• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شاہد رضوی کی شاعری اپنے نام سے شائع کرنیوالے شخص کو نوٹس/ رعنا رضوی

شاہد رضوی کی شاعری اپنے نام سے شائع کرنیوالے شخص کو نوٹس/ رعنا رضوی

ایک لکھاری چاہے وہ شاعر ہو یا ادیب بہت حساس ہوتا ہے، ارد گرد کے ماحول پر اس کی گہری نظر ہوتی ہے وہ اپنے قلم کے نشتر سے معاشرے  کی برائيوں کو اُکھاڑنے کی طاقت رکھتا ہے، اگربرائيوں کو نہ بھی اُکھاڑ سکتا ہو تب بھی ان کی بھرپور نشاندہی کرسکتا ہے ، اجتجاج کر سکتا ہے۔

میری ذاتی راۓ میں لکھاری میں ایک اور خصوصیت بھی ہوتی ہے وہ اس کا اپنی ذات سے سچا ہونا ہے، اگر شاعر وادیب خود اپنی ذات سے سچے ہیں تو اپنی تخلیقات میں بھی ان کا اپنی ذات سے سچ نظر آتا ہے۔

اپنے خوبصورت خيالات کو، معاشرہ میں ہونے والی ناانصافيوں، ظلم اور زيادتيوں کے خلاف اپنے قلم سے آواز بلند کرتے ہوۓ اپنے احساسات کو کاغذ پر اتارتے ہوۓ لکھاری تخلیق کے جس کرب سے گزرتا ہے اسے وہ تخلیق کار ہی جانتا ہے ،تخلیق کا کرب لکھاری کو چين نہیں لینے دیتا، جب تک وہ اپنے خيالات کو کاغذ کے کينوس پر نہیں اتار لیتا۔

تخلیق کے اس کرب کو اپنے بچپن میں دیکھا بھی ہے اور محسوس بھی کیا ہے۔ میرے والد شاہد رضوی ایک شاعر تھے سارا دن ملازمت میں اور سياسی سرگرميوں  میں  مصروف رہتے ،مگر رات دیر تک لکھنا ان کا معمول تھا۔ ان کا انتقال 1997 میں دل کا  دورہ پڑنے سے ہوا، 14 سال کی عمر سے وہ بائیں بازو کی تحریک میں شامل ہوۓ اورساری زندگی اس تحریک سے وابستگی میں گزار دی، ٹریڈ يونین کے کارکن کی حیثیت سے مزدوروں کے ساتھ جدوجہد کرتے رہے۔

ان کی شاعری کے دو مجموعے ‘شہرِ وفا اور دشت ِحيراں’ اشاعت کے مراحل میں تھے جب وہ ہم سے جدا ہوۓ ،ایک سال بعد کچھ ہوش آيا تو دونوں مجموعوں کو شائع کروایا۔

پھر بھی میرے پاس میرے والد کا بہت سا غیرمطبوعہ کلام تھا ،کچھ  مسائل   اور کچھ میری نالائقی کی وجہ سے اس کلام کی اشاعت نہیں ہوسکی۔ 2019 میں ایک اُمید کی کرن نظر آئی  ،مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کلام والد کے ایک دوست کو دیے،  جن سے 2019 میں ہی رابطہ ہوا تھا، انہوں نے بتایا کہ وہ میرے والد کے بہت پرانے دوست ہیں انہوں نے میرے والد کی کتابوں کی اشاعت  میں  مدد کا وعدہ کیا ۔انہوں نے وہ مسودہ ایک پبلشر کو دے دیا ،بہت وقت گزرنے کے بعد اور دو مرتبہ پیسے وصول کرنے کے بعد ان پبلشر نے بتایا کہ انہوں نے میرے والد کی شاعری میں کچھ ردّوبدل کردیا کہ بقول ان کے وہ الفاظ اب استعمال نہیں ہوتے ہیں، ان کی بات سمجھ  میں نہیں آئی، اور ان سے کہا گیا کہ میرے والد کا انتقال 1997 میں ہوا ہے، 18ویں صدی میں نہیں ۔ وہ 18ویں صدی کے آدمی نہیں تھے بہرحال وہ کتاب شائع نہیں ہوسکی۔

تققریباً دو ہفتے پہلے فیس بک پر والد صاحب کی ایک نظم  “13 نومبر ” جو انہوں نے 1984 میں ‘حسن ناصر’ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوۓ لکھی تھی اور جو میرے والد کے مجموعہ کلام ‘شہر وفا’ میں چھپی ہوئی  ہے، اس نظم کے اشعار کو ایک بزرگ شاعر کی نظم میں لفظ بہ لفظ لکھا ہوا دیکھا ،اور ان بزرگ کی نظم کا عنوان ہے ‘فلسطین کے شہید بچوں کو سرخ سلام’۔

مزید تحقیقات کیں ، تو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم پر چینل بنایا ہوا ہے اور اس چینل پر وہ بزرگ میرے والد کی شاعری اپنے نام سے پڑھ کر داد وصول کررہے ہیں۔ کچھ غزلیں لفظ بہ لفظ پڑھی گئی  ہیں اور کچھ میں سے اشعار کاربن کاپی کی طرح سے کاپی کیے  گئے ہیں، من وعن۔۔

اگر آپ اپنی ذات سے سچے ہیں تو کیا آپ کسی اور کی شاعری کو اپنے نام سے پڑھ کر اس پر داد وصول کرکے خوش ہوسکتے ہیں؟

ان بزرگ کو، جن کا تعلق انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی سے ہے ،والد صاحب کی من و عن غزل سوشل میڈیا کے چینل پر پڑھتے ہوئے دیکھ کر آنکھوں کو یقین ہی نہیں ہوا ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ان کا چینل بھی 2019 – 2020 میں بنایا گیا تھا۔
اور اس پر طرّہ یہ کہ وہ شاعر کی حیثیت سے ہمارے والد کے نام کے بجاۓ اپنا نام لکھ رہے ہیں تو ان کی بزرگی کو دھیان میں رکھتے ہوۓ اس معاملہ کو افہام و تفہیم کی غرض سے حل کرنے کی کوشش کی گئی  اور جب ان سے بات کی گئی ،تو  جواب آيا کہ ” تم فلاں فلاں غزلوں کی بات کررہی ہو اچھا مجھے لنک بھیجو میں چیک کرتا ہوں” کچھ لنک بھیج کر ان کو بتایا گیا کہ یہ کچھ لنک ہیں آپکا پورا چینل میرے والد کی شاعری سے بھرا پڑا ہے مگر ان کا کوئی  جواب نہیں آيا۔

پھر کچھ دوستوں کوناقابل تردید ثبوت بھیجے گئے، جن ثبوتوں کو وہ دیکھ کر وہ خود بھی حیران ہو گئے، ان دوستوں نے بہت توجہ سے سارے مسئلے  کوسنا اور تسلی دی کہ وہ اس معاملہ پر ان بزرگ سے بات کریں گے۔ مجھے اپنے کسی دوست پر ذرّہ برابر بھی شبہ نہیں بلکہ يقين تھا اور ہے کہ وہ اس معاملہ میں کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے ،ان سارے دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ جن کی سپورٹ سے بہت ہمت ملی، کچھ دوستوں نے ثبوت دیکھنے کے بعد بغیر کسی مصلحت کے فورا ً  کہہ دیا کہ یہ غلط ہے اور ہم غلط کو صحیح  نہیں کہہ سکتے یہ بددیانتی ہے۔

فیس بک پرجب تفصیلاً  پوسٹ  لکھی  گئی  تو کچھ  نئے  دوست  ملے جنہوں نے بہت سپورٹ کیا ان سب دوستوں کا بہت شکریہ!

پھر خیال آیا کہ جب تک دوست ان بزرگ سے اس معاملہ پر بات کریں گے وہ بزرگ اور ان کا بیٹا ہمارے والد کی مزید شاعری پڑھ کر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیں گے کیونکہ دوستوں ہی کی بات نہیں ہے ہر شخص کی اپنی مصروفیات ہیں، ہمیں کسی سے کوئی  شکایت نہیں ہے۔

یہ خیال بھی فیس بک پر میرے والد کی ایک اور غزل دیکھ کر آیا جس کا ایک دفعہ پھر پوسٹ مارٹم کرکے پوسٹ کردیا گیا۔ مايوسی اور صدمہ کی ایک کيفیت تھی، آپ اپنے برابر والے سے لڑ سکتے ہیں چھوٹوں کو ڈانٹ سکتے ہيں سمجھا سکتے ہیں مگرايک 80 سال سے زیادہ عمر کے ان بزرگ کو کیسے سمجھائيں، کہ آپ ادبی بدیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور مزے کی بات کہ ان کو معلوم ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔

اسی اثناء میں ہمارے ایک قریبی دوست نے ہمیں ایک راہ دکھائی،انھوں نے کہا کہ “یہ لڑائی  آپ کی ہے دوسروں کی طرف مت دیکھیں، یہ جنگ آپ کو لڑنا ہوگی، جہاں آگ لگی ہوتی ہے تپش بھی وہیں ہوتی ہے، جو جذباتی وابستگی آپکی آپکے والد کی، ان کی چیزوں اور ان کی شاعری کے ساتھ ہے کسی اور کی نہیں ہوسکتی۔ ”

کبھی کبھی کسی کی کہی جانے والی ایک چھوٹی سی بات بھی اندھیرے میں ایک دی  کی حیثیت رکھتی ہے۔

سو اب یہ ہماری لڑائی  ہے اس بدیانتی، ناانصافی اور ظلم کے خلاف جو ان بزرگ نے اور ان کے بیٹے نے میرے والد کے ساتھ ‘جو اس دنیا میں موجود نہیں ہیں اور ان کی تخلیق کے ساتھ کیا اور کررہے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ شاہد رضوی اس دنیا میں نہیں ہیں انکا کلام بھی پاکستان میں کسی کے پاس موجود نہیں ہے، ان کے  بچے بھی پاکستان میں نہیں ہیں، لہذا کوئی  پوچھنے والا نہیں ہے اور وہ آسانی سے ان کے کلام کو اپنے نام سے استعمال کرسکتے ہیں۔

ہر ہر طرح سے اتمام حجت کرنے کے ان بزرگ اور ان کے بیٹے کو قانونی نوٹس جاری کردیا گیا ہے ان بزرگ کی عمر کو اور بقول انکے کہ وہ میرے والد کے دوست رہے ہیں، کو مد نظر رکھتے ہوۓ نہ تو سائبر کرائم میں کوئی  رپورٹ کرائی  گئی  ہے اور نہ ہی کوئی  ايف آئی  آر کاٹی گئی  ہے۔ یہ قانونی نوٹس جو سوشل میڈیا پر ڈالا جارہا ہے اس میں بھی ان بزرگ کے نام کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے، اس قانونی نوٹس کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کا مقصد میرے والد کی شاعری کے غلط استعمال کو روکنا ہے اور ایک بات اب بہت واضح ہے کہ

“ہم اپنے والد شاہد رضوی کی نثر اور شاعری کا غلط استعمال نہیں ہونے دینگے۔”

‘دشت حیراں، شہر وفا، پريستورايئکا اور انکا غیر مطبوعہ کلام جو’ طباعت کے مراحل میں ہے، کے کاپی رائٹس ہمارے پاس ہیں اور اگر کسی کتاب کا کوئی حصّہ پبلشر کی اجازت کے بغیر چھاپا گیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

بچپن میں ایک نظم کہی تھی جو روزنامہ امن میں چھپی تھی اور وہ مجھے بہت عزيز تھی ہر لکھاری کو اپنی تخلیق بہت عزيز ہوتی ہے ایک ماں کی طرح ، کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ ایک ماں اپنے بچے  کا چہرہ اسکے ناک کان کسی دوسرے خوبصورت بچے  سے بدل دے ۔دنیا کے لاکھوں خوبصورت بچوں میں بھی اسے اپنا بچہ سب سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے، پھر ایسا کیا ہوا  کہ  میرے والد نے جو غزل 80 کی دہائی  میں کہی تھی اس غزل کا مطلع اور اس کے کچھ اشعار من وعن ان بزرگ نے اپنی غزل میں پڑھ کر کرونا کے شہدا کو خراج  عقیدت پیش کردیا ۔

یہ اتفاق ہی تھا کہ یہ سب کچھ جو پچھلے تین سال سے چل رہا تھا اچانک ہمارے سامنے آگیا، سوشل میڈیا کے سب پلیٹ فارمز پرکاپی رائٹ ایکٹ کے تحت رابطہ کرکے ان کو ساری تفصیلات فراہم کردی گئیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوال یہ  ہے کہ چینل ان بزرگ کے بیٹے نے بنایا ،شاید مالی فائدہ کے  لیے، لیکن اس پرجو ويڈيو میں ان بزرگ نے ماشا اللہ  اپنے پورے ہوش حواس میں میرے والد کی شاعری پڑھی ہے،اُس کے بارے میں جواب کون دے گا؟
ایک حیرانی وپریشانی کا عالم ہے ان گنت سوالات لیے  !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply