ہم سب ایک جیسے ہیں؟ جین (20) ۔۔وہاراامباکر

ایورٹ ہیوز نے ایک بار کہا تھا کہ میڈیکل سائنس دنیا کو معکوس نگاہ سے دیکھتی ہے۔ صحتمند ہونے کا مطلب بیماری نہ ہونا ہے۔ ایک آرتھوپیڈسٹ کے لئے ہڈی وہ شے ہے جہاں فریکچر ہوتے ہیں۔ نیورلوجسٹ کے لئے دماغ وہ شے ہے جہاں یادداشت کھو جاتی ہے۔ بائیولوجی میں جین کے ناموں کے ساتھ بہت عرصہ یہ سلوک ہوتا رہا۔ “چھاتی کے کینسر کی جین”، “ہنٹگٹن بیماری کی جین”۔ مکھیوں میں “پر غائب ہونے کی جین” وہ پروٹین بناتی ہے جو پر بنانے کی ہدایات دیتی ہیں۔ یہ خراب ہو تو پر نہیں بنتے۔ یہ نام ویسے تھے جیسے ہمارے اعضاء میں دماغ کا نام بھلکڑ پن، معدے کا نام السر، دل کا نام ہارٹ اٹیک یا ہڈی کا نام فریکچر رکھ دیا جائے۔

انسانی جینوم پراجیکٹ نے اس تصور کو بدل دیا اور یہ جین کے بارے میں سوچ کی بنیادی تبدیلی تھی۔ جینیات کا علم پیتھالوجی یا بیماریوں کا نہیں رہا تھا۔ جین کی نئی سائنس تاریخ، زبان، یادداشت، کلچر، شناخت اور نسل کی تھی۔ یہ نارمل انسان کی سائنس تھی۔ صحت، شناخت اور قسمت کی۔ یہ جین کی کہانی کا ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ جین، زندگی اور معاشرے کی سائنس جس نے تاریخ کے پیچیدہ ترین سائنس کے، فلسفے کے اور اخلاقیات کے سوال ہمارے سامنے لا کھڑے کئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جین نسل کے بارے میں کیا بتاتی ہے؟ بہت کچھ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ کسی بھی جاندار کے مقابلے میں انسانوں میں تنوع کی کمی ہے۔ ہم ایک کم عمر نوع ہیں۔ ہمارے ایک دوسرے سے فرق بہت کم ہیں۔ لیکن جب ہم غور سے جینوم کو دیکھیں تو اس کی ویری ایشن ہمیں جغرافیائی علاقوں اور برِاعظموں میں دکھائی دیتی ہے۔ ہر فرد کا جینوم اپنے آباء کے نشان رکھتا ہے۔ کسی ایک فرد کی جینیات اس کا تاریخی علاقہ، قومیت، ریاست اور یہاں تک کے قبیلے کو بھی حیرت انگیز ایکوریسی سے بیان کر دیتی ہے۔

نسل پرستی کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ لوگ نسل کے ہونے کا انکار کر دیتے ہیں۔ جب کوئی فرد اپنے بارے میں یہ پتا لگاتا ہے کہ اس کے آباء کہاں کہاں سے آئے، تو چونکا دینے والا تجربہ ہوتا ہے۔ نسل کی تعریف کی حدود اتنی واضح نہیں، یہ مبہم اور دھندلی لکیریں ہیں۔ لیکن پھر۔۔۔ کسی کو دیکھتے ہی اندازہ لگا لینا کہ فلاں شخص فلاں نسل یا قوم سے تعلق رکھتا ہے، کسی کے لئے بھی آسان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جینوم کے دور میں نسل کا تصور کم نہیں ہوا۔ لیکن، نسل پرستی کا اصل سوال یہ نہیں ہے۔

“عادتیں نسل کا پتا دیتی ہیں”۔ “میری قوم جیسا کوئی نہیں”۔ “نجب الطرفین”، “اصل النسب” ۔ اعلانیہ یا پھر غیرشعوری طور پر ہم یہ تصور رکھتے ہیں کہ نسل کئی اور چیزیں بتا سکتی ہے۔ یہ قوم پرستی اور نسل پرستی اور جین پرستی کی بنیاد ہے۔

ایک نسل پرست کے لئے سوال وہاں پر یہ نہیں ہوتا کہ کسے شخص کا رنگ، بال، آنکھ، زبان وغیرہ سے اس کے آباء کے بارے میں بتا سکتے ہیں یا نہیں۔ جینوم اب ہمیں اس سے بھی گہری معلومات دے دیتا ہے۔ نسل پرست کا اصل سوال اس سے الٹا ہوتا ہے۔ کیا نسلی شناخت (سیاہ فام افریقی، پٹھان، انگریز وغیرہ) کی مدد سے ہم زیادہ پیچیدہ فیچرز کا جان سکتے ہیں؟ ذہانت، عادات، شخصیت، قابلیت، مزاج؟ جین نسل بتا دے گی لیکن کیا نسل جین کے بارے میں بتاتی ہے؟

اس کا جواب جاننے کے لئے ہم نسلی کیٹگری کے درمیان ڈسٹریبیوشن کی سٹڈی کر سکتے ہیں۔ کیا افریقی اور یورپی جینیاتی کوڈ کی وجہ سے ذاتی، جسمانی اور ذہنی خاصیتوں میں کوئی معنی خیز فرق آتا ہے؟ اور اب ہم اس طرح کے سوالوں کے جواب اعداد و شمار کی مدد سے جانتے ہیں۔ جو کسی بھی طرح کے نسل پرست کے لئے مایوس کُن ہیں۔

ہر شمار کی جا سکنے والی پیچیدہ خاصیت میں جواب ایک ہی نکلتا ہے۔ ایک نسل کے اندر لوگوں میں فرق ایک نسل اور دوسری نسل کے فرق کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ یعنی انسان ایک جیسے نہیں اور انسانوں کی صلاحیتوں میں فرق ہیں (یہ عام مشاہدہ ہے) لیکن اس کا کسی نسل سے تعلق بہت کم ہے۔ اس کی وجہ خود جین میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جینیاتی ویری ایشن ایک گروپ کے افراد کے اندر اندر، دوسرے گروپس کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ افراد میں تو فرق ہے، اقوام میں نہیں۔

جب ہم کسی خاصیت کی تعریف کا فوکس بڑھاتے جائیں تو یہ فرق نمایاں نظر آنے لگیں گے۔ سکل سیل انیما کی بیماری غرب الہند کی سیاہ فام آبادی میں زیادہ ہو گی۔ ٹے سیکس کی بیماری آشکینازی یہودیوں میں۔ کیونکہ اس کا تعلق ایک جین سے ہے۔ لیکن جینوم ون وے سٹریٹ ہے۔ جینوم میں فرد کی تاریخ کا دستخط ہے لیکن تاریخ کا دستخط فرد کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم کرتا ہے۔ ڈی این اے دیکھ کر یہ بتایا جا سکتا ہے کہ اس شخص کے دادا نائیجیریا سے تھا لیکن یہ نہیں کہ اس وجہ سے یہ فرد کیسا ہو گا۔

ماہرِ جینیات یہ بتا کر خوشی خوشی گھر چلا جاتا ہے۔ نسل پرست خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جینز خاصیتیں دیتی ہیں۔ ان کو کیٹگری میں تقسیم کرنا نہیں بتاتی۔ یہ ماحول، کلچر، جغرافیہ اور تاریخ کرتی ہے۔ جو جینیاتی ویری ایشن کسی ایک جگہ پر زیادہ ہو، اس کو نارمل کہہ دیا جاتا ہے۔ (کئی بار قدرتی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند بھی)۔ جو ویری ایشن کم ہو، اس کو میوٹنٹ کہہ دیتے ہیں۔ اور یہ لسانی تفریق جینیاتی ویری ایشن کے ساتھ گڈمڈ ہو جاتی ہے۔ جب ایک جینیاتی ویری انٹ کسی جاندار کی ایک ماحول میں فٹنس متاثر کرے تو ہم اس کو جینیاتی بیماری کہتے ہیں۔ جب یہی ویری انٹ اس فٹنس کو بڑھا دے تو اس کو جینیاتی بہتری۔

ارتقائی بائیولوجی بتاتی ہے کہ یہ الفاظ خود میں بے معنی ہیں۔ ان کا تعلق ماحول سے ہے۔ ماہر نفسیات ایلیسن گوپنک کے مطابق، “جب کوئی پڑھنا نہیں جانتا تھا تو ڈسلیکسیا (لکھنے پڑھنے میں مشکل) مسئلہ نہیں تھا۔ ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں جین کی یہ ویری ایشن زندگی بدل دینے والی بیماری بن گئی”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

جینیات سے نسل پرستی کا خوفناک بھوت یوجینکس اور پھر نازی ازم کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔ جینومکس نے اس کو واپس بوتل میں بند کر دیا۔ “ہم سب ایک ہی تو ہیں۔ صرف رنگ کا ہی فرق ہے”۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply