• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ٹکسالی گیٹ، پاکستان سے آسکر کی نامزدگی کی حقدار فلم/ جواد شیرازی

ٹکسالی گیٹ، پاکستان سے آسکر کی نامزدگی کی حقدار فلم/ جواد شیرازی

برصغیر میں طوائف کا رول ہمیشہ سے سماج ک لیے ایک پُر کشش مطالعہ رہا ہے۔اس پر لاتعداد افسانے،ناول،ڈرامے ،فلمیں بنیں مگر آج بھی یہ موضوع معاشرے کے  لیے حد درجہ دلچسپی کا حامل ہے۔ماضی میں بالی وڈ میں اس پر سب سے بہترین کام شیام بنیگل کا منڈی کی صورت میں سامنے آیا تھا۔اس میں سمیتا پاٹل ،شبانہ اعظمی اور نصیر الدین شاہ ناقابل فراموش کرداروں میں نظر آئے۔حالیہ زمانے میں گنگو بائی  کاٹھیاواری میں عالیہ بھٹ کی اداکاری کو بہت سراہا گیاتھا۔مشہور رائٹر اور دانشور فوزیہ سعید کی کتاب “ٹیبو” بھی لاہور کی ہیرا منڈی کے پس منظر میں لکھی گئی ایک شاہکار کتاب ہے۔اس کتاب کے  لیے فوزیہ برسوں اسلام آباد سے لاہور تن تنہا گاڑی ڈرائیو کر کے آتی رہی تھیں۔اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوے مصنف و ہدایتکار ابو علیحہ نے عائشہ عمر کی پروڈکشن میں بننے والی فلم “ٹکسالی گیٹ” ریلیز کے  لیے پیش کی ہے۔

ابو علیحہ اس سے پہلے دو سنجیدہ موضوعات کے علاوہ کچھ کامیڈی فلمیں بھی بنا چکے ہیں، اس لیے ان کی ہدایت کاری میں ہر دفعہ کچھ اچھوتا ہوتا ہے۔فلم ،جیسا کہ نام سے ظاہر ہے،لاہور کی ہیرا منڈی اور اس کے مکینوں کا احاطہ کرتی ہے مگر اس میں ایک شئے  ایسی ہے جو اسے باقی فلموں سے ممتاز کرتی ہے۔اس امر کی نشاندہی کرنے سے پہلے میں اس کی کاسٹ بارے  آپ کو بتاتا ہوں، جو یاسر حسین،عائشہ عمر،نیّر اعجاز اور  مہر بانو کے  بنیادی  کرداروں پر مشتمل ہے۔ان کے ساتھ بابر علی اور عفت عمر نے بھی ذیلی کردار نبھائے ہیں۔

فلم کی کہانی ایک دلال کی بھتیجی اور ایک مداری کی بیٹی کی آبروریزی کے گرد گھومتی ہے، جو  محلے کا ایک با اثر نوجوان    اپنے  دوست و ساتھ ملا کر دھوکے سے  سر انجام دیتا ہے،متاثرہ لڑکی اور اس کا باپ تمام تر روپے پیسے کی ترغیبات کو ٹھکرا کر اپنا کیس عدالت میں لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔وہاں بھی قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے مقدمہ ان کی شکست کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے ۔اس موقع پر لڑکی اور اس کا خاندان ایک انوکھا فیصلہ کرتے ہیں، جو ناظرین کو کرسیوں کے کنارے پر بیٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے اور اس کا اختتام بھی ایسا ہی ڈرامائی  ہوتا ہے۔

ابو علیحہ چونکہ خود ایک مصنف ہیں جن کے افسانوں کے کئی مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں اس لیے سکرپٹ پر ان کی بے مثال گرفت قابل تحسین ہے۔درست مقام پر پُر اثر مکالمے اتنے طاقتور ہیں کہ ناظرین تالیاں بجانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔فلم لاہور کے ٹکسالی گیٹ یا ہیرا منڈی میں بنی ہے اس لیے بڑے مناسب ڈرون اور کرین شاٹس کے ذریعے اندرون لاہور  کی خوبصورتی کو اجاگر کیا گیا ہے۔فلم کی کلر گریڈنگ اور عکاسی ایک انتہائی  مشکل امر   اس لیے تھا کیونکہ اس علاقے میں جہاں گلیاں تنگ اور گھر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ،قدرتی روشنی کو اجاگر کرنا  قطعاً آسان نہیں  ہوتا۔ڈائریکٹر اس مشکل ٹاسک میں بھرپور طریقے سے کامیاب ہوئے ہیں اور اس عکاسی کو بہت مناسب کلر گریڈنگ کے ذریعے عمدہ بھی بنایا گیا ہے۔اللہ دتہ برادرز کا ترتیب دیا بیک گراؤنڈ میوزک اور ایک سکور”حق کدھر ہے؟”سکرپٹ سے بالکل مطابقت رکھے ہوئے ہے جس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔

اداکاری کی بات کی جائے تو ہر اداکار نے اس میں بے مثال اور شاندار اداکاری کی ہے۔عائشہ عمر نے مسکان کے روپ میں ایسی شاندار اداکاری  کے جوہر دکھائے ہیں  جو عالیہ بھٹ کی گنگو بائی  کے  ہم پلہ ہے۔ان کا طوائفوں کی طرح گھٹنا اٹھا کر بیٹھنا،منہ کھول کر ہنسنا،گاہکوں کو تولنے والی نگاہوں سے دیکھنا بہت ہی شاندار ہے۔نیّر اعجاز تو خیر ہیں ہی سدا بہار اداکار جن کے گیٹ اپ میں شامل عینک ان پر نگینے کی طرح فٹ بیٹھی ہے۔ان کے تاثرات اور محسوسات فطرت کے بہت قریب دکھائی دئیے۔خاص طور ہر ان کا چہرہ جھکا کر پاور فل ڈائیلاگ بولنا ایک خاصے کی شئے ہے۔ مہر بانو نے بھی اچھی اداکاری کی اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گہری نظر بھر کر دیکھنا میتھڈ ایکٹنگ کی ایک اچھی مثال ہے۔ عفت عمر اور بابر علی نے بھی اچھے رول نبھائے مگر اس فلم کی جان یاسر حسین کی اداکاری ہے۔ایک دلال کے روپ میں ڈائریکٹر نے انہیں ایسا شاندار گیٹ اپ دیا ہے  کہ وہ اس فلم میں  سکرین پر مکالمے ادا کیے بغیربھی دلال ہی  دِکھتے ہیں۔کاندھے پر ایک کپڑا،کرتے کی مخصوص بناوٹ اور آنکھوں میں ایک خاص دلال والی چمک لیے یاسر نے اس فلم میں اپنی زندگی کا سب سے بہترین رول ادا کیا ہے۔ان کی اداکاری کسی بھی طور بول فلم کے یادگار دلال شفقت چیمہ کی اداکاری سے  کم نہیں۔

فلم میں ایک دو چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہیں۔زیادتی کے بعد لڑکے کا باپ لڑکی کے باپ کو بیس لاکھ کی آفر کرتا ہے جبکہ ایک اور موقع پر عائشہ عمر کو دس لاکھ اور ایک اور موقع پر پچاس ہزار کی آفر کرتا ہے۔جب ایک آفر کو بیس لاکھ پر ٹھکرا دیا گیا ہے تو اس سے کہیں کم مالیت کی آفر وہ کیوں لیتے؟اسی طرح بابر علی کی اپنے بیٹے کی پٹائی  بہت مصنوعی سی معلوم ہوتی ہے۔
چونکہ یہ فلم ہر ناظر کے لیے نہیں بنی اس لیے فلم کا ٹیمپو بہت سلو ہے۔کہیں کہیں اس میں ڈریگ بھی محسوس ہوتا ہے۔فلم کا پہلا ڈیڑھ گھنٹہ  کچھ کنفیوژن بھی لیے ہوئے  ہے کہ ناظر کو یہ سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ ایک ہیرا منڈی کی مکین لڑکی اپنی عزت کے معاملے میں اتنی حسّاس کیوں ہے؟نوّے منٹ کے بعد فلم ایک ڈرامائی  ٹوئسٹ لیتی ہے جس کے بعد فلم ایکدم دلچسپ ہو جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئی  ایم بی ڈی نے اس فلم کو نو کی ریٹنگ دی ہے جو شاید مولا جٹ کی بھی نہیں تھی۔یہ فلم ایسی ریٹنگ کی ہی حقدار ہے۔
یہ عام شائق کی کمرشل فلم نہیں۔یہ ایک آرٹ فلم ہے جو فلم فیسٹیولز اور ایوارڈز کےلیے نامزد ہو سکتی ہے۔میرے ذاتی خیال میں اسے آسکر کی غیر ملکی فلم کی کیٹیگری میں پاکستانی فلم کے طور پر ضرور بھجوانا چاہیے۔کیونکہ یہ کاٹھ کباڑ “جوائے لینڈ” سے   لاکھ درجے بہتر فلم ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply