گوڈو /تحریر: علی عبداللہ

اپنی حالت زار سے لاتعلق دو وجود، قدیم برگد کی مانند اپنے قدم زمین پر مضبوطی سے جمائے کھڑے ہیں۔ ایک جس کی آواز میں بغاوت کی چنگاری محسوس ہوتی ہے، اپنی خود ساختہ تطہیر سے فرار کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہتا ہے، “چلو چلتے ہیں”- وہ سرگوشی تھی یا پھر اعلان، لیکن اس کے کہے میں سینکڑوں ان کہے خوابوں کا وزن محسوس ہو رہا تھا- شاید ان کا کردار مشترک اور قسمت کی زنجیریں ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑی ہوئی تھیں، سو دوسری جانب سے بھاری آواز میں جواب آتا ہے، “ہم نہیں جا سکتے۔” یہ محض انکار نہیں تھا بلکہ امید اور مایوسی کے غیر محسوس دھاگوں سے جڑی ہوئی کشمکش تھی- “کیوں نہیں؟” کہنے والے نے بے ساختہ سوال کیا- شاید یہ منطق سے پرے کی دنیا میں استدلال کی التجا تھی یا پھر کائنات کی پراسرار خاموشی میں تفہیم کا مطالبہ تھا- جواب آیا، “ہم گوڈو کا انتظار کر رہے ہیں۔”

ذرا خیال کے دریا میں غوطہ زن ہوں تو علم ہو گا کہ یہ وقت کی اتھاہ گہرائیوں میں اُمید کی انسانی صلاحیت کا ثبوت ہے۔ وہ گوڈو کا انتظار کر رہے ہیں جو ان کے وجود کے صحرا میں معنویت کا سراب ہے- گوڈو ان تمام چیزوں کی علامت ہے جن کا انتظار کیا جاتا ہے- وہ سب کچھ جس کی انسان خواہش کرتا ہے لیکن شاید وہ کبھی تکمیل کے در تک نہیں پہنچتیں۔ یہ ناقابل جواب، جوابات کا وعدہ ہے- انتظار کے روپ میں وجود کے تضاد کو مجسم کرنا ہے: ایک کائنات میں معنی کی مسلسل تلاش کے ذریعے اور دوسرا زندگی اور موت کے درمیانی لمحات میں مقصد کی انتھک جستجو کے ذریعے- مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے ان سطروں میں انسانی حالت کا جوہر کھلا ہوا ہے: خواب دیکھنے کی ہمت، امید کا جڑنا اور ایسی خواہشات کا ابدی انتظار جو شاید کبھی مکمل نہ ہو پائیں-
Let’s go.” “We can’t.” “Why not?” “We’re waiting  for  Godo.”

انسان کی امید، خواہش اور جستجو کبھی ختم نہیں ہوتی- وہ ہر بدلتے لمحے اک نئی خواہش کی تکمیل کی امید باندھے جستجو کے اڑن کھٹولے پر سوار ہو جاتا ہے- اس کے لیے وہ اپنی عقل اور منطق سے ہر اس شے کو قبول کرتا ہے جو اس کے دماغ میں سما سکتی ہیں اور ان تمام عناصر کو نظر انداز کرتا ہے یا پھر سرے سے قبول ہی نہیں کرتا جنہیں اس کی عقل تسلیم نہیں کرتی- اس طرح انسان نے زندگی کو ہی مبہم، بے معنی اور نا سمجھ میں آنے والی بے مقصد شے سمجھ لیا- ایک جگہ پڑھا تھا کہ،
” انسان نے زندگی کو محفوظ اور پرسکون بنانے کے لیے جتنی کوششیں کیں اتنی ہی زندگی تکلیف دہ اور غیر محفوظ ہوتی گئی- اس سے دو نتیجے نکلے: یا تو انسان کی عقل بھٹک گئی یا پھر زندگی دائرہ عقل سے باہر ہے- یعنی ایبسرڈ ہے- اتنی کامیابیوں کے بعد عقل کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا تھا- سائنس اور ٹیکنالوجی میں عقل کے کارنامے حیرت ناک تھے- چنا نچہ یہ فیصلہ ایک ہی ٹھہرا کہ زندگی ایبسرڈ ہے- ایبسرڈ کے لغوی معنی غیر معقول اور لایعنی کے ہیں، لیکن ایک نظریہ حیات کے حوالے سے اس کے معنی احمقانہ یا مضحکہ خیز نہیں ہیں- اس کا مطلب ہے سمجھ سے ماورا- یہ اس بات کا اعتراف ہے کہ زندگی کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا اور چنانچہ اس کے متعلق کوئی پیش گوئی ممکن نہیں ہے- اس کا واضح سبب یہ ہے کہ زندگی کے طریقے انسانی ذہن کی دسترس سے باہر ہیں-”

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچتا ہوں کہ کیا واقعی زندگی سمجھ سے باہر ہے؟ کیا کوئی فلسفہ، کوئی نظریہ، کوئی معلم اس شے کی وضاحت نہیں کر پایا؟ حتی کہ کیا مذہب بھی اس کا جواب دینے سے قاصر ہے؟ کیا ہم اسی بنا پر کسی گوڈو کے انتظار میں کھڑے رہ جاتے ہیں یا ہر پل کسی نئے گوڈو کا تعاقب کرتے ہیں؟ بقول شاعر،
“جو ہم پہ گزری ہے شائد سبھی پہ گزری ہے”
یہ واقعتاً سب انسانوں کا مشترکہ انداز ہے؛ خواہش کرنا اور اس کی فوری تکمیل کی آرزو کرنا- چونکہ ہر خواہش کی تکمیل ممکن نہیں لہذا امیدوں پر ہی زندگی جاری رہتی ہے، مگر اسے انسانی عقل سے ماورا سمجھ کر انسان زندگی کی حقیقت سے نا آشنا ہی رہتا ہے-
یہاں مجھے بے ساختہ یاد آ رہا ہے،
“افحسبتم انما خلقنا کم عبثا” یعنی تخلیق کرنے والا بھی کہتا ہے کہ کیا زندگی بے معنی اور بے وجہ ہے؛ نہیں۔۔ یقیناً زندگی ایبسرڈ نہیں ہے-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply