کارگل جنگ(کچھ حقائق جنرل شاہد کی زبانی)۔۔۔انفال ظفر

کارگل وار

3مئی اور  26جولائی 1999 کے درمیان پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ جنگ ہوئی۔بھارت اس جنگ کو جیت جاتا ہے۔اور پاکستان اپنی ہار تسلیم کر لیتا ہے۔اس وقت کے جنرل مشرف نے ہار کا الزام وزیراعظم نواز شریف اور نواز شریف اس میں ناکامی کا ذمہ دار مشرف کو قرار دیتے ہیں۔
اس جنگ کے منصوبہ سے 1996 میں آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو آگاہ کیا گیا۔مگر انہوں نے مسترد کر دیا۔
کارگل کا محاذ پاکستان کھولتا ہے۔مگر شکست سے دو چار ہوتا ہے۔جو علاقے جنگ کے شروع میں قبضہ کیے ہوتے ہیں وہ واپس کرنے پڑتے ہیں۔جب جنگ شروع ہوئی تو آرمی نے بیان دیا کہ مجاہدین نے کشمیر اور کارگل پر گھس بیٹھ کی ہے اور وہ انڈین آرمی سے لڑ رہے ہیں۔پاکستان نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ پاکستانی فوج یہ جنگ لڑ رہی ہے۔اور حتی کہ  جنگ کے بعد بھی۔مگر جب حوالدار لالک جان اور کیپٹن کرنل شیر خان کو نشان حیدر سے نوازا گیا تو اس نے سارے شکوک وشبہات ختم کردیے۔
جنگ کی منصوبہ بندی چار جرنیلوں جن میں جنرل مشرف،محمود،عزیز،جاوید حسن شامل تھے۔اس جنگ میں سب سے حیرانگی والی چیز یہ تھی کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف اور فوج کے کچھ اعلی افسران اس جنگ کی منصوبہ بندی سے آگاہ نہ تھے۔
تو آخر کیا وجہ تھی کہ پاکستان کو ناکام ہونا پڑا اور جنگ بندی کا کہنا پڑا۔

جنرل مشرف کا بیان:
پاکستانی فوج نے اہم چوٹیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔انڈیا کو پکڑ لیا گیا تھا۔سارے راستے کٹ گئے تھے جن سے بھارتی فوج کو مدد مل رہی تھی۔سیاچن تک راستہ منقطع ہو گیا تھا۔

جنرل شاہد عزیز:
تب ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔پسپا ہونے کے بعد جون میں فوج کو واپس بلانا شروع کردیا گیا تھا۔کارگل جنگ کیلیے NLI جو کہ ریگولر آرمی کہلاتا ہے ان کو بھیجا گیا تھا۔جنرل شاہد کے مطابق وہ جنگ کے دوران اس ٹیم میں شامل تھے جو جنگ کا روز تجزیہ کرتی اور نئی اسٹریٹجی(strategy) بتاتی۔جنرل شاہد کو تجزیہ کا کہا گیا ۔انہوں نے کہا کہ ایک راستہ ہے جسے سے پوسٹوں کو گرنے سے بچایا جائے۔جنرل شاہد نے مشورہ دیا کہ کشمیر میں کسی اور جگہ پر محاذ کھول لیا جائے۔تاکہ انڈیا کو وہاں بھی فوج بھیجنی پڑے۔اس سے  بھارتی فوج تقسیم ہوسکتی تھی اور دباؤ کم ہو سکتا تھا۔
جنرل شاہد کے مطابق جو پوزیشنیں گر چکیں تھیں۔جوان وہاں بھی بہادری سے لڑے۔حتی کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد بھی کئی جوان وہاں لڑتے لڑتے شہید ہوگئے تھے۔

شکست کی وجہ:

*    منصوبہ بندی غلط تھی۔
*       تیاری نامکمل تھی۔
*       ۔جائزہ غلط تھا کہ دشمن کا جواب کیا ہوگا۔
*        باہر  سے کیا دباؤ آئے گا۔
*جنگ کے بعد ایگزٹ (Exit) اسٹریٹجی نہیں  تھی

جنرل شاہد کے مطابق صورتحال ایسی بن گئی تھی اور تیاری نامکمل تھی۔ہمارا نقصان زیادہ ہو رہا تھا۔نواز شریف کو باہر بھجنے کا فیصلہ کس کا تھا اس بات کا کسی کو پتا نہیں ہے۔لیکن یہ کہنا کہ ہماری پوزیشنیں مضبوط تھیں یہ غلط ہے۔ہماری پوزیشنیں گر چکی تھیں۔

جنرل مشرف :

Withdrawal کا فیصلہ نواز شریف نے کیا تھا جبکہ اس بات کے گواہ راجہ ظفر الحق اور شجاعت  الہی ہیں۔

نواز شریف:اس سارے قصے کا ذمہ دار مشرف کو کہتے ہیں۔

پاکستان کے 350 – 450کے قریب فوجی شہید ہوئے جبکہ انڈیا کہ 527 فوجی مرے۔اس جنگ میں پاکستانی ائیر فورس نے حصہ نہیں لیا تھا۔جبکہ انڈیا کے دو جہاز تباہ ہوئے۔

نواز کے تختہ الٹنے کی وجہ
ایک تو کارگل کی وجہ سے نواز مشرف تعلقات تباہ ہوچکے تھے۔مشرف کارگل کی ہار کا الزام نواز پر لگا رہا تھا۔نواز کے ساتھیوں نے کہا کہ اس جنگ کا کمیشن بنایا جائے۔اور انکوائری کروائی جائے۔مشرف سری لنکا کے سرکاری دورے پر تھا۔ادھر نواز شریف جنرل ضیاء الدین بٹ(جو اس وقت  DG   ISI تھے) کو آرمی چیف بنا نے کا سوچ رہے تھے۔مشرف نے واپس آکر مارشل لاء نافذ کردیا اور یوں نواز کا تختہ الٹ گیا۔
جنرل شاہد جو اس وقت 10کور(راولپنڈی کور) کے کمانڈر تھے۔اگر ان کو آرمی چیف بنانے کا نواز شریف سوچتا تو شائید نواز  اپنے پانچ سال پورے کرلیتا۔

یہاں ایک بات قابل زکر ہے کہ مشرف آج بھی کارگل کمیشن بنانے سے اتراتا ہے۔اور نواز اپنی صفائی پیش کرنے کیلیے کمیشن بنانے کی ضد کرتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ :یہ تمام باتیں جنرل شاہد عزیز کے انٹرویو جو یوٹیوب پر  موجود ہے۔اور شجاع نواز کی کتاب “بے نیام تلواروں”سے لی گئی ہیں۔

Facebook Comments

Anfalzafar
میں یو ای ٹی میں انجنیئر نگ کاطالب علم ہوں۔میرے مطابق لکھاری یا ادیب کا لکھنے کا مقصد واہ واہ حاصل کرنا یا شہرت حاصل کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ وہ لکھے تو مقصد ہو کہ پڑھنے والے کی اصلاح ہو ،پڑھنے والے کو تحریر سے علم ملے وہ محظوظ ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply