• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہندوستان کے انتخابات اور کنہیا کمار کی الیکشن مہم۔۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

ہندوستان کے انتخابات اور کنہیا کمار کی الیکشن مہم۔۔۔۔۔عبدالحنان ارشد

انڈیا میں الیکشن ہو رہے ہیں۔ یہ الیکشن مختلف مراحل میں طے ہوں گے اور ان مراحل کے اختتام پر نتائج کا اعلان ۲۳ مئی کو کیا جائے گا۔ انتخابات سے لے کر نتائج تک کے اس سارے عمل کے لیئے تقریباً ایک مہینہ کے قریب وقت درکار ہے۔ جس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ دنیا کی سب سے بڑی کہلائی جانے والی جمہوریت اگلے پانچ سالوں کے لیے کس جماعت کا انتخاب کرے گی۔ اگر ہندوستان کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالی جائے، تو ملک کی دو بڑی جماعتوں کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت سات قومی اور 24 ریاستی جماعتیں الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔
اسی طرح ہمیشہ کی طرح ملک میں دو بڑے اتحاد الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
کانگریس نے بائیں بازو کی کچھ جماعتوں کو ساتھ ملا کر یونائیٹد پراگریسو الائنس کے نام سے اتحاد بنا رکھا ہے- جبکہ گزشتہ انتخابات کی طرج بھارتیہ جنتا پارٹی(BJP)نے دائیں بازو کی کچھ جماعتوں کو ملا کر نیشنل ڈیموکریت الائنس(NDA)کے نام سے اتحاد بنا کر الیکشن میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے-

اگر دیکھا جائے ہوا کے دوش پر آنے والی خبریں اس بار بھی بھارتیہ جنتا پارٹی اور نیشنل ڈیموکریٹ الائنس کی جیت کی نوید سنا رہی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور خصوصاً مودی کا انڈیا کی نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کرنا ، ہندتوا کارڈ کا استعمال، ٹیکنالوجی میں انڈیا کو آگے لے کر جانا اور رہی سہی کسر پاکستان کے ساتھ حالات کی ناسازگی نے پوری کر دی ہے اور مودی کی جیت کے لیے حالات انتہائی سازگار کر دئیے ہیں- لیکن پھر بھی ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ بھارت میں جہاں ہر جانب ہر ایک سیاسی پارٹی اپنی جیت کے لیے بھرپور زور لگا رہی ہیں اور ووٹرز کو باہر نکالنے میں لگی ہوئی ہیں- تو دوسری جانب تمام جماعتوں کی جیت کے لیے انڈیا کے تمام بڑے بڑے سرمایہ کار بھی اپنے مفادات کے لیے میدان میں آ گئے ہیں، اور انہوں نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے ہیں۔ ایسے میں جب تقریباً سبھی امیدواروں کو الیکشن سپانسر کرنے والے پسِ پردہ بہت سے سرمایہ کار موجود ہیں۔ “بہار” سے ایک ایسا نوجوان الیکشن میں اتر رہا ہے جو الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن میں خرچ کی ستر لاکھ روپے کی نافذ شدہ حد کی تمام رقم صرف تین دن میں لوگوں کے چندے سے اکھٹی کر کے الیکشن لڑ رہا ہے۔ اور وہ نوجوان ایک سال قبل ہی سے اپنی الیکشن مہم پر نکل چکا تھا۔ کنہیا کمار جو کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبا یونین کا صدر رہ چکا ہے اور وہی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکا ہے۔

کنہیا کمار نے شہرت کی بلندیوں کو اس وقت چھوا جب کشمیری حریت پسند رہنما افضل گُرو کی پھانسی کے مخالف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی تھی جس میں ہندوستان مخالف نعرے بھی لگے تھے۔ جس کے بعدABPکی جانب سے ان نعروں اور ریلی کا الزام کنہیا کمار پر لگایا گیا۔ کنہیا کو اس کے بعد عمر خالد اور انربان بھٹہ چاریا سمت جیل بھیج دیا گیا۔ جواہر لعل میں ایک نہ تھمنے والا احتجاج کی سلسلہ شروع ہو گیا۔ جس نے پورے بھارت کی میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بہت سے سیاستدانوں نے بھی ان دنوں کنہیا کمار کی سپورٹ میں جواہر لعل یونیورسٹی کے دورے کئے  جن میں راہل گاندھی اور دہلی کے وزیراعلی اروند کجروال بھی شامل تھے۔ جب کچھ دنوں کے بعد کنہیا کو ساتھیوں سمیت رہا کیا گیا تو کنہیا کمار کی جواہر لعل یونیورسٹی میں تقریر کو تمام میڈیا چینلوں نے براہِراست دیکھایا۔ تقریر کے بعد ششی تھرور کو کہنا پڑا کہ ہمیں وزیراعظم نریندرا مودی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے ہمیں اپنی ایسی ناسمجھ پالیسیوں سے ملک کو ایک اور رہنما دے دیا ہے۔

کنہیا کمار جو کہ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے بیگو سرائے سے امیدوار ہیں۔ کنہیا کمار کو حکومت مخالف بنائے گئے اتحاد جس کا زیادہ تر حصہ بائیں بازو کی جماعتیں پر مشتمل ہے۔ اس اتحاد کی کنہیا کمار کو کوئی سپورٹ حاصل نہیں ہے۔ کیونکہ اس اتحاد کا ماننا ہے اس علاقے میں سے کنہیا کمار کا الیکشن میں اترنا ٹھیک فیصلہ نہیں ہے، اور یہ سیٹوں کی تقسیم میں بھی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اور دوسرے وجہ یہ ہے یہ علاقہ ایک لاکھ ستر ہزار مسلمان ووٹوں پر مشتمل ہے یہاں سے انتہائی بائیں بازو کی جماعت کے امیدوار کو میدان میں اتارنا کسی صورت درست فیصلہ نہیں ہے۔ اسی لیئے راشتہ جنتا دَل ‘آر جے ڈی’ نے یہاں سے گزشتہ انتخابات کی طرح مسلمان امیدوار تنویر عالم کو اپنا امیدوار بنایا ہے-جو کہ گزشتہ انتخابات میں چار لاکھ ووٹ لے چکے ہیں- کنہیا کمار کے مقابلے میں بھارتیہ جتنا پارٹی کے یونین منسٹر گریراج سنگھ ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ بات طے ہے یہاں سے کنہیا کمار کا جیتنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ حکومت مخالف جماعتوں کا ووٹ راشتہ جنتا دَل اور بائیں بازو کے امیدوار کنہیا کمار میں تقسیم ہو جائے گا۔ جس سے گریراج سنگھ کے جیتنے کے امکان روشن ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن پھر بھی کنہیا کمار اپنی جیت کے لیے پرُامید ہیں اور بھرپور طریقے سے اپنی الیکشن کی کمپین چلا رہے ہیں۔ کنہیا کمار کی الیکشن مہم کے لیے اداکار پرکاش راج اداکارہ سویرہ بہاسکر اور شبانہ اعظمی بھی بیگوسرائے کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان سب کا ماننا ہے کیونکہ نریندرامودی کی پانچ سالہ حکومت نے ملک کو فائدہ پہنچانے کی بجائے الٹا اِس کا نقصان ہی کیا ہے۔ ایسے میں اس پڑھے لکھے نوجوان کو اسمبلی میں جانا لازمی ہے۔
جیسے میں پاکستان میں جبران ناصر کی جیت کے لیے دعا کر رہا تھا ویسے ہی میں اُس شخص کی کامیابی اور اسمبلی میں جانے کے لیے دعا گوں ہوں۔ باقی جیت کا فیصلہ تو 23 مئی کو ہو گا تب دیکھنا ہے کون جیتتا ہے۔اب 23 مئی کو دیکھنا ہے کہ ڈاکٹر کنہیا کمار جیسا پڑھا لکھا پانچ کتابوں کا منصف، تین ریسرچ پیپر شائع کرنے والا اور اپنی ایک الگ اور منفرد پڑھی لکھی انقلابی وسوچ رکھنے والا شخص جیتتا ہے یا پھر اپنے متنازع  بیانات کی وجہ سے شہرت رکھنے والا گریراج سنگھ کو لگاتار دوسری بار لوگ چنتے ہیں۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply