برلن کی برفباری سے/عثمان سکران خان

جرمنی کے برلن شہر میں میری تقریباً تین مہینوں کی سیاحت پایہ تکمیل تک پہنچنے والی ہے، جو کہ پچھلے سال پیرس کی نسبت ٹھنڈے موسم اور شدید برفباری میں گزری ۔ٹھنڈ کی وجہ سے ہر طرف پت جھڑ کا سماں ہے اور سورج گہرے بادلوں میں چھپا رہتا ہے، برفباری نہ بھی ہو تو بارش کا امکان ہر آن رہتا ہے، ایسے میں ہیٹر والے کمرے میں لیٹ کر موبائل سے کھیلنا ہی  واحد مشغلہ رہتا ہے، باہر کے راستوں میں برف پڑنے کی وجہ سے پھسلنے اور گرنے کا خطرہ ہوتا ہے تو کسی ایک جگہ جمنے کو بہتر گردانا جاتا ہے۔

برلن یورپ کے تاریخی اور قدیم شہروں میں شمار ہوتا ہے جہاں کی جمہوری حکومت نے یہاں کے ماضی کو محفوظ کرنے کیلئے  جگہ جگہ عجائب گھر اور گیلریز کھولی ہیں۔ یہاں کے نیچرل میوزیم سے لیکرکمیونیکیشن، میوزک، فلم، اور گرجاگھروں تک، اور پھر نازی دور اور جنگ عظیم کے مناظر تک، سب کے میوزیم بناۓ  گئے ہیں۔ روسی کمیونزم کے نشانات مثلاً دیوار برلن، ٹیپ ٹاور پارک اور وہاں موجود روسی سپاہیوں کی یادگاروں کو اپنی تاریخ کا حصہ بنایا ہے۔ لندن کے دریاۓ ٹیمز اور پیرس کے دریاۓ سین کی طرح یہاں کا پارلیمنٹ بھی دریاۓ سپرے کے کنارے بنایا گیا ہے جو کہ شہر کے وسط میں بہتا ہے۔ اسی کے قریب الیکسزنڈر چوک میں واقع ٹی وی ٹاور ٹورسٹ کے لیے جانا  تفریح ہے۔

برلن میں جرمنوں کے ساتھ ساتھ ترکوں، عربوں، روسیوں اور ویتنام والوں کی کثیر تعداد رہتی ہے جن میں سے کئی نسلیں جرمن ثقافت کا حصہ بن چکی ہیں۔ ہیرمن چوک کے آس پاس سونن ایونیو جو کہ عربوں کی گلی سے بھی موسوم ہے میں آپ کو ترک اور عرب ہی نظر آئیں گے، جن کی اکثریت حلال فوڈز مثلاً ترک چائے ، عربی قہوہ، ڈونر کباب، عربی اور ترکی مٹھائیوں کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ یہاں کا استنبول مارکیٹ ترکی کے پراڈکٹ کے لیے  مانا جاتا ہے۔ چند سو میٹر کے فاصلے پر ٹیمپلہوف پارک جو کہ کسی زمانے میں مزدوروں کا مرکز اور پھر ایئرپورٹ ہواکرتاتھا، میں سلطنت ِ عثمانیہ کے دور کی مسجد واقع ہے جس کا انتظام و انصرام ابھی بھی ترک لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

برلن میں ڈونگ سوآن سینٹر کے نام سے قائم تجارتی مرکز ویسے تو ایک مارکیٹ گنا جاتا ہے لیکن وہاں اے سے ڈی تک بنے ہال دیکھ کر کئی مارکیٹوں کا گمان ہوتا ہے جن میں پاکستانی، افغانی، ہندوستانی اور ویتنامی اپنے اپنے ممالک کی   سوغات بیچتے ہیں۔ ان  میں سے  ویتنام کی اشیائے  خوردنی خاص کر ویتنامی کافی اور  میٹھائی میرے لئے   ناقابل فراموش ہیں۔وہاں سے نکل کر فرینکفورٹ گیٹ آئیں اور پھر سیدھا برلن گیٹ کی طرف واک کرلیں تو برلن گیٹ سے دوسری طرف نکلتے ہی پارکوں میں گھری ہوئی گلی کے بالکل آخر پر مینار  پاکستان کی طرح ایک گول صحن  کی یادگار نظر آۓ گی۔ برلن کی یہ گلی  ہوبہو پیرس کے ایونیو شانزے لیزے کی نقل لگتی ہے۔ یہاں پر ہر وقت سیاحوں کا  جمگٹھا رہتاہے ،جو اطراف میں واقع قدیم گرجوں، تاریخی عمارتوں اور سابقہ حکمرانوں کی رہائشگاہوں کو دیکھنے آتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply