زندہ تصویریں

پیشے کے اعتبار سے وہ فوٹو گرافر۔۔۔۔۔
اسے اسکا پیشہ کہنا غلط ہے،یہ اسکا جنون تھا,پاگل پن تھا, عشق تھا۔۔۔
مناظر ہوں یا انسان ۔۔۔۔وہ ایک ہی لمحے میں انہیں قید کر لیتا۔۔۔
پھر گھنٹوں بیٹھ کر ان تصاویر کو دیکھا کرتا, باریک بینی اس قدر کہ اسے وہ پل بھی یاد رہتا جو کسی تصویر کیساتھ جڑا ہوتا, وہ تصاویر نہیں احساسات,جذبات,حسرتیں, خوشیاں اور غم دیکھا کرتا,حتی کہ وہ ان تصاویر میں چلتی ہواؤں کو بھی دیکھتا, وہ ایک ساعت کسی کی پوری حیات ہوتا۔۔۔۔ آج وہ ایک میلے میں آن پہنچا تھا-
صبح سے دوپہر اور اب شام ہونے کو آئی تھی۔۔۔وہ تھک ہی نہیں رہا تھا,جانے کتنے منظر عکس بند کر لیے تھے۔۔۔غباروں,کھلونوں کے سامنے کھڑے بچوں کی خوشیاں اور کسی کی حسرتیں۔۔۔۔
راجستھانی لباس پہنے روایتی رقص کرتی لڑکیاں,غراروں کی بل کھاتی شوخیاں,کندھے پر سوار ایک بچے کی بےتحاشا خوشی,جوانوں کے بے فکری کے قہقہے اور اس مداری کی(ریزگاری گنتے ہوئے) اپنی کمائی سے مطمئن آنکھیں, وہ اک فقیر کے کاسہ میں کچھ ڈال کر اسکی ہنسی کی تصویر اتارتا۔
سب مکمل تھا آج ۔۔۔ جیسے لوگ ہر غم کی بیڑی سے آزاد ہوں , یا آج ساری زنجیروں کو توڑ کر آئے ہوں -اس کی نگاہیں ابھی بھی کچھ تلاش کر رہی تھیں, ایک منظر اور مل بھی گیا۔۔۔چوڑیوں کا اسٹال,لڑکیوں کی آنکھوں سے بھی قوسِ قزع سے جھلکتے رنگ,یہ منظر عکس بند ہونے کو ہی تھاکہ ۔۔۔نگاہ بھٹکتی اسی اسٹال سے کچھ دور زمین پر بیٹھی ایک سیاہ لباس میں ملبوس لڑکی پر ٹھہر گئی, کیسی حسرت سے وہ چوڑیوں کو دیکھ رہی تھی,آنکھیں خشک ہی تھیں,مگر غور سے جو دیکھو تو۔۔۔۔۔۔ بین کر رہی تھیں، ڈوبتی گہری ہوتی آنکھیں,وہ کئی ساعتیں ٹکٹکی باندھے دیکھتا گیا,لمحے کھسکے۔۔۔۔۔مگرلڑکی نے پلک تک نہ چھپکی اور شاید اس نے بھی نہیں۔۔۔قریب گیا اس سے کچھ فاصلے کا تعین کیا اور نیچے بیٹھ گیا,لڑکی کی محویت ٹوٹی,پلو درست کرنے لگی(جو پہلے بھی درست ہی تھا ,بس یہ کہ اب پیشانی تک آ گیا تھی,آنکھوں کا حزن اب کم دکھنے لگا تھا)وہ ہکلاتے ہوئے بولی”اماں بھی ساتھ ہے، وہ پانی پینے گئی ہے”۔۔۔۔اور ڈرتے ہوئے تعین کردہ دوری کے فاصلے کو اور بڑھایا۔۔۔۔اور وہ آنکھوں کے کرب تک کو عکس بند کرنے کا دعویدار, ہولے سے بولا۔۔۔۔” ان چوڑیوں کو خرید کیوں نہیں لیتی,انہیں خریدو پھر میں تمہاری تصویر لونگا جس میں خوشی کے سارے رنگ ہونگے”۔۔۔لڑکی نے کسی تحیر سے اسے دیکھا۔۔۔وہ گڑبڑایا,پیسے نہیں ہیں؟
مجھ سے لے لو,وہ خوشی قید کر کے مجھے بہت خوشی ہو گی۔۔۔۔۔لڑکی نے نفی میں سر ہلایا اور اٹکتے بولی”میں نہیں پہن سکتی یہ,گناہ ہو گا”۔۔۔۔گناہ؟؟؟
کس نے کہا؟ وہ حیران سا ہوا۔
اماں کہتی ہے اور میری ساس بھی۔۔۔۔۔ وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوئی۔۔
تم شادی شدہ ہو؟؟۔۔۔۔۔۔ لہجے میں حیرانگی سی حیرانگی تھی۔۔۔۔اداس شہزادی نے ہاں میں سر ہلایا اور پھر نفی میں بھی (کیسا جواب تھا یہ)۔۔۔
پھر جو بولی تو ہوائیں بھی سوگوار ہو گئیں۔۔۔سال پہلے ہوئی تھی,دو ماہ بعد وہ مر گیا,
سب کہنے لگے منحوس ہوں میں, رنگوں اور چوڑیوں سے ناطہ تڑوا دیا گیا,اماں کہتی ہیں جنم جلی ہوں ,جس سال پیدا ہوئی ابا کی تھوڑی بہت جو فصل تھی وہ بھی نہ ہوئی, بعد میں پتہ چلا اس سال بارشیں ہی نہ ہوئی تھیں ,شاید وہ بھی میرے آنے سے ناراض تھیں۔۔۔وہ بےحسی سے بول رہی تھی ,۔۔۔۔۔ پھر کیا ہوا ؟؟؟ وہ ٹرانس کی کیفیت میں بولا۔۔؟
وہ معصومانہ سے انداز میں پھر شروع ہو گئی۔۔۔اس کے مرنے کے بعد عدت میں درد کے,رویوں کے ,زخموں کے بہت سے رنگ دیکھے,اماں پھر اپنے گھر لے آئی,بہت مارا اور خود ہی روئی,کہتی ہے اس دن ہی مر جانا چاہیئے تھا جب بچپن میں بہت بیمار پڑ گئی تھی, بچپن کی سہیلی کی شادی ہوئی تو مجھے نہیں لے جایا گیا,کہتے ہیں میرے بخت کا سایہ اس پر نہ پڑے , ہنسوں تو ابا ناراض ہوتے ہیں, رنگوں کو جو پہنا تو لالہ ناراض ہوئے , مجھے جکڑا نہیں جاتا زنجیروں میں, مگر قید ہوبہو ویسی ہے۔۔۔۔۔ آج اماں کو منا کر لائی ہوں ،چھپ کر آئے ہیں, ورنہ ابا اور لالہ ناراض ہونگے۔۔۔ایک ہانپتی ہوئی عورت کو آتے دیکھ کر وہ چپ ہو گئی۔ماں نے آتے ہی اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور گھسیٹتے ہوئے اسے لیجانے لگی,۔۔۔۔۔۔ کمبخت جلدی چل, شام ہونے کو آئی ہے,اور پتہ نہیں میں نے تمہاری بات مانی ہی کیوں۔۔۔۔۔۔ماں کی آواز میں خوف تھا۔۔۔
میں زنجیر پا ہوں روایات کے قفس میں۔۔۔۔میری حیات کو رہائی کسی طور ممکن نہیں۔۔۔فاصلہ زیادہ جو ہوا تو اس تک آوازیں آنا بھی بند ہو گئیں , اسے کھینچا ایسے جا رہا تھا,جیسے وہ موم کی گڑیا ہو, یا زنجیر میں جکڑا کوئی قیدی, گھسٹتے گھسٹتے ہی اس نے دوبارہ مڑ کر ان چوڑیوں کو دوبارہ دیکھا, خشک آنکھوں ہی سے,یہ منظر اس کیمرے والے نے محفوظ کر لیااور جب اس تصویر کو دیکھا۔۔۔ تصویر کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔!!!

Facebook Comments

نعیم حيدر
سوچنے، محسوس کرنے، جاننے اور جستجو کےخبط میں مبتلا ایک طالبِ علم ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply