کم علمی اور لاپرواہی – ہمارے معاشرتی المیے/ممتاز علی بخاری

پچھلےروز   لاہور میں ایک خاتون کے لباس پر عربی الفاظ لکھے ہونے کے باعث جنم لینے والے واقعے نے مجموعی طور پر سارے معاشرے کی افسوس ناک حقیقت کو آشکارکردیا ہے۔۔ بلاشبہ یہ واقعہ قابل مذمت ہے۔
کپڑوں کے برینڈ کے واہیات اور فضول ٹرینڈز، لباس پہننے والوں کی برینڈز کی اندھادھند پیروی اور عوام کی کم علمی جس کے باعث ایسے حادثات ہوتے ہیں۔
غلط فہمی  سے کتنا بڑا المیہ جنم  لے سکتا ہے، ایک واقعے سے آپ کو بتانے کی کوشش کروں گا۔

مجھے یاد آیا کہ جامعہ کشمیر میں بی ایس جیالوجی کرنے کے دوران ہم چند دوست سٹی کیمپس سے چہلہ جامعہ کی بس سے جارہے تھے ۔ ایک لڑکے نے سفید رنگ کی ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جس کے اوپر ایک شرٹ بھی پہنی تھی جس کے بٹن کھلے تھے۔ دور سے دیکھنے پر ٹی شرٹ پر لکھے الفاظ دور سے دکھائی دے رہے تھے۔
الفاظ کچھ یوں  درج  تھے “I HATE ALI”
ایک  دوست کی جب اس پر نظر پڑی تو مجھے اور ہمارے ساتھ موجود تیسرے دوست کو بھی اس نے لڑکے کی طرف توجہ دلوائی۔ ہم سب انتہائی حیرت زدہ اس لڑکے کو دیکھنے لگے۔ اچھا بھلا خوش اخلاق لڑکا تھا۔ دین سے شغف بھی تھا۔ ہماری کچھ جان پہچان بھی تھی۔ سو ہمیں اندازہ تھا کہ یہ ناصبی نہیں ہے۔ خیر کچھ سمجھ نہیں آئی کہ کِیا کیا جائے۔ چہلہ میں یونیورسٹی ہاسٹل میں ہم قیام پذیر تھے۔ وہ لڑکا بھی ہاسٹل ہی میں رہتا تھا۔ ہاسٹل پہنچتے ہی بات تین دوستوں سے پھیلتی پھیلتی آٹھ دس لوگوں تک پہنچ گئی۔ کچھ جذباتی نوجوان اس لڑکے کو مارنے کی پلاننگ کرنے لگے۔ خیر بڑی سوچ بچار کے بعد طے یہ پایا کہ پہلے اس لڑکے سے مل کر اس سے پوچھا جائے کہ اس نے ایسی ٹی شرٹ کیوں پہنی ہے؟۔۔اگر لاعلمی کی وجہ سے پہنی تو اسے چھوڑ دے۔ اگر جان بوجھ کے ایسی حرکت کی تو اپنا بغض اپنے تک محدود رکھے اور آئندہ ایسی شرٹ پہنے دکھائی نہ دے کیونکہ اس طرح بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اور اگرکسی نے ایسی ویسی حرکت کردی پھر رونا نہ ڈالنا۔

خیر سب کے مشورے سے ہم تین دوست اس کے پاس چلے گئے۔ جب اس کے کمرے میں  پہنچے تو اس نے کھڑے ہوکر استقبال کیا۔ ہم جیسے ہی بیٹھے ۔ میری نظر اس کی ٹی شرٹ پر پڑی جو ابھی تک اس نے پہن رکھی تھی البتہ اوپر والی شرٹ اتار دی تھی۔ شرٹ پر جلی الفاظ میں لکھا دکھائی دے رہا تھا
“؛I HATE ALL” ۔ آل کا آخری ایل اوپری شرٹ میں  آدھا دکھائی دے رہا تھا جس کی وجہ سے یہ سارامسئلہ پیدا ہوا۔

خیر ہم پھر اس سے کیا کہتے۔ ۔ گپ شپ لگا کر واپس میٹنگ روم پہنچے اور جا کر اپنی حماقت کی داستان سنائی۔ ہماری لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے جانے وہ کس مصیبت کا شکار ہو جاتا، رب نے مدد کی اور ہماری غلط فہمی کا جلد ازالہ ہو گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس واقعے کے بعد ہمیشہ میں چیزوں کو ویری فائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

Facebook Comments

ممتاز علی بخاری
موصوف جامعہ کشمیر سے ارضیات میں ایم فل کر چکے ہیں۔ ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ عرصہ دس سال سےطنز و مزاح، افسانہ نگاری اور کالم نگاری کرتےہیں۔ طنز و مزاح پر مشتمل کتاب خیالی پلاؤ جلد ہی شائع ہونے جا رہی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کی سازش کو بے نقاب کرتی ایک تحقیقاتی کتاب" عصمت رسول پر حملے" شائع ہو چکی ہے۔ بچوں کے ادب سے بھی وابستہ رہے ہیں ۔ مختلف اوقات میں بچوں کے دو مجلے سحر اور چراغ بھی ان کے زیر ادارت شائع ہوئےہیں۔ ایک آن لائن میگزین رنگ برنگ کےبھی چیف ایڈیٹر رہے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply