پیپلز پارٹی سے 11 سوال/حیدر جاوید سیّد

یہ سطور اتوار 4 فروری کی صبح لکھ رہا ہوں، جمعرات 8 فروری کو ملک عام انتخابات کے آخری مرحلہ میں کروڑوں رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی پسندیدہ جماعت یا آزاد امیدوار کے لئے استعمال کریں گے۔ رائے دہندگان کی سماجی و اخلاقی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دستور میں د یئے گئے سیاسی سماجی معاشی اور مذہبی حقوق سے متصادم نظریات رکھنے والی جماعتوں اور ایسی منفی سوچ رکھنے والے آزاد امیدواروں کو مسترد کردیں۔

ووٹ ڈالتے وقت یہ بھی مدنظر رکھیں کہ ان کے حق رائے دہی سے جہادی تاجروں اور فرقہ وارانہ تعصبات و تشدد کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کو فائدہ نہ پہنچے۔

درجنوں نہیں سینکڑوں بار ان سطور میں عرض کرچکا کہ سکیورٹی سٹیٹ سے اپنے حقوق اور جمہوری نظام لینے کے لئے لڑنے بھڑنے کی بجائے تحمل و بردباری کے ساتھ پرامن جدوجہد اور ووٹ کی پرچی کے ذریعے منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔

حالیہ دنوں کے بعض عدالتی فیصلوں اور بالخصوص گزشتہ روز “عدت میں نکاح” والے کیس کے فیصلے بارے کچھ عرض کرنے کی ضرورت نہیں ماسوائے اس کے کہ

“نانی کھسم کیتا بھیڑا کیتا چھڈ دتا اُس توں وی بھیڑا کیتا”۔ ریاست نے جو فصلیں بوئیں اب کاٹے کھائے۔ اپنی بوئی فصلوں کی کٹائی اور اسے خوراک کا حصہ بنانے پر ریاست کن بیماریوں میں مبتلا ہوتی ہے کم از کم مجھے اور ہمزاد فقیر راحموں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔

2018ء کے انتخابات سے قبل جب ریاست کے طاقتور نمائندوں نے صحافیوں اور اہل دانش کو ملکی صورتحال اور انتخابی ماحول پر بات چیت کے لئے دعوت دی تھی تو ایسی ہی ایک ملاقات میں جو لاہور میں ہوئی (میں اُس وقت “دی فرنٹیئر پوسٹ” لاہور کا ایڈیٹر تھا) تو میں نے عرض کیا تھا کہ آج آپ لوگ میدان سے باہر کھڑے اپنے ناپسندیدہ سیاسی لوگوں کی پگڑیاں، دوپٹے اور عزتیں اچھالے جانے پر خوش ہورہے ہیں لیکن میں وہ دن تیزی سے آتا ہوا محسوس کررہا ہوں جب یہی لشکر پلٹ کر آپ کو گالی دے گا۔ غدار کہے گا آپ کی خواتین بارے سستے بازاری جملے کہے گا۔ بہرحال جو ہوا اور ہورہاہے ہر دو کی ذمہ دار ریاست ہے۔

فی الوقت ہم آج کے موضوع پر بات کرتے ہیں۔ دس پندرہ دن قبل پیپلزپارٹی کی قیادت کو عثمان غازی کی معرفت چند سوالات بھجوائے تھے۔ ان سوالات کو اب اس کالم میں قارئین کے لئے لکھ رہا ہوں۔ پیپلزپارٹی کی قیادت صرف ان صحافیوں سے متاثر ہوتی ہے جو اس کے کپڑے چوک میں اتارے اور اسے کرہ ارض کی سب سے بڑی برائی بناکر پیش کرے۔

کسی جماعت اور سیاستدان کا حق وہ کسی کے سوالوں کا جواب دے یا نہ دے۔ زور زبردستی بالکل نہیں۔ عزیزم عثمان غازی کے توسط سے پیپلزپارٹی کو بھجوائے گئے سوالات پہلے پڑھ لیجئے پھر مختصراً اپنی بات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

1۔ پیپلزپارٹی دفاعی اخراجات میں توازن لانے اور ڈیفنس پنشن کوسول بجٹ سے واپس دفاعی بجٹ میں شامل کرنے کے لئے کیا حکمت عملی اپنائے گی؟ (یاد رہے کہ 2008ء سے 2013ء کے درمیان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی مگر ان امور کو نظرانداز کیا گیا)

2۔ پڑوسی ممالک سے بہتر سماجی سفارتی و معاشی روابط میں حائل اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری کو ختم کرکے کیسے پارلیمان کی بالادستی قائم کی جائے گی؟

3۔ پیپلزپارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی ہےیا سوشل ڈیموکریٹ پارٹی؟

4۔ کیا کم وقت کے باوجود پیپلزپارٹی ترقی پسند جمہوری جماعتوں کےسیاسی اتحاد کو مستقبل اور سیاسی عمل کے لئے ضروری نہیں سمجھتی؟

5۔ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لئے پیپلزپارٹی کا دعویٰ اپنی جگہ مگر وسطی اوربالائی پنجاب میں پیپلزپارٹی کہاں کھڑی ہے؟

6۔ پیپلزپارٹی پنجاب کا سٹڈی سرکل روشن فکری کی ترویج کی بجائے مذہبی تعصبات کو بڑھاوا کیوں دیتا ہے؟

7.8 فروری کے انتخابات کے لئے پیپلزپارٹی نے اپنی جماعت کی کارکن کلاس کے کتنے امیدواروں کو ٹکٹ دیا نیز جنرل الیکشن کے لئے خواتین کے 5 فیصد حصے کی پابندی کی گئی؟

8.کیا موجودہ حالات نئے عمرانی معاہدہ کے متقاضی ہیں؟

9.اسٹیبلشمنٹ کی چھتر چھایہ میں پروان چڑھائی گئی نفرتوں اور تعصبات سے عوام کو کیسے نجات دلائی جاسکتی ہے؟

10.عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا اپوزیشن کا جمہوری حق تھا لیکن کیا اس حق کے استعمال سے اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ نہیں ملا اور وہ دودھ کی دھلی ہوگئی؟

11.پیپلزپارٹی کے 10 نکاتی انتخابی منشور میں سرائیکی صوبہ شامل نہیں سرائیکی وسیب کا ووٹر پیپلزپارٹی کو کس بنیاد پر ووٹ دے؟

یہ گیارہ سوالات ان سطور میں پڑھنے والوں کے لئے لکھنے کا مقصد فقط یہی ہے کہ ان سوالات کا جواب دینے کی پیپلزپارٹی نے زحمت نہیں کی۔

کرنی بھی نہیں چاہیے تھی کیونکہ سوالات بھیجنے والا صحافی نہ تو کوئی توپ چیز ہے نہ ہی کبھی اس نے منہ بھر کے گالیاں دینے کے ساتھ آبپارہ شریف سے فراہم کردہ دستاویزات و نکات کو تجزیوں اور کالموں کا حصہ بنایا۔

سیاسی جماعت اور شخصیات یقیناً کسی کے پابند ہیں نہ جواب کے لئے زور زبردستی کی جاسکتی ہے۔

جہاں تک انتخابی عمل کے مختلف مراحل میں کئے جانے والے دعوئوں کا تعلق ہے تو یہ دعوے انتخابی اکھاڑے میں موجود سبھی پہلوان جماعتیں کرتی ہیں ہمارے محبوب قائدکامریڈ میاں محمد نوازشریف ان دنوں موٹرویز، ہسپتال اور یونیورسٹیاں بانٹ رہے ہیں۔ 5 برسوں میں ایک کروڑ نوکریاں، لاکھوں گھر اور “لکھو کھا” لیپ ٹاپ وغیرہ دینے کا بھی ارادہ ہے۔

ایک اور سابق حکمران جماعت تحریک انصاف نے بھی انتخابی منشور دے دیا ہے مگر بنیادی سوال یہ ہے کہ اس وقت ملک میں جو سیاسی و معاشی عدم استحکام ہیں یا جس سماجی ابتری کا سامنا ہے ان سے عوام کو کیسے نجات دلائی جائے گی؟

مہنگائی آسمان کو چھورہی ہے۔ پی ڈی ایم اور اتحادی اپنے 16 ماہ کے اقتدار میں مہنگائی میں رتی برابر کمی نہیں کراسکے اب ان میں (پی ڈی ایم اور اتحادیوں) کسی جماعت کو بالفرض حکومت بنانے کا موقع مل بھی جائے تو مہنگائی کیسے کم کریں گے؟

اچھا اگر مہنگائی کم نہیں ہوتی تو کیا لوگوں کی قوت خرید کو بہتر بنایا جاسکے گا؟ بظاہر ان دونوں باتوں کا جواب نفی میں ہے کیونکہ 8 فروری کے بعد جس کی بھی حکومت بنے وہ جماعت اور حکومت اتنے وسائل کہاں سے لائے گی کہ لوگوں کی قوت خرید کو بہتر بنایا جاسکے۔

مستقبل میں جس کی بھی حکومت بنے اس کے سامنے داخلی مسائل کے علاوہ بھی مسائل ہوں گے۔ پاکستان کے 4 پڑوسی ممالک میں سے ایک سے ہمارے تعلقات نفرتوں کی تجارت کا عملی نمونہ ہیں دوسرے پڑوسی افغانستان کے ساتھ تعلقات کی حالت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے اپنی چودہراہٹ کے لئے تباہیاں مول لیں۔

نصف صدی کی افغان پالیسی سے پاکستان کو ساڑھے تین سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ ادھر افغانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ پاکستان کو منہ بھر کے گالی دینا اور پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے عناصر کی سرپرستی کو شرعی فریضہ سمجھتے ہیں۔

تیسرے پڑوسی ایران کے ساتھ ماضی میں کبھی خوشگوار تعلقات رہے ہوں گے (تھے بھی) لیکن آج دونوں ملک اس حوالے سے کہاں کھڑے ہیں اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں

چوتھا پڑوسی چین ہے۔ پاک چین تعلقات بداعتمادی کا شکار ہیں اس بداعتمادی کی وجہ ہماری امریکہ نواز پالیسیاں ہیں جو پچھلے چند برسوں میں سی پیک منصوبے پر بھی اثرانداز ہوئیں۔ پی ڈی ایم و اتحادی حکومت 16 ماہ کے دور اقتدار میں چین سے اعتماد سازی میں آگے نہیں بڑھ پائی۔

Advertisements
julia rana solicitors

8 فروری کے بعد کا جو منظرنامہ مجھ طالب علم کو سمجھ میں آرہا ہے وہ یہ ہے کہ تنہا شاید ہی کوئی جماعت حکومت بناپائے۔ مخلوط حکومت کے امکانات روشن ہیں یہ کتنی دیر چلتی ہے اس پر بحث کی بجائے اس امر پر غور کی ضرورت ہے کہ کیا مستقبل کی مخلوط حکومت کے پاس ایسی اخلاقی و سیاسی قوت ہوگی کہ وہ داخلی و خارجی مسائل کو حل کرنے کے لئے پیشرفت کرپائے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply