تیسری قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے
چوتھی قسط
کَسی ہوئی زندگی کے آثار :۔
متوازی پہاڑوں نے باہم اطراف میں بلندہوکر،درمیان میں ایک تنگ وادی کوترتیب دیاتھا۔وادی تنگ دامن تھی۔اسی تنگ دامن حصے سے ایک دریا بھی اَپنی گذرگاہ میں بہہ رہاہے۔یہاں ایک کَسی ہوئی زندگی کے آثار ہویدہ ہیں۔ہم اس تنگ دامن وادی میں آگے بڑھنے لگے۔چاندجوپہلے دائیں بائیں اَور سامنے سے سرکتاآتارہاتھا۔اب پہلی بار پُشت پر چلاگیاتھا۔اُس نے گُم ہوجانے والی راہ پکڑ لی تھی۔چاند جو پہلے دائیں بائیں اَور سامنے سے سرکتا آتارہاتھا۔اَب پہلی بار پُشت پر چلاگیاتھا۔اُس نے گُم ہوجانے والی راہ پکڑ لی تھی۔
چاندنی رات اَور ٹیٹوال :۔
چلتے چلتے ہم وہاں پہنچے جہاں ٹیٹوال سامنے تھا۔یہاں دن کو ٹیٹوال شہر کی جھلک ملتی ہے۔یہاں رکے ،گاڑیوں سے باہر آئے ۔وادی پر چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔چاندنگر سے کرنیں چھنک چھنک کر اُتر رہی تھیں۔درمیان میں کشن گنگا بہہ رہاتھا۔اُس کی آواز تھی ،اس کے پانیوں کاساز تھا۔یہاں پروادی تقسیم تھی ۔ٹیٹوال تقسیم تھا ،ایک ریاست تقسیم تھی اَور لوگ تقسیم تھے۔اَگر یہاں کچھ تقسیم نہ تھا تو وہ چاند تھااَورزمین پرپڑنے والی اُس کی چاندنی تھی۔
تقسیم :۔
لفظ تقسیم شاید ہی کبھی معتبر ٹھہرا ہو۔یہ جہاں بھی گیا فساد،اَنت ،جھگڑا ،اجتماعی قتل ،خون ریزیاں اَور خون کی ہولیاں ۔۔۔یہ سارے مقدمے ،الزام اسی کے سر جاتے ہیں۔اِنسانوں کی تقسیم ،ایک اکائی کی تقسیم ،ایک ثقافت کی تقسیم ،ایک ملت کی تقسیم ،ایک دھرم ،ایک دین اَور قوم کو کاٹ کر اس نے جوملغوبہ تیار کیا ۔اُس نے مسلک،فرقے ،ذات پات ،جیسے خبیث بچے جنم دیے۔یہ ساری خباثتیں اس ایک لفظ‘ تقسیم ’ کاکیادھرا ہے۔اتنی کارروائیوں کے باوجود یہ آج بھی ڈھٹائی سے اپنے منصب پر ذمہ داری سے ڈٹا ہوانظر آتاہے ۔انسانیت کاسبق شاید اس بے چارے نے کبھی سُناہی نہیں۔
چاندنی منقسم وادی پر برابر اُتر رہی تھی۔مگر یہاں کسی توپ خانے ،کسی مزائل ،کسی گن کی اوقات نہ تھی کہ وہ آسمان کے روشن گولے کو دھمکائے کہ‘‘ اوے۔۔۔!کھوتے دیا پُترا ۔۔۔تونھ ۔۔۔۔ آپنی ساری چاننی ادھر ساٹ اُدھر ناہیں۔۔’’چاند وہ مٹیالہ اَور بے آب و گیاہ ریگستان ہے جس نے ہماری زمین کو توازن دینے میں اَبھی تک اَہم کردار اَدا کیا ہے۔اَور یہ ذمہ داری وہ آج بھی بنا کسی لالچ کے نبھائے جارہا ہے۔یہ خالصتاًطبعیاتی اَور قدرے ریاضیاتی فلسفہ ہے۔توپ خانے کے مُنشی ان باتوں کو کیاجانیں ۔۔پار دریا پارسے توپ خانے ادھر کو رخ کیے بیٹھے تھے۔جھاڑیوں اَور گڑھوں میں اَور بلندیوں سے جھانک رہے تھے۔توپ خانوں کی نفسیات ہی یہی ہے کہ چھپ کر اَور دبک کر بیٹھا کرو اَور جہاں بھی کوئی نہتا نظر آئے اڑاڈالو۔
وادی ِٹیٹوال کازیریں حصہ جو یہاں سے دریا پار نظر آتا ہے ۔ایک پُل کے ذریعے اس طرف چلہانہ گاوں سے منسلک ہے ۔ایک طرف سے دریا بہہ رہا ہے اَور ایک نالہ ٹیٹوال سے اُترتا ہوا اس میں آن گرتاہے۔یہ ٹیٹوال نالہ کہلاتاہے۔یہ جگہ قاضی ناگ اَور ٹیٹوال کی حدود کاسنگم ہے۔
چاندنی میں ڈوبی اس وادی کانظارہ کرنے کے بعد ہم کچھ آگے ایک چائے خانے پر جارُکے ۔یہاں پکوڑے ،سموسے ،قہوہ اَور چائے دستیاب تھی۔ایک پہاڑی چشمے کاپانی لُڑھکتا ہوا ہوٹل کی بغل سے اُتر کر دریا سے ملنے جارہا تھا۔
دریا پار گاؤں تھا اَور جس جگہ ہم بیٹھے تھے یہ چلہانہ گاوں تھا۔یہ ضلع نیلم کاپہلا گاوں ہے۔جب کہ دریا پار گاوں وادی کرناہ تھی۔کرناہ ٹیٹوال کاحصہ ہے۔یہاں کے باسی سوئے ہوئے تھے۔آزادی ،اُمیدیں خواب ،یکجہتی سب چاندنی رات میں سوئے ہوئے تھے۔وسوے ،اندیشے اَور خوف یہ نیم غنودگی میں تھے۔مکانوں کے آگے پیچھے مکئی کی فصل کھیتوں میں کھڑی تھی۔یہاں نزدیک ہی نشیب میں کھڑے پُل پر یاقُرب پُل لوگ ایک دُوسرے کو خط اَور حالات پتھروں پرمیں باندھ کر آر پار پھینکتے تھے۔آس اُمید اَور حال اَحوال کے اس پتھراو عمل کے لیے بھی ایک دن مخصوص تھا۔مگر تب جب توپ خانے خاموش ہوں۔اگر وہ اپنی اوقات پر آجائیں تو فضا بارود سے میلی اَور کالی ہو جاتی ہے۔۴۷سے قبل ٹیٹوال شہر سامنے والی وادی کرناہ ،وادی دراوہ اَور دیگر وادیوں کامرکز تھا۔
پار گاوں کی پُشت پر پہاڑ تھا۔ہر گاوں اَور ہر وادی کی پشت پر خوب صورت پہاڑ نہیں ہوتے اَور ہر پہاڑ کے دامن میں خوب صورت وادیاں نہیں ہوتیں۔پہاڑی کی چوٹی پر چیڑ کاایک قدیم درخت تھا۔قدیم ،قدآور اَورتناور۔چاندنی میں وہ اپنے قدقامت حلیے میں پیارالگ رہاتھا۔اس کے نزدیک ایک چوکی تھی۔چوکی دار تھے اَور پہرے تھے۔یہ ساراعلاقہ ٹیٹوال تھا۔منٹو کی کہانی کاکردار‘ٹیٹوال کاکُتا’یہی کہیں آر پار پھرا کرتاتھا۔اَور پھر ایک دن ۔۔۔۔۔وہ کُتا ۔۔۔کُتے کی موت مرگیا۔چیتا،لگڑ بھگا،شیر اَور گیدڑ ابھی پوری طرح جنگلی ہیں۔پالتو نہیں ہوئے۔کہ انھیں پال پوس کر مارا جاسکے۔ورنہ کُتے کی جگہ ایک چیتا ،ایک گیدڑ ،ایک لگڑ بھگا بھی تو ہوسکتاتھا۔پالتو چیزیں جب فالتو ہوجائیں تو مروانی پڑتی ہیں۔جنگل کے وہ باسی جو ابھی تک جنگلی ہی ہیں ۔شکر کریں پالتو نہیں ہوئے ورنہ فالتو ہونے میں دیر نہ لگتی ۔بُرے وقت کاکاپتا۔ٹیٹوال کے آگے ضلع کپواڑہ ہے اَور اس کی تحصیل ہندواڑہ ۔
رشتوں کی تقسیم اَور ہوٹل کا ملازم :۔
چاے خانے کے ملازم نے بتایا کہ ٹیٹوال میں یونی ورسٹی ہے اَور یہاں رشتے تقسیم ہیں۔ماں اُدھر ہے تو بیٹا اِدھر ۔بھائی اِدھر ہے تو بہن اُدھر ۔خون تقسیم ہے ، ایک خاندان ،ایک رنگ ،ایک ہی انگ تقسیم ہے۔
جبرکی کالی دُنیا میں دو جبر بہت ہی کالے ہیں۔جنھیں دیکھ سُن کر کراہت ہوتی ہے۔ایک جبری تقسیم دُوسرا جبری رشتہ۔ہوٹل کے ملازم نے ادھوری باتیں کیں اَور چلتا بنا۔پوری بات یہ ہوتی ۔آدھا دیس اُدھر ہے آدھا اِدھر ،آدھے انسان اُدھر ہیں آدھے ادھر ۔آدھا وطن اُدھر ہے آدھا اِدھر ۔آدھے منصف اُس طرف کھڑے ہیں آدھے اس طرف ۔آخر ملازم نے یہ سب کیوں ناکہا ۔۔۔؟شاید ملازم لوگ زیادہ گفتگو کے عادی نہیں ہوتے ۔وہ صرف اُن باتوں کے عادی ہوتے ہیں ۔جو ملازمت کے دائرے میں آتے ہیں۔یہ ملازمت کے پکے اُصولوں میں سے ایک اصول ہے۔اَور جب ایک مسلہ سیاسی ہو،قومی ہو اَور پھر بین الاقوامی ہو کر بھی مَسَلہ ہی رہے تو ایسے میں ایک بے چارہ ملازم کیاکہ َ سکتاہے۔
پہاڑوں کامتوازی رشتہ :۔
چاے پی لی تھی۔رات کے ڈیڑھ بجے ہم چلہانہ کے اس چائے خانے سے رُخصت ہوئے۔کشن گنگا کے کنارے متوازی رشتے میں بندھے یہ پہاڑ آمنے سامنے کھڑے تھے۔جیسے دوسگے بھائی آمنے سامنے اپنی دُنیائیں بسائے بیٹھے ہوں۔اِن پربتوں کے درمیان اِن کے قدموں میں اَور صحن میں ایک سرد آب جو گُزررہی تھی۔اَور چاندنگر سے چھنک چھنک کر گرتی چاندنی پربتوں اَور ان کے قدموں میں بہتے کشن گنگا کو اَپنی سنہری شعاعوں سے دُھلاتی جارہی تھی۔
علاقہ میرا دیکھا بھالا تھا۔غالباً2011میں طلبا کے ایک قافلے کے ساتھ یہاں سے گُزرا تھا۔بہت کچھ بدل گیا تھا۔کچھ گھر جو پہلے نہ تھے اَب ہیں۔سڑک کنارے پہلے جوپتھروں کی رکاوٹیں تھیں اَب کنکریٹ کی بن گئیں تھیں۔رات کو سرحد پار سے زمین میں اَور کسی پتھر کی اَوٹ میں دُبکے چھوٹے توپ خانے اَور اُن کے منشی گُزرتی گاڑیوں پر فائر کھول دیتے ۔عام راہ گیر بارہا اس کی زد میں آکر جان سے گزر گئے۔
آواز کی رفتار سے سیٹی بجاتے چھوٹے مزائل اَور مزائل نما راکٹ بسوں ،ویگنوں اَور مسافر گاڑیوں کو نشانہ بناتے ۔پھر سرحد پر اَمن کاپھریرا بلند ہواتو پار برقی باڑ لگادی گئی ۔لیزر شعاعیں اَور کرنٹ جو ہمہ وقت ان تاروں میں دَوڑتارہتاہے۔اپنے نزدیک آنے والوں کے جسم میں داخل ہو کر خون جلادیتاہے۔
سرحد پر در‘اَندازی نام کی اصطلاع ’کو برتنے والوں نے چنوتی دی ۔خبردار اَیسی حرکت مت کرنا ۔ورنہ ہماری طاقت ور برقی تاریں جلاڈالیں گی۔اس طرف پتھروں کی جگہ کنکریٹ کی دیواریں تعمیر کی گئیں ۔فی الحال اَمن کابلند پھریرا لہراتاہے اَور دونوں طرف اَمن کوپھیلتا پھولتادیکھ کر خوش ہوتاہے۔ہم اَمن کے پھریروں کے درمیان ترنگے،سبزہلالی پرچم،پہرے ،کنکریٹ کی دیواریں،فولادی و برقی تاریں اَورتقسیم کی لکیردیکھتے دیکھتے آگے بڑھ رہے تھے۔دُنیا میں اَمن بانٹنے والے اَمن کے پھریرے جہاں جہاں لہراتے نظر آتے ہیں ۔وہاں وہاں اَیسی ہی امان ہر ایک کو حاصل ہے۔اَیسی تمام کوششیں بداَمنیوں کو تھکنے کے بعد پھر سے تروتازہ ہونے کالمبایاچھوٹاموقع ضرور دیتی ہیں۔تاکہ تھکن دُور ہونے اَور سستانے کے بعد آتشی شغل تازہ دم ہوکر میدان میں آے۔
اَمن نام کی دوشیزہ ہمیشہ بداَمن دیو کے ہاتھوں یرغمال ہوجاتی ہے۔جنگوں نے من مرضی کے امن قائم کیے اَور بدامنیوں کو مقدس ناموں سے نوازا۔دُنیا کی اکثر جنگوں کو مذہب،دیوی دیوتاوں اَور خداوں سے جوڑ کر پیش کیا گیا۔ دُنیا کے سارے فساد اَور بداَمنیاں مارکیٹ سے سستے داموں انسانی وسائل خریدتی ہیں اَور بارُدو کو سونپ دیتی ہیں۔
جنگوں کو قائم رکھنے کے لیے کچی نوعمر کھیتوں میں فساد کابیج مقدس لفافوں میں لپیٹ کر لایا جاتاہے اَور لاکر بویا جاتاہے۔فصل تیار ہوتی ہے تو کبھی اَپنی اَور کبھی پرائی درانتی سے کاٹ دی جاتی ہے۔موت مسکراتی ہے اَور زندگی بڑی بے چارگی سے اَفسردہ سانسیں لے کر رہ جاتی ہے۔
پربتوں کے درمیان تنگ اَور سبزے سے بھری گُزرگاہ پر ہم محو سفر تھے۔اَور پربت اَمن کو بلندہوے ،قہقہے لگاتے ،مسکراتے ان سب پھریروں کو حیرت سے دم سادھے دیکھ رہے تھے۔ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے ۔صدیاں گُزر گئیں ہم قدرت کے قائم کیے ہوئے ستون ہیں ۔ہم آپس میں اُلجھے نہیں ،سر سبز چوٹیاں بولیں ہم اپنی عظمتوں پر کبھی نازاں نہ ہوئیں ،بلند قامتی اَور عظیم ہونے کاغرور ہم نے کبھی پالا ہی نہیں ۔مگر چندفٹ کاایک بوناجسم اپنی تباہی کے لیے کیا کیاعفریت پالے بیٹھا ہے۔اتفاق کے نام پر نااتفاقی،مذہب کے نام پر فساد ،زندگی کے نام پرموت کاکھیل ۔۔۔۔۔اس سب کے باوجود انسان ۔۔۔۔پھر ہم سب سے اَشرف تر ہونے کالقب ۔۔۔پربتی سرگوشیاں زیر لب حیرت زدہ ہوئیں ،پریشاں ہوئیں اَور پھر ٹھٹھک کر رُک گئیں ۔ہم کافی آگے نکل آئے تھے۔ہماری گاڑیاں اَٹھ مقام کی حدود میں داخل ہو چکیں تھیں۔
اَٹھ مقام :۔
شب کے اَڑھائی بج رہے تھے اَوراَ؟ب ہم اَٹھ مقام پہنچ چکے تھے۔بائیں جانب چھوٹی سی چڑھائی کے بعد ڈگری کالج کے سامنے سڑک پر دائیں طرف ہمارا پہلا پڑاؤ تھا۔جنگل کے بیچ خوب صورت ڈاک بنگلہ ہماری منزل تھی۔اَندر داخل ہوئے تو کشادہ برآمدہ تھا۔اس کو بند کیا گیا تھا۔مگر یُوں کہ ایک برآمدہ اَور ایک وسیع و عریض راہ داری بہ یک وقت دونوں سمجھی جاسکیں۔علاوہ ایک بڑاہوادار دالان یابیٹھک بھی۔اس کو لکڑی کی جالی لگائی گئی تھی اَور جالی کی درزوں کو شیشوں کی مدد سے بند کر دیا گیا تھا۔
ڈاک بنگلے کی چھت پر جست کی سفید چادریں لگی ہوئیں تھیں اَور پورے ڈاک بنگلے میں دروازوں ،کھڑکیوں ،فرنیچر اَور سیلنگ سمیت ہر کام دیار کی لکڑسے کیا گیا تھا۔درو دیوار سمیت ہر جگہ سفیدی پھیری گئی تھی۔
صحن دو حصوں میں تقسیم تھا۔ایک میں انار اَور سیب کے درخت لگے ہوئے تھے۔انار نے ابھی پک کر سُرخ ہوناتھا۔ہم سات لوگوں کے لیے تین کمرے تھے۔دوکمروں میں دو ،دو لوگ اَور تیسرے میں تین لوگ ۔مجھے اَور اعجاز یوسف کو ایک دوبستروں والامستطیل نمابڑا کمرہ ملا۔فرش پر مناسب قیمت کاایک قالین بچھا تھا۔ایک الماری شمال مشرقی سمت میں آخر پہ لگی تھی۔دروازے کے ساتھ دائیں ہاتھ کونے میں دیوار کے ساتھ ایک چھوٹاسا دُور درشن (ٹیلی ویژن)لگاتھا۔ایک بوسیدگی اَور تھکن سی اُس کے حُلیے سے چھلک رہی تھی۔جیسے برسو ں کام کرنے اَور اس کمرے میں رنگ بھرنے کے بعداَب خود اُس کے رنگ پھیکے پڑ گئے ہوں۔شاید اُسے پتہ تھا کہ اَب وہ اَور اُس کے ہم عصر وں میں سے اَکثر کباڑخانوں میں رہ رہے ہیں۔اَگر یہاں دیکھ بھال نہیں ،گرد،دُھول اَور لاپروائی کے علاوہ مکمل بے گانگی ہے۔تو کباڑخانوں میں حالات اس سے بھی بُرے ہیں۔اَب بازار جدید ترین دُور بصروں (ٹیلی ویژنوں ) سے بھرے پڑے ہیں ۔جو کمروں کو ہی نہیں دل و دماغ کو دُور دُنیا کی سیر کراتے ہیں اَور اُن دُنیاوں کو بناو سنگھار کے ساتھ اَیسے پیش کرتے ہیں کہ اَصل نقل کے لیے ترس جائے۔جھوٹ برق پاروں کے دم خم پر بڑے طم طراق سے اَور زینت سے جلوہ گر ی کرتاہے۔تو اَیسے میں ایک بڑھاپا زدہ دُور نما (ٹی ۔وی )کہاں تک جیے گا۔ہم اُس کی اُداسی کوبھانپ گئے تھے۔ہر وہ شے جو خود کو زمانوں سے ہم آہنگ نہ کرسکے ۔زمانیں اُسے گر د سے اَٹے کباڑ خانوں کی نچلی منزلوں میں پھینک دیتے ہیں۔
غسل خانے کے ساتھ دیار کی لکڑی کے دو پلنگ پہلو بہ پہلو لگے تھے۔غسل خانہ اَور طہارت خانہ یہاں باہم شیر وشکر گُزر بسر کررہے تھے۔ایک یہاں ہی نہیں عہد حاضر کی جدید تہذیب نے یہ رواج ہر گھر کو دے رکھا ہے۔اَور عالی دماغ اس ہُنر کو بازار دُنیا سے خرید خرید کر گھر لائے ہوے ہیں۔ہو سکتا ہے کل غسل خانہ اَور طہارت خانہ (واش روم ) کل ارتقا کرکے شفا خانے کی سندبازار جدید سے حاصل کربیٹھیں ۔
کمرے میں پینٹ اَور لکڑی کی ملی جُلی بُو پھیلی ہوئی تھی۔مَیں نے الماری کھولنا چاہی تو اُس کے پٹ ضدی بچے کی طرح بہ ضد ہوگئے کہ نہیں کھلیں گے۔شاید ایک زمانہ گُزر گیا کہ انھیں کھولا نہیں گیااَور اَب وہ ناراض ہوگئے تھے۔پلنگوں کے سامنے والی دیوار پر صوفہ لگاتھا۔درودیوار سے عہد کہن کی بُوباس آرہی تھی۔طرز تعمیر ،ٹھاٹھ باٹھ عہد قدیم کے کسی نقش گر کاپتہ دے رہے تھے۔پوری دیوار کے ساتھ کھڑی الماری بالکل خالی تھی۔کسی رنگ ساز نے رنگ کرتے کرتے اس کے تالوں پر بھی پرش پھر دیا تھا۔صورت حال ذمہ دار لوگوں کاپتہ دے رہی تھی۔مَیں اَٹھ مقام دس سال قبل آیاتھا۔تب سردی لگ رہی تھی۔موسم یہی تھا۔مگر اَب ایک پنکھا چھت میں اٹکا ہوادے رہا تھا۔
وُضو کر کے نماز پڑھی ۔راہ داری پار کرکے کمرہ نمبر دو میں گیا تو عاشق صاحب ،کاشف نذیر اَور عمران رزاق مجلس سجائے بیٹھے تھے۔جب آرام کرنے کو کہا تو بولے نمازفجر پڑھ کر سوئیں گے۔عاشق صاحب بازار جاناچاہتے تھے ۔مگر کاشف نذیرنے موبائل سے ڈرافٹ بورڈ کھولا اَورسامنے رکھ دیا۔اعجاز یوسف نماز کر اِسی کمرے میں آگئے ۔مَیں کھیل کی یہ مجلس چھوڑ کر صحن میں چلا آیا۔بنگلے کے سامنے دریا کی سمت ،برآمدے کے آگے چند سیڑھیاں اُتر کر نشیب میں دُوسراصحن تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں