• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • استحکام کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے/ڈاکٹر ابرار ماجد

استحکام کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے/ڈاکٹر ابرار ماجد

محض انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات کی بنیاد پر آئین وقانون اور انصاف کی امن و سیاسی استحکام کی منشاء کوپس پشت نہیں ڈالا جاسکتا۔ اور نہ ہی ملکی دفاعی اداروں پرحملہ آور جتھوں کو ان کے اثر و رسوخ اور تعلقات کی بنیاد پر انصاف سے بالا تر سمجھا جاسکتا ہے۔ جہاں انسانی حقوق کی پاسداری اور انصاف کی فراہمی کے ماحول کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے وہاں قانون کی حکمرانی اور اداروں کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داریوں میں آتا ہے۔

فوجی عدالتوں کوسپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہےاور موقف یہ لیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں میں کاروائی شفاف نہیں ہوتی اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات کا اظہار کیاگیا ہے۔ یہ درخواست اعتزاز احسن صاحب کی طرف سے دائر کی گئی ہے۔

اعتزاز احسن صاحب خود بحالی عدلیہ تحریک کے روح رواں رہے ہیں اور عدلیہ کی بحالی کے بعد بھی ان کی آواز ہمیشہ سپریم کورٹ کی بہتر ساکھ کے لئے اٹھتی رہی ہے اور وہ حالیہ سپریم کورٹ کے ججز میں تقسیم پر بھی افسردہ رہے ہیں۔ اب وہ پاکستان کی قانونی تاریخ میں ایک نیا باب لکھنے جارہے ہیں تو ان کو چاہیے کہ وہ اس کومتنازع ہونے سے بھی بچائیں اور اس ضمن میں ان کو اپنی درخواست کے ساتھ ہی یہ استدعا بھی کردینی چاہیے تھی کہ یہ مقدمہ سپریم کورٹ کا فل بنچ سنے تاکہ کل کوئی اس درخواست کے فیصلے پر قانونی یا اخلاقی سوالات نہ اٹھاسکے۔

اگر فل کورٹ کی استدعا نہ کی گئی تو جس طرح سے سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات کے بندوبست کے زریعے سے کئے گئے فیصلوں پر اٹھنے والے اخلاقی وقانونی سوالات اور تین چار اور دو تین کے تناسب کے تاثر ات کے نتائج نے ان پر عملدرآمد کو متاثر کیا وہی معاملہ پھر سےدہرایا جاسکتا ہے۔

میری ان معزز وکلاء سے مودبانہ گزارش ہے کہ یہ قانون 1952 سے نافذالعمل ہے اور2015 میں فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کے خلاف ٹرائل کے لئےسیکشن 2 میں ترمیم کی گئی اور غالباً اس وقت اعتزاز احسن خود سینٹ کے ممبر ہی نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر بھی تھے۔ اور حسین اتفاق یہ ہے کہ اس وقت لیڈر آف ہاؤس راجہ ظفر الحق اور چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی اور یہ سب وکیل تھے۔ ان کے سینٹ کے ممبر ہوتے ہوئے یہ ترمیم ہوئی اور ان کے سامنے ان عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل ہوتے رہے۔ سردار لطیف کھوسہ اس وقت کی حزب اختلاف جماعت پیپلز پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری تھے۔

پھر اس کے بعد سابقہ وزیراعظم جن کے مقدمات اب فوجی عدالتوں میں جانے کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے۔ انکے اپنے دور حکومت میں بھی فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے مقدمات ٹرائل ہوتے رہے، سزائیں ہوئیں مگر ان سے اس وقت کی پارلیمان میں کوئی آواز نہیں اٹھائی گئی۔ تو کیا اس وقت سب جائز تھا اور اب اچانک ان کو کیسے خیال آگیا کہ یہ سب انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ کیا ان تضادات سے ملکی امن وسیاسی استحکام کو خراب کرنے اورانسانی حقوق کے نام پر مفادات کی سیاست کا تاثر نہیں ابھر رہا۔

کیا یہ معاملہ پیج بدل جانے کا ہے یا واقعی انسانی حقوق کا ہے؟ اگرانسانی حقوق پر آواز اٹھانی ہے تو پھر بنچ اور بار دونوں جہاں جہاں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے اس کو چیلنج کریں۔ لاپتہ افراد کے لئے بھی آواز اٹھنی چاہیے اور کسی کے ساتھ بھی نا انصافی نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے اپنے ادوار میں بھی جن کے ساتھ زیادتیاں ہوئی ہیں جس کا ان کے اپنے وزرا اعتراف کر رہے ہیں، ملوث لوگوں کو سزا ملنی چاہیے۔ انسانی حقوق کا معاملہ انسانوں کا ہی رہنے دیں اس پر سیاست نہ کریں۔

بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں بارے جن خدشات کا انہوں نے اظہار کیا ان کے بارے سول کورٹس میں جو مقدمات ابھی چل رہے ہیں کیا ان میں اعتراضات اور تحفظات کا کوئی اظہار نہیں کیا جارہا۔ حکومت جن شہادتوں کے ساتھ سول کورٹس کی کاروائیوں کو اعلیٰ عدلیہ میں چیلنج کر رہی ہے کیا وہ قانون وانصاف کے اصولوں کے مطابق سب کچھ ٹھیک ہوا ہے۔

کیا اس ملک کے سیاہ ترین فیصلے جن کا تمام وکلاء ہر روز ذکر کرتے ہیں وہ سول کورٹس سے نہیں ہوئے۔ کیا بھٹو کو کسی فوجی عدالت نے پھانسی دی تھی۔ کیا وزرا اعظموں اور سیاستدانون کو فوجی عدالتیں نااہل کرتی رہی ہیں۔ کیا آئین کے آرٹیکل تریسٹھ کی متضاد تشریحات نہیں کی گئیں اور اس کے باوجود حکومتوں نے ان پر دونوں دفعہ تضادات کے باوجود عملدرآمد نہیں کروائے۔ حد ہوتی ہے کسی بھی معاملے کی، کیا ان سارے فیصلوں پر سپریم کورٹ کے اندر سے آواز نہیں اٹھائی جارہی۔ کیا اس ساری صورتحال کے بعد بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خدشات صرف فوجی عدالتوں پر ہی ہیں۔

کیا دو دن قبل نیب کے جج کی وڈیو پر لندن ہائیکورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے جس میں موصوف جج یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ ان سے دباؤ ڈال کر وہ فیصلہ لیا گیا تھا پاکستان کی عدلیہ کی انسانی حقوق کی پاسداری کی مثالوں کے لئے ثبوت کافی نہیں۔ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے عدل کے ایوانوں میں گونجتی شہادتیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں۔ ہے کوئی جو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے کہ اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے اس معاملے کی انکوائری بھی ضروری ہے۔ کیا ضروری نہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر کوئی ایکشن لے یا کم از کم ان کی اپیل کوہی سن لے۔ یہ معاملہ تو انسانی حقوق کا ہی نہیں بلکہ انسانی حقوق پر عملدرامد کروانے والوں کی حیثیت کا ہے۔

جو جرنیلوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہاتھ کاٹتے رہے اپنے تشخص کو مسخ کرتے رہے، آئین کا قتل عام کرتے رہے، یہاں تک کہ اپنی ہی ہم مرتبہ عدالتوں کے وجود تک کو ختم کردیا آج وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کا درس دے رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ یہ سب وہاں سے چشم پوشی کی دلیریاں ہیں وگرنہ وہاں سے جاری فرمان پر عمل باعث شرف سمجھا جاتا رہا ہے۔ عجب فلاسفی ہے فوجی نگرانی کو باعث فخر سمجھا جاتا رہا ہے مگر فوجی عدالتوں کوغیر انسانی فعل۔

کوئی بھی فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں اور نہ ہی بے گناہ لوگوں کو سزا دینے کی حمائت کی جاسکتی ہے مگر اس موجودہ صورتحال سےجو تاثر ابھر رہا ہے کیاایسے میں ہماری سول کورٹس سے انسانی بنیادی حقوق کی پاسداری اوران جرائم میں ملوث افراد کو واقعی قرارسزا ملنے کی کوئی ضمانت دے سکتا ہے۔

بقول ان معززین کے کہ ان مظاہریں کو ٹریپ کرکے وہاں لے جایا گیا تو میرا سوال ہے کہ اگر اس طرح سے ایک سیاسی جماعت کے صف اول کے قائدین، ریٹائرڈ افسران اور عدالت عالیہ کے ججز کے رشتہ داران کو ورغلا کر وہاں لے جایا جاسکتا ہے تو پھر اس خدشے سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قانون اور انصاف کے نام پر اعلیٰ سطح کے عہدوں کو بھی ورغلا کر قانون و انصاف اور پاکستان کے امن و سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پھر تو اگر کوئی یہ کہے کہ فوجی عدالتوں سے بعض لوگ فوری، شفاف اور غیر جانبدارانہ انصاف سے خائف ہیں جس کے وہ عادی نہیں تو اس میں بھی وزن لگتا ہے۔

کیا پہلے اسی طرز پر پارلیمان، پی ٹی وی اورقانون نافذ کرنے والی فورسز پر حملے نہیں کئے گئے اور ان پر سول کورٹس کے فیصلے سب کو معلوم نہیں۔ اگر ان مقدمات پر دہشت گردی کی عدالتوں نے انصاف مہیا کیا ہوتا تو آج یہ چھاؤنیوں پر حملوں میں ٹریپ ہونے کی نوبت ہی کیوں آتی، کیا برطانیہ اورامریکہ میں ایسے بلوائیوں کے خلاف وہاں کی افواج نے اپنے قانون کے تحت کاروائیاں نہیں کیں۔

میری ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ وہ اس کوشش کو پاکستان کے وکلاء سے منسوب کرکے اپنے اچھے یا برے کریڈٹ کو اپنی برادری کے ساتھ نہ جوڑیں اور اگر وہ اس موقف کا استعمال کرنا ہی چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کے بڑے بڑے قانونی ماہرین جو ان کے اس موقف کی مخالفت کر رہے ہیں ان کے ساتھ ایک ڈائیلاگ کریں اور ان کو پہلے اپنے موقف پر قائل کریں اگر ان کی حمائت حاصل ہوجاتی ہے تو پھر اتفاق کے ساتھ اس درخواست میں ان کی نمائندگی کرتے ہوئے ضرور دائر کریں وگرنہ کسی کو پوری برادری کے نام پر اس قانون کی حکمرانی کے نام پر سیاسی عدم استحکام پھیلانے کی کوشش کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔

میری پاکستان کی وکلاء برادری سے گزارش ہے کہ ان کو اگر پاکستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی فکر ہے تو پھر ان کو ایک باہمی اتحاد کے ساتھ سپریم کورٹ میں ایک ایسی درخواست دائر کرنی چاہیے جس میں سپریم کورٹ کی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے یہ استدعا کی جائے کہ اب تک ہونے والے تمام متنازع فیصلوں کے خلاف ایک اجتماعی ریویو کریں جن میں اپنے ادارے کے نام پر ہونے والی سابقہ اور موجودہ ججز کی تمام غلطیوں کا ازالہ کیا جائے اور پھر مستقبل میں ان کے سدباب کے لئے آئین و قانون اور انصاف کے اصولوں کی مطابقت سے وہ اصول وضع کریں جن سے یہ انصاف کے نام پر ظم کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوجائے۔

اگر ہماری سول کورٹس دہشت گردی کو ختم کرکے امن کو بحال کرنے کی ساکھ رکھتی ہوتیں تو ہم 2015 میں یہ ترمیم ہی کیوں کرتے۔ اور ان کے قائم کرنے کے اختیار کو فیڈرل حکومت کی منظوری سے مشروط رکھا گیا ہے جو عوام کی نمائندہ ہوتی ہے۔ جب عوام کی نمائندہ حکومت کسی خاص صورتحال میں فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس کر رہی ہو تو پھر اس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں انسانی حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ امن اور سیاسی استحکام بھی چاہیے جو ہماری بقاء کے لئے لازم و ملزوم ہے وہ خواہ فوجی عدالتوں سے ملے یا فوجداری عدالتوں سے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت نے انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے اور اگر پھر بھی کہیں خلاف ورزی کا مشاہدہ ہو تو اس کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور ان فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق بھی محفوظ ہے۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ اس معاملے کو خواہ مخواہ طول دے کر عوام کے اندر تذبذب کو بڑھانے اور بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے مگر محض خدشات کی بنیاد پر ملکی امن اور سیاسی استحکام کو نقصان بھی نہیں پہنچنا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply