مسلمانوں کی موجودہ حالت تاریخ کے آئینے میں/سراجی تھلوی

سردیاں اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہیں۔بہار کا موسم آنے والا ہے۔ملکی حالات دیکھ کر طبیعت نہایت مکدر ہے۔پاکستانی سیاسی حالات نہایت ناگفتہ بہ حد تک مخدوش ہیں ۔منصفان ِ عدالت عدل و انصاف کے ترازو میں طاقت و ثروت تول رہے ہیں۔عزتِ ناموس سرعام پامال ہو رہی ہے۔اس عہد ناہنجار میں عجب سراسیمگی  ہے۔اور میرے پیش نظر دو کتابیں موجود ہیں۔علی عباس جلال پوری کی لکھی ہوئی کتاب “چند فکری مغالطے”اور ڈاکٹر حقی حق کی لکھی ہوئی کتاب” ہوئے تم دوست جس کے”۔

ان دونوں کتابوں کی ورق گردانی کے دوران موجودہ حالات کی عکاسی نظر آئی،   فرق اتنا ہے کہ بس وہ ماضی تھا یہ حال ہے۔وہ سقوط غرناطہ و اسپین تھا یہ فلسطین و پاکستان ہے۔وہاں بھی طاقت و ثروت کے بل بوتے پر مسلمانوں کی گردن کاٹی جارہی  تھی  ۔یہاں بھی فلسطینی مسلمانوں کی گردن کاٹی  جارہی  ہے۔وہاں بھی ملکہ پشت پناہی کر رہی تھی ۔یہاں بھی امریکہ و یورپی ممالک دوبارہ پشت پناہی میں مصروف ہیں ۔واقعتاً تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔

“علی عباس جلال پوری “یہ کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے “کے عنوان سے لکھتے ہیں؛
“بعض مورخین نے یونانی و رومی تاریخ کے حوالے سے اس چکر کو یوں پیش کیا ہے کہ عہدِ بربریت میں کسی قوم میں پنچائیت کا نظام موجود ہوتا ہے ۔جب قبائل معاشی دبا ؤکے تحت تنزل پذیر تمدنوں پر تاخت کرتے ہیں تو فوجی سردار بر سر اقتدار آجاتے ہیں،جو بعد میں بادشاہ بن جاتے ہیں۔شاہیت کا دور گُوناگُوں برائیوں کی پرورش کرتا ہے۔اور سامان عیش کی فراوانی قوم کے عزم و عزیمت کو سلب کر لیتی ہے۔ پھر آگے لکھتے ہیں؛اسی طرح آہستہ آہستہ شاہیت کا ختم ہوجاتا ہے۔اور جمہوریت کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔رفتہ رفتہ جمہوریت کے پردے میں چند خاندان متحد ہو کر طاقتور بن جاتے ہیں اور اپنے اقتدار کو بحال رکھنے کےلیے سازشوں کا جال بچھا دیتے ہیں۔ اور ملک کی دولت پر متصرف ہوجاتے ہیں۔عوام کی حالت بدستور زار و زبوں رہتی ہے،انہیں نجات دلانے کے بہانے کوئی نہ کوئی ڈکٹیٹر برسر اقتدار آجاتا ہے۔”

پاکستانی سیاسی حالات بھی پچھلے 70سالوں سے اسی نہج پر گامزن ہیں۔مختلف ادوار میں آمریت بر سر اقتدار رہا۔اور سالوں سے چند خاندان متحد ہو کر ملکی دولت و ثروت لوٹنے میں مصروف عمل ہیں۔2024 کے الیکشن میں بھی جمہوریت کا جنازہ بڑے دھوم ،دھام سے نکالا گیا۔عوامی مینڈیٹ کو ٹھکرا کر جمہوریت و پاکستان کو چند بڑوں نے بازیچہ اطفال بنا دیا۔میرا مقصود پاکستانی سیاسی حالات پر تفصیلی تبصرہ کرنا نہیں فقط تاریخ کے آئینے میں حال کی عکاسی منظور ہے۔

ڈاکٹر حقی حق “ہوئے تم دوست جس کے”میں رقمطراز ہیں؛
“2جنوری 1492 کا سہ پہر اندلس کے مسلمانوں پر بہت بھاری تھا۔یہ سقوط کی پہلی شام تھی ۔کلمہ گو لوگوں  پر ابتلا ء کی طویل رات کا آغاز ہوچکا تھا۔ غرناطہ کی کشادہ مسجدیں ملکہ ازابیلا اور فرڈی نینڈ کے عیسائی لشکریوں اور گھوڑوں کے پیشاب سے متعفن ہورہی تھیں۔مسجدوں کے صحن ان کے فوجی ساز وسامان اور ہتھیاروں سے لدے ہوئے خچروں سے بھرے ہوئے تھے۔اس شام غرناطہ میں اذان کے بجاے ہر طرف مسلمانوں کی آہ و بکا سنائی دیتی تھی۔یا شراب سے مدہوش ،جشن مناتے ہوئے عیسائی لشکریوں کے ہنکارے۔

آگے لکھتے ہیں؛غرناطہ میں جگہ جگہ آگ لگی تھی ۔قرآن و نادر کتابیں اور نایاب قلمی نسخوں کی صورت میں مسلمانوں کی  آٹھ سو سالہ علمی میراث کو نذر آتش کیا جارہا تھا۔عبدالرحمٰن الداخل کے قائم کردہ کتب خانے سے تین لاکھ جلدوں کے جلنے سے پورا غرناطہ سیاہ دھویں کی  لپیٹ میں تھا۔تاریخ کے سیاہ اوراق پڑھتے ہوئے آنکھیں پُرنم ،طبیعت بوجھل ہے کہ کاش یہ صرف تاریخ ہوتی کاش تاریخ اپنے آپ کو نہ دہراتی۔اُس وقت سوشل میڈیا کا زمانہ نہ تھا۔اخبار و رسائل کے اسباب نہ ہونے کے برابر تھے۔مگر اس عہد میں فلسطین آگ و خون میں جلتے ہوئے مسلمانان عالم دیکھ رہے ہیں۔مسلمان حکمران ایوانوں میں بیٹھ کر وہ منظر دیکھ رہے ہیں۔نہ غم و غصہ ہے نہ دکھ اور افسردہ بس خاموش تماشا بنے بیٹھے ہیں۔مجموعی طور مسلمانوں کی غیرت و حمیت مر چکے ہیں۔

ڈاکٹر حقی آگے لکھتے ہیں؛
“ایک طرف غرناطہ کے مسلمانوں پر یہ قیامت ٹوٹ رہی تھی ۔اور ان کی عزت و آبرو اور ناموس لٹ رہی تھی تو دوسری طرف غرناطہ کے حکمران ابو عبداللہ قصر الحمراء میں اپنے امراء و حکام کے ساتھ سقوط کے معاہدے کے مطابق غرناطہ کی چابیاں ملکہ ازابیلا کو پیش کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔

یہ ماضی کی تاریخ تھی ۔آئیے آج اسی آئینے میں حال کی عکس دیکھتے ہیں۔
وہاں فلسطین میں قیامت ٹوٹ رہی ہے۔عزت و آبرو اور ناموس لٹ رہی ہے۔مسجدیں ویران ہورہی ہیں۔ہسپتالوں کو بموں سے کھنڈر بنایا جارہا ہے۔ہزاروں مسلمانوں کے خون سے فلسطین کو نہلایا جارہا ہے۔ماؤں کی گود سے بچوں کی چیخ و پکار بلند ہو رہی ہیں ۔وہاں عیسائی لشکریوں اور گھوڑوں کے پیشاب سے مسجدیں متعفن ہورہی تھیں۔یہاں اسرائیلی یہود و ہنود کے لشکریوں کے قدم سے سرزمین فلسطین متعفن ہورہی ہیں۔وہاں کے صحن و بیمارستانوں میں فوجی ساز و سامان،ہتھیاروں سے لدے ہوئے خچروں سے بھرے ہوئے تھے۔یہاں اسرائیلی خبیث افواج کے ساز و سامان ،ہتھیاروں سے لیس ٹینکیں دندناتے پھر رہے ہیں۔کاش تاریخ اپنے آپ کو نہ دہراتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہاں ملکہ ازابیلا مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ سیادت و امامت کو چھین کر ابو عبداللہ سے قصر الحمراء و غرناطہ کی چابیاں سنبھال رہی تھی۔وہ تو عیسائی تھی ،مسلمانوں کے ازلی دشمن تھی ۔مگر یہاں ذرا نظر کیجیے۔وہاں فلسطین میں مسلمانوں کے خون کے دریا بہہ رہے ہیں۔قبلہ اول پر یہود و ہنود قابض ہونے جارہے ہیں۔خانہ خدا کو تاراج کرنے جارہے ہیں ۔اور یہاں پاکستان کے مسلم حکمران دھاندلی و طاقت و ثروت ،کے زور پر حکومت کی چابیاں سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ وہاں اسرائیلی افواج مسلمانوں کے خون ،عزت و آبرو ،ناموس سے کھیلنے میں مصروف ہیں۔یہاں پاکستان میں پی ایس ایل کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہیں۔فلسطینی عوام دُکھ ،درد ،غم و اندوہ ،لاشیں اُٹھا اٹھا کر پژمردہ ہوچکے ہیں ۔یہاں پاکستانی عوام پی ایس ایل کرکٹ دیکھنے میں مصروف ہیں۔نہیں معلوم مسلمانوں کی غیرت کو کیا ہوا ہے۔مسلمانوں کی مسلمانیت حرص و ہوس کے گرد و غبار سے اٹ چکے ہیں۔اور دوسرے مسلمان بھائیوں کی دکھ ،درد دیکھ کر بھی بے حس و لاعلم رہتے ہیں۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply