بات ہوگی، اور نہ ہی وہ ہندوستانی قانون میں درج “برابری” کے مستحق ہو پائیں گے۔

سو آپ یہ جتنا کچھ دیکھ رہے ہیں، شناخت پر حملہ سے لے کر مدارس اور مسجد تک، بلڈوزر جسٹس سے لے کر ہیٹ اسپیچ کے ایک لا متناہی سلسلے تک، یہ سب اسی لارجر پلان کا حصہ ہے، “مسلمانوں کو غائب کرنا”، سڑکوں اور جگہوں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں، وہ علاقے جو مسلمانوں نے بسائے، انہیں بھی کسی اور کے نام سے موسوم کیا جارہا ہے، تاریخ میں چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے، ماضی کا استعمال حال کے مسلمانوں کو ڈیمونائز کرنے میں کیا جارہا ہے، پارلیمنٹ میں مسلم ایم پی سے پوچھا جارہا ہے بتاؤ بابر غدار تھا یا نہیں، اکبر جسے ہندوستانی سیکولرزم کا اصلی بابائے اعظم کہا جارہا تھا اسے تک نہیں بخشا جارہا ہے، سارے ہارے اور پٹے ہوئے مہروں کو مہان بتایا جارہا ہے، تیوہاروں کا استعمال مسلمانوں کی معاشیات تباہ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے، احتجاج کا حق چھینا جارہا ہے، ہمت کرکے احتجاج کرنے والوں کو اپنے گھر سے ہاتھ دھونا پڑ جارہا ہے، حال ہی ازہر ہند کو گرانے کی بھی دھمکی دی گئی ہے، اس سے پہلے کورونا وائرس کے درمیان تبلیغی جماعت کے نام پر کس طرح مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کیا گیا، انہیں کورونا کے پھیلنے کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔

یہ سب کچھ یونہی نہیں ہے، بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا پلان ہے کہ کس طرح مسلمانوں کو شناخت کے بحران میں  دھکیلا جائے، مسلمانوں کے ہندوستان کے ساتھ جڑے ہونے پر سوالیہ نشان کھڑا کیا جائے، نیشنلزم کو ایک ہی قومیت کی جاگیر قرار دیا جا سکے، ایم۔ایس گوالولکر نے اس پورے پلان کو پہلے ہی لکھ دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے لئے سب سے بُرا دن وہی تھا جب مسلمان ہندوستان کی دھرتی پر اُترے تھے، تب سے لے کر آج تک ہندو قوم بہادری کے ساتھ ان تباہ و برباد کرنے والوں کے ساتھ لڑتی آرہی ہے، اب نسلی روح بیدار ہورہی ہے، ہندوستان کی سرزمین ہندوؤں کی ہے، یہ صرف اور صرف ہندو راشٹر ہے اور اسی کو رہنا چاہیے، باقی سب یا تو غدار اور ملک کے دشمن ہیں یا پھر اگر تھوڑی نرمی کے ساتھ کہا جائے تو بیوقوف ہیں، غیر ملکی نسلیں ہندوستان میں رہ سکتی ہیں، لیکن مکمل طور پر ہندو راشٹر کے ماتحت ہو کر، کسی بھی چیز کا دعویٰ نہیں کر سکتیں، کسی بھی قسم کے مراعات کی مستحق نہیں ہوسکتیں، ترجیحی سلوک کی بات تو دور کی ہے، وہ تو شہری حقوق کے بھی مستحق نہیں ہوسکتے۔

گوالولکر کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات سے کوئی دقت نہیں کہ مسلمان جمعہ کی نماز پڑھیں یا مسجد بنائیں، اگر وہ تسلیم کرلیں کہ وہ ہندو تہذیب کے پرداختہ ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھلے ہی آپ اپنا پہلا نام مسلم رکھ لیں، لیکن سرنیم ہندو رکھیں۔

رائٹ ونگ مثقفین کے مطابق ہندو ازم کی خوبصورتی “انضمام” ہے، یہ سب کو اپنے اندر سمو لیتا ہے، اس لئے آپ دیکھیں گے کہ ساؤتھ ایشیا میں جتنے بھی مذاہب نے جنم لئے، ہندو ازم نے سب کو اپنا لیا ہے، لیکن ایک اسلام ہی ہے جو اس کے ساتھ منازعت کی راہ اختیار کرتا ہے، کیونکہ دونوں کی کور آئیڈیالوجی بہت الگ ہے، اسلام کی اساس توحید پر ہے، جس کی وجہ سے اسلام اس چھتری کے نیچے نہیں آپارہا ہے، اگر مسلمان اس میں لچک اختیار کر لیں تو ملک و قوم کے لئے بہت فائدہ مند ہوگا، لیکن اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو کم سے کم “ثقافتی انضمام” سے راضی ہوجائیں، جس میں “انڈیا-اسلامک ثقافت” نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی، جو بھی ہے وہ “سنسکرتی ثقافت” ہے، اور وہی “ہندو-مسلم” کی مشترکہ ہندوستانی ثقافت ہونی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سو آپ یاد رکھیں کہ مقتدرہ کی نفسیات میں مسلمانوں کا خاتمہ مقصد نہیں ہے، بلکہ مقتدرہ اسی فریم ورک میں کام کر رہا ہے جس کے خد و خال کبھی گوالولکر نے کھینچے تھے، یعنی مسلمانوں سے مسلمان ہونے کا احساس چھین لینا ہے، ان کے اندر ڈر اور خوف کو اس حد تک بٹھا دینا کہ وہ اپنے نام سے بھی ڈرنے لگیں، نہ کوئی تہذیبی اور تاریخی شناخت، نہ حجاب، نہ مدرسہ، نہ مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں سیکھنے دینا، اور پھر دھیرے دھیرے پوری کمیونٹی کو اس کے اصل سے دور کردینا، یو سی سی اسی پلان کا اگلا بڑا حصّہ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply