ساڈے اسلام دا مجاق/محمود اصغر چوہدری

اچھرہ بازار میں ایک خوفناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں ایک خاتون کو ایک ہجوم کی جانب سے اس وقت ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا جب وہ ایک ایسا لباس پہن کر بازار میں کھانا کھانے پہنچ گئی جس پر عربی میں کچھ لکھا ہوا تھا ۔ مذہبی جنونیوں نے سمجھا کہ لباس پر عربی میں آیات لکھی ہوئی ہیں ۔ اس لئے وہ اسے قتل کرنے کے در پے ہوگئے ۔ بڑی مشکل سے ایک لیڈی پولیس آفیسر  نے  حکمت  عملی سے اسے بچایا۔ جب اس خاتون کو لے جایا جا رہا تھا اس وقت عوام نے جو نعرے لگائے اس میں ایک تو یہ تھا کہ گستاخ رسول کی ایک سزا۔سر تن سے جدا اور دوسری ایک آواز یہ تھی کہ ساڈھے اسلام دا مذاق اڑایاجا رہا ہے ۔

عورت نے جو لباس پہن رکھا تھا اس پر عربی میں لفظ حلوہ لکھا ہوا تھا ۔ عوام کی جہالت کی تو سمجھ آگئی کہ انہیں لفظ حلوہ میں بھی قرآنی آیات اور گستاخیء  رسول نظر آگئی ہے لیکن اس سے بھی افسوس ناک واقعہ یہ ہوا کہ قانون نافذکرنے والے ادارے یعنی پولیس کی موجودگی میں اس عورت کی  ایک معافی کی ویڈیوچلوائی گئی جس میں اس عورت کے ساتھ دو تین  مولوی بیٹھے ہیں اور وہ ان کی موجودگی میں بتا رہی ہے کہ اس کا سسر حافظ قرآن ہے   اور اس عورت کا تعلق سنی مسلک سے ہے ۔

بجائے اس کے کہ پولیس ہجوم کو برانگیختہ کرنے والے جاہلوں اور ان کے پیروکاروں کو قانون کے کٹہرے میں لیکر آتی کہ آئندہ کسی ہجوم کو کسی عورت کو ہراساں کرنے کا بہانہ نہ ملتا ۔ ریاست نے اپنی بے بسی ظاہر کردی کہ اس ملک میں جیت ہمیشہ مذہب کا ہیضہ رکھنے والوں کی ہو گی ۔

ہماری ریاست مذہبی جنونیوں کی آماجگاہ بن چکی ہے ۔ یہاں ہر نیا واقعہ پہلے سے زیادہ سنگین نظر آتا ہے، جس پر مذہبی جنون نمایاں نظر آتاہے ۔ کچھ سال پہلے ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا جس میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کو کچھ مذہبی نوجوانوں کو اپنے ایمان کا حلفیہ بیان دینا پڑا تھا۔ اسی طرح سیالکوٹ میں ایک سری لنکن شہری کو ہجوم کی جانب سے اس لئے قتل کر دیا گیا تھا کہ اس نے ایک کاغذ صفائی کی نیت سے ہٹایا تھا جس پر کچھ متبرک نام لکھے تھے ۔ اسی طرح مشعال خان کو اس کے اپنے ہی ہم جماعت طلبا ء کی جانب سے قتل کر دیا گیا تھا ۔ دو دن پہلے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے ایک فیصلے کے بعد پہلی دفعہ وضاحت جاری کرنا پڑی کہ ان کے فیصلے میں کسی قانون کو ختم کرنے کی بات نہیں کی گئی تھی ۔ بلکہ اپنے ایک کیس میں جج صاحب کو ایک ویڈیو میں بار بار عوام کو یہ یقین دلانا پڑا کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺسے کتنی محبت کرتے ہیں ۔ اسی طرح ملک کے ایک سابق چیف آف آرمی اسٹاف کو اپنے مذہب کا یقین دلانے کے لئے اپناعہدہ سنبھالنے کے بعد کئی دن تک مدینے رہنا پڑا تھا ۔ اسی طرح ملک کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایک مذہبی ہیضے کے شکار شخص نے جوتا ماردیا تھا ۔ اسی طرح ایک سابق وزیراحسن اقبال کو گولی مار دی گئی تھا حالانکہ اسی موصوف کی والدہ نے یہ قانون بنوایا تھا ۔ ایک سابق وزیرخواجہ آصف پر سیاہی پھینک دی گئی تھی ۔اسی طرح سابق وزیر اعظم عمران خان پرمبینہ گولیاں چلانے والے نوجوان کا بیان بھی یہ دلوایا گیا کہ اذان کے وقت اس کے جلسے میں اونچی آواز میں گانے لگے ہوئے تھے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوال یہ ہے کہ ریاست ان مذہبی جنونیوں اوردھرم کے ہیضے کے شکار لوگوں کے سامنے بے بس ، مجبور اور لاچار کیوں ہے ۔ تو اس کا جواب بہت ہی سادہ ہے کہ ہر سیاسی و مذہبی جماعت اپنے ووٹ بنک میں اضافے کے لئے اور اپنے پیروکاروں کی تعداد بڑھانے کے لئے اس چورن کو خوب بانٹتی ہے ۔ اس انتہا پسندی کی آگ میں تیل ڈالتی ہے ۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہے کہ وقتی طور پر تو ان لوگوں کو فائدہ مل جاتا ہے لیکن دوسری جانب معاشرے میں انتہا پسندی اس عروج پر پہنچ جاتی ہے کہ وہ حلوہ جیسا لفظ بھی لباس پر لکھا ہوا دیکھیں تو سمجھتے ہیں کہ ساڈے اسلام دا مجاق اڑایا جا رہا ہے کیونکہ حلوہ تو خالص مذہبی لوگوں کی اصطلاح ہے۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply