: ہائیڈل برگ کی ڈائری سے ایک ورک/ناصر عباس سنیّر

” انسٹی ٹیوٹ میں گرما کی تعطیلات ہیں۔ شعبے کے سب لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے کسی یورپی یا ایشیائی ملک گئے ہوئے ہیں۔ میں پورا دن اپنے اپارٹمنٹ میں لکھنے کا کام کرتا ہوں ۔ دوپہر کو مینزا کھانے کے لیے جاتا ہوں اور روزانہ شام کی سیر کو۔ دو تین مرتبہ سکائپ پر اہل خانہ سے بات ہو جاتی ہے یا پھر کسی دوست سے فون پر تبادلہ خیال ۔ میری صحت ایسی نہیں کہ دوسرے شہروں اور ملکوں کے سفر اکیلے کر سکوں۔
میں نے یہاں شام کی سیر کرتے ہوئے ، راتوں کو جاگتے ہوئے ، سفر کرتے ہوئے ٹھنڈے دل سے اور ایک فاصلے سے اس سب کچھ پر غور کیا ہے، جو مجھ سے متعلق ہے۔ یہ سب سوچنے کے لیے تنہائی تو درکار ہے ہی ، تنہائی کی ہیبت کا سامنا کرنے کی جرات بھی چاہیے ۔ اس وقت تنہائی ہیبت ناک ہو جاتی ہے ، جب آپ اپنے ہی متعلق انتہائی بنیادی سوال اٹھانا شروع کرتے ہیں۔ کچھ سوال تو صدیوں سے ایک جیسے چلے آرہے ہیں :
میں ہوں ہی آخر کیوں ، یہاں کس لیے کس مقصد کے تحت ، مقصد کے تعین میں اختیار کتنا ہے ؟ وغیرہ ۔
ان سوالوں سے ہم اپنی زندگی کو بامعنی بنانے کا آغاز کرتے ہیں ، جو دراصل معنی جیسی چکنی مچھلی جیسی چیز کو اپنے ہاتھ میں لینے ، اور اسے اپنی مِلک بنانے کی کوشش ہوتی ہے ، مگر بعض سوال اس قدر نجی ہوتے ہیں ، جن کا ذکر آپ دوسروں سے نہیں کر سکتے ، یہاں تک کہ انھیں لکھا بھی نہیں جاسکتا۔
یوں بھی لکھنا شروع کرنے کا مطلب ہی ، اپنی نجی زندگی کو عوامی وسماجی بنانا ہے۔
بہ ہر کیف میں نے یہاں رہتے ہوئے ، اہم اور غیر اہم میں فرق کرنا سیکھا ہے۔ کچھ باتوں کی اہمیت مجھ پر واضح ہوئی ہے ۔ مثلاً :
زندگی میں کچھ چیزیں تو بالکل لغو ہیں۔ جیسے کسی کام میں جلدی اور اس کے متعلق حد سے بڑھی ہوئی تشویش ؛ جو بات اختیار میں نہیں ، اس کے لیے فکر مندی ، اور اپنے اختیار کے بارے میں فلسفیوں اور شاعروں کی باتوں پر بھروسا کرنا۔
ہمارے اپنوں کی تعداد صرف دو یا تین کبھی کبھی ایک آدھ ہوتی ہے ۔ صرف انھی کے لیے گہری تشویش ہونی چاہیے ، اور انھی سے توقع رکھی جانی چاہیے ، اور ان سے محبت کی جانی چاہیے ، اور انھی سے کبھی کبھی شکوہ کیا جانا چاہیے ۔
دوسروں کے کام آنا ایک بات ہے ، اور دوسروں سے محبت کرنا بالکل دوسری بات ہے ۔ دونوں کام ضروری ہیں ، مگر الگ الگ ۔ دکھ کا بڑا باعث یہ ہے کہ جن کے کام آنا چاہیے ، ہم ان سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں ، اور جو ہماری محبت کے مستحق ہوتے ہیں ، ہم ان کے کام آنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔
جو اپنے نہیں ہیں ، ان کے بارے میں سوچنا ، ایسے ہی ہے جیسے آپ گلی کے لوگوں کو دعوت دیں کہ وہ آپ کے گھر آ کر اپنی باتیں ، یعنی آپ کے خلاف باتیں کریں۔
یہ ہم ہیں جو دوسروں کو یہ موقع اور حق دیتے ہیں کہ وہ ہماری زندگی گزاریں ، یعنی اسے برباد کریں ۔ خوشی اور اطمینان سے جتنا کام جتنی دیر تک کیا جاسکے ، کافی ہے۔ یہ سوچنا خود پر ایک بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے کہ دوسرے ہمارے کام کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ؟ جس لمحے ہم کام کر رہے ہوتے ہیں ، اسی لمحے ایک نور کا نکتہ روشن ہوتا ہے ، جو یہ بتاتا ہے کہ اس کام کی کیا معنویت اور اہمیت ہے ۔ نور کے اس نکتے کو نظر سے اوجھل کرنا چاہیے ، نہ اس کی خبر دوسروں کو دینی چاہیے۔
اپنی نجی دنیا کی حفاظت ، یعنی اپنی ہستی کی اہم ترین باتوں جن کی خبر صرف ہیبت ناک تنہائی میں ملتی ہے ، اور اپنے حقیقی مقصد کو ایک عظیم راز سمجھ کر اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز اپنے مستقبل اور دوسروں کے بارے میں مسلسل گمان ہیں ۔
کوئی چیز کوئی عظیم الشان کامیابی ، کوئی بڑا صدمہ تک زندگی سے بڑا نہیں۔ زندگی وہی ہے جو میں اس وقت ، اس لمحے جی رہا ہوں ۔ باقی سب وہم والتباس ہے۔
زندگی کی سب سے بڑی قدر کے بارے میں سوچتے رہنا چاہیے ، مگر چھوٹی چھوٹی باتوں کی قدر مسلسل کرتے رہنا چاہیے ۔ اس اطمینان قلب کے حصول کا خواب رکھنے میں حرج نہیں جو زندگی کے بارے ہے تو میں کسی گہری آگہی کا ثمر سمجھا جاتا ہے ، مگر دل میں اگر دکھ ، رنج ، افسوس یا سمجھ میں نہ آنے والا بو جھل پن ہے تو اس کو اسی طرح قبول کر لینا چاہیے ، جس طرح ایسپر یسو جیسی کڑوی کافی ۔ سب سے بڑی گڑ بڑ یہ ہوتی ہے کہ ہم چھوٹے موٹے دکھوں کے اسباب ، دوسروں کے عمل میں ڈھونڈ نے لگتے ہیں اور انھیں اپنی مصیبتوں کا ذمہ دار خیال کرتے ہیں یا ان دکھوں کے بارے میں فلسفیانہ قیاس آرائی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اس سے ہم اپنی مصیبتوں میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کرتے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply