قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں ۔۔رانا اورنگزیب

قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں

زمیں لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں!

صحافت کا لفظ سنتے ہی سب سے پہلے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ کسی خبر کا ہوتا ہے۔جدید دور میں جب بھی کہیں صحافت کا نام لیا جاۓ تو سننے والا فوراً تصور میں اخبار رسائل ٹی وی دیکھتا ہے۔ صحافت صحف سے نکلا ہے صحف صحیفے کی جمع ہے۔اور صحیفہ لفظ سنتے ہی کسی آسمانی کتاب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔مگر عربی میں صحف کسی بھی قسم کی لکھی ہوئی باتوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ صحافت (Journalism) کسی بھی معاملے بارے تحقیق اور پھر اسے آواز، تصویر یا تحریر کی شکل میں بڑے پیمانے پر سامعین، ناظرین یا قارئین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔

صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے والے کو صحافی کہا جاتا ہے۔ جس طرح سمندر میں بہری جہازوں کی رہنمائی کیلئے روشنی کے مینار بناۓ جاتے ہیں۔تاکہ جہاز اردگرد کی پہاڑی چٹانوں سے بخیروعافیت گزر جائیں۔بعینہ ایک صحافی اس لائٹ ہاؤس میں لگے بلب کی طرح معاشرے کو روشنی دیتاہے جو کہ معاشرے کو وقت کی تاریکی اور اندھیرے سے بچا کے علم وعرفان کی روشنی کی طرف بلاتا ہے۔ رات کی تاریکی میں راستے کے نشیب وفراز سے آگاهی حاصل کرنے،دوست اور دشمن کی پہچان اور اندھیرے کی چادر میں چھپے ہوئے خطرات سے خبردار رہنے کے لئے جس طرح چراغ کی روشنی انسان کی بنیادی ضروت ہے،اسی طرح لمحہ موجود میں ہونے والی تبدیلیوں، موجودہ اور مستقبل کے خطرات ،عالمی حالات و واقعات سے باخبر رہنا بھی انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کے حصول میں صحافت انسان کی بے مثل خدمت کرتی نظر آتی ہے۔

صحافت کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو تازه ترین خبروں سے آگاه کیا جائے،عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو.صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور عکاس بھی ہوتی ہے اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سر انجام دیتی ہے.عوام کی خدمت اس کا مقدس فریضہ ہے.اس لئے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ،ایک بھاری ذمہ داری ،ایک اخلاقی فریضہ اور ایک قومی امانت ہے۔ہر نئی بات ،نیا واقعہ یا نیا علم جس کا معاشرے پر اچھا یا برا اثر یا معاشرے کی تربیت میں کوئی بھی حصہ ہو ،اس تک رسائی تقریباً ہر انسان کا حق ہے۔کہیں بھی ہونے والے ظلم بے راہ روی ،جرائم ،برائیوں کو اجاگر کرنا ان کو حکام بالا تک پہنچانا یہ بھی صحافت کی ذمہ داری ہے۔

صحافی معاشرے کے مظلوم، مقہور اور پسے ہوۓ طبقے کی آواز ہوتا ہے۔جبکہ ظالم طاقتور اور صاحب اختیار لوگوں کے سامنے ایک بھاری پتھر۔کتنے ہی ظلم وجبر کی آندھیوں میں صحافی اپنے سچ کا چراغ اٹھائے کسی مضبوط چٹان کی طرح سر اٹھاۓ کھڑا رہتا ہے۔صحافی کا کام ہے خبر دینا ،غیر جانبدار رہتے ہوۓ سچ کو عوام تک پہنچانا۔اپنے ملک وطن اور معاشرے کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوۓ ذاتی مفاد اور ترجیحات سے بالاتر ہوکر سچ کی عکاسی ہی ایک صحافی کا سرمایہ افتخار ہوتا ہے۔ موجودہ دور کو میڈیا کا دور کہا جاتا ہے۔میڈیا یعنی صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے۔ قومی راۓ عامہ کو بنانے بگاڑنے کا کام صحافت سے لیا جاتا ہے۔ مگر وطن عزیز میں جس طرح دیگر اداروں کی حالت ناگفتہ بہ نظر آتی ہے بعینہ صحافت میں بھی اخلاقی پستی اپنی تاریخ کی اتھاہ ترین گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔

اب صحافت کے بطن سے علم وعرفان کے سوتے نہیں پھوٹتے بلکہ جہل اور لاعلمی، بغض اور ذاتی ترجیحات کی سڑاند نکلتی ہے۔صحافت اک بہتا ہوا پاکیزہ چشمہ نہیں بلکہ ابلتا ہوا گٹر بن کے سامنے آرہی ہے۔عوام کو ایک واضح بیانیہ یا ایک اجتماعی سوچ دینے کی بجاۓ صحافت انسانی ذہن کو الجھانے کا کام کر رہی ہے۔صحافی روشنی کا مینار بن کے قوم کی کشتی کو ساحل کی طرف رہنمائی کرنے کی بجاۓ قوم کی کشتی کو لہروں کی طغیانی کے حوالے کررہا ہے۔آج کے اس برق رفتار عہد میں صحافت کی اہمیت وافادیت سے کسی بھی صورت میں انکار نہیں کیا جاسکتا.صحافت ترسیل وابلاغ کا مؤثر اور طاقتور ذریعہ ہے اور واقعات حاضره کی معلومات بہم پہنچانے کا اتنا بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پشوا،سیاسی رہنما اور مشاہیر نے نہ صرف اس کی بھر پور طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لئے صحافت سے منسلک بھی رہے.تاریخ شاهد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دیے.

عالمی منظرنامے پر کئی ایسے مقامات آئے جب صحافت کی بے پناه طاقت،اس کی عوامی مقبولیت اور تنقید سے خوف زده ہوکر اس پر پابندیاں عائد کی گئیں.صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی ویسے ویسے اس کی مقبولیت،اہمیت وافادیت بڑھتی گئی اور لوگوں کو متوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی اور ایک ایسا وقت آیا جب لوگ صبح آنکھ کھلتے ہی اخبار تلاش کرنے لگے. ابلاغ کا ذریعہ اب بھی ابلاغ کا ہی کام کررہا ہے مگر یہ ابلاغ اب معاشرے کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کی بجاۓ ذاتی پسندو ناپسند اور ذاتی مفاد تک محدود ہوتا جارہا ہے۔صحافت معاشرے کی آنکھ ہوتی ہے اس آنکھ کے سامنے بھی دولت اور اختیارات کی چکا چوند ہے جو درست سمت اور درست منظر کو دیکھنے میں حائل ہوچکی ہے۔صحافت بطور ادارہ پاکستان میں ناکامی سے دوچار ہے۔اس شعبے میں بھی بہتر پرورش کے بجائے بگاڑ پیدا ہوچکا ہے آج صورت حال یہ ہے کہ صحافت حقیقی معنوں سے بے نیاز اور ضابطہ اخلاق کی پابندی سے ماورا نظر آتا ہے ۔صحافت اب ایک مقدس مشن نہیں بلکہ ایک کمرشل پیشہ بن گیا ہے۔یہ مقدس پیشہ ملت کی خدمت کے بجائے مال دولت کے حصول کا ذریعہ بن کرحق اور باطل کے درمیان فرق واضح کرنے کے بجائے منافقانہ رویے کے ذریعے معاشرتی انتشار کا باعث بن رہی ہیں۔ قلم کہ جس کی قسم اٹھا کے رب جلیل نے اپنے کلام پاک میں اس کی تعریف بیان کی۔اسی قلم کو جب اہل دل نے ہاتھ میں لیا تو ثابت کردیا کہ قلم کی طاقت تلوار سے زیاده ہے۔

اسی قلم کی حرمت کو آج کے نام نہاد قلماروں نے ساہوکار کے پاس فروخت کردیا۔اب قلم وہی لکھتا ہے جو قلم کا خریدار چاہتا ہے۔اسی خطہ سر زمین میں کیسے کیسے لوگ ہوگزرے جنہوں نے قلم کی حرمت کا ہر حال میں خیال رکھا کسی ظالم کا ظلم کسی جابر کا جبر اور کسی دولتمند کی دولت ان کے قلم سے نکلے ایک لفظ کو بھی خرید پاۓ، نہ روک سکے۔مگر اب قلم ہاتھ میں پکڑے وہ ضمیر فروش لوگ کھڑے ہیں جن کے قلم کی قیمت ایک جسم فروش طوائف کی ایک رات کی قیمت سے بھی کم ہے۔ان لوگوں نے خود کو فروخت کرتے ہوۓ بس اپنی ذات کو دیکھا۔نہ ملک وملت ان کو نظر آتے ہیں نہ ضابطہ اخلاق کا پاس۔پیسہ ہی سب کچھ ہے۔کتنے لوگ ہیں جو حکمرانوں کی ایک نگاہ التفات کی چاہ میں عوام کی رگوں میں نفرت کا بیج بورہے ہیں۔کتنے ہیں جو دو وقت کی روٹی کیلئے کروڑوں لوگوں کو غلط سمت میں دوڑاۓ جاتے ہیں۔جب سے صحافت نے پیسے کی سلطنت میں قدم رکھا ہے۔صحافی نے بھی اپنا قلم ضمیر سب کچھ دولت کے قدموں میں گروی رکھ دیا ہے۔اب شام سویرے بس موجاں ای موجاں۔

کتنے صحافی ہیں جو اپنا دامن دولت اور ہوس کی آگ سے بچا پاۓ۔اب اخبار ہو ٹی وی چینل ہو یا سوشل میڈیا سب کی ایک ہی دوڑ ہے ریٹنگ ریٹنگ اور دولت۔اس کیلئے صحافت کے اصول بیچنا پڑیں یا کسی کی ذاتی زندگی میں زہر گھولنا پڑے۔زرد صحافت نے سب کچھ ہی بھلا دیا۔کہیں ننگی تصويريں ہیں کہیں پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔لوگوں کی ذاتی زندگی کو سرعام مباحث کا موضوع بنایا جاتا ہے۔کہیں اخبار کے نام پر فحاشی کا چیتھڑا نکالا جاتا ہے تو کہیں پروگرام کے نام پر لوگوں کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پر سر محفل الزام لگاۓ جاتے ہیں۔صحافت کہیں منہ چھپاۓ پڑی ہے صحافی کسی نکڑ پر سر گھٹنوں میں دیے بیٹھا ہے۔وطن عزیز میں سیاست ہو یا تجارت،تعلیم کا میدان ہو یا وکالت،تھانیدار کی تھانیداری ہو یا ساہوکار کی صنعت کاری، سب کی سب ترقی کیلئے صحافت کی گود میں پرورش پا رہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صحافت یعنی میڈیا کسی کی دو نمبر مضر صحت مصنوعات کو قوم کیلئے آب حیات ثابت کر دے تو کردے اور کسی کی اعلیٰ معیار پروڈکشن کو راتوں رات پِٹوا دے۔ کتنی ہی ایسی غیر ضروری چیزیں ہیں جو میڈیا کی بدولت ہر انسان کی اولین ضرورت بنادی گئیں ۔اور کتنے ہی ایسے لازمی کھانے مشروبات روایات ثقافت جو کہ معاشرے کیلئے مفید تھے اب میڈیا کی مہربانی سے ان کا نام بھی لوگ بھول چکے۔معاشرتی اقدار ہوں یا مذہبی علاقائی ، ثقافتیں ،قومی کھیل اور قومی پہچان ولباس ان قلم فروشوں نے قوم کیلئے شرمندگی کا باعث بنا دیے ۔کیا کیا رویا جاۓ اور کس کس چیز کا ماتم کیا جاۓ۔میڈیا انہی مسائل کو اجاگر کرتا ہے جن سے ان کا ذاتی مفاد وابستہ ہو۔وہ رئیل سٹیٹ کا بزنس ہو ،کاربونیٹیڈ مشروب کا ہو،برگر پیزا ہو یا ہوٹلنگ کا۔میڈیا آپ کو کہیں بھی کسان کے مسائل پر مزدور کی مشکلات پر آلودہ پانی پر دیہات کے حالات پر ایک آدھ مستثنیات کے علاوہ بات کرتا نظر نہیں آۓ گا۔ہر روز سات سے گیارہ کے پروگرام دیکھ اخبار کے صفحہ اول سے اداریے سمیت سب چا ٹ لیں آپکو عوام کے دکھ نظر نہیں آئیں گے۔

Facebook Comments

رانا اورنگزیب
اک عام آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں ۔۔رانا اورنگزیب

Leave a Reply