• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کراچی کے سُلگتےمسائل اورمرتضیٰ وہاب صدیقی کا امتحان/شیر علی انجم

کراچی کے سُلگتےمسائل اورمرتضیٰ وہاب صدیقی کا امتحان/شیر علی انجم

گزشتہ مردم شماری میں کراچی شہر کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ سے زائدبتائی  گئی تھی  اور حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 1 کروڑ 91 لاکھ 24 ہزار ریکارڈ ہوئی ہے۔ کراچی کے سٹیک ہولڈرزاور کچھ غیرسرکاری ادارے اس اعداد و  شمار کو تسلیم کرنے سے انکارکرتے ہیں۔ اُن کا الزام ہے کہ کراچی کی آبادی کو سازش کے تحت کم دکھایا  گیاہے۔ جس کا مقصد کراچی کے شہریوں کوبنیادی  سیاسی معاشی  اور انتظامی حقوق سےمحروم رکھنا ہے، کیونکہ کراچی میں روزگار،تعلیم کیلئے دوسرے شہروں سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے، جس کی   تفصیلات حکومت کے پاس نہیں۔ البتہ آباد ہوتے  کراچی کے  پہاڑی علاقے،کچی آبادیاں، ہاؤسنگ سوسائٹیز اور بے ہنگام ٹریفک اس بات کی گواہی دے رہے  ہیں    کہ کراچی پر بوجھ  بڑھ رہا ہے ۔

کراچی میں بلدیاتی حکومت کے آغاز کا اگر مختصر جائزہ لیں تو بلدیاتی نظام کی شروعات 1933 سے ہوئی ، اور جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے میئرمنتخب ہوئے، جنہیں آج بھی بلدیات کا  بانی کہا جاتا ہے۔جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے  مرحوم عبدالستار افغانی دو بار میئر کراچی منتخب ہوئے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار کو کراچی کے کم عمر ترین میئرہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جنرل پرویز  مشرف کے دور حکومت  میں جماعت اسلامی کے مرحوم  نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے پہلے ناظم اور تیئسویں مئیر کا حلف اٹھایا۔ اسی طرح سال 2005  میں ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے مصطفی کمال نے ناظم اعلیٰ کی سیٹ سنبھالی اور 2015  میں ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے وسیم اختر میئر کراچی منتخب ہوئے اور30 اگست2020  کو ان کی مدت ختم ہوئی۔

حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو پہلی بار کراچی شہر کا  نظام چلانے کا موقع ملا ہے اور کراچی سےہی تعلق رکھنے والے مرتضٰی وہاب صدیقی مئیر کراچی منتخب ہوئے ہیں ۔ اس انتخاب کے حوالے سے جماعت اسلامی  سمیت دیگر جماعتوں کو شدید تشویش بھی ہے وہ الگ موضوع ِ بحث ہے۔ اس وقت دیکھنا یہ ہے  کہ مرتضٰی وہاب کراچی شہر   کو اس کی حیثیت کے مطابق سنوارتے ہیں یا سیاسی لڑائیوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ کیونکہ گزشتہ 40 برسوں میں کراچی کا شہری پھیلاؤ  دوگنا ہوچکا  ہے لیکن  انتظامی نیٹ ورک نہ ہونے کے برابر ہے۔غیر ملکی اخبار بلومبرگ میں نومبر 2020 کو شائع ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے100شہروں میں موجود ٹرانسپورٹ کے نظام میں کراچی کا نظام بدترین ہے۔کہتے ہیں کراچی میں سڑکوں کا جال تقریباً دس ہزار کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے لیکن ان سڑکوں کا شاید بیس فیصد حصہ ایسا نہیں جو شہر کی ضرورت اور عالمی معیار کے مطابق تعمیر کرکے دیکھ بھال ہورہی  ہو۔یوں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ کراچی کے مسائل کے  حل کیلئے جن افراد کو مینڈیٹ ملا  تھا  اُنہوں نے اپنے لئے تمام قسم کی آسائشوں کے  انتظامات مکمل کرکے کوئی اندورون اوربیرون ملک سیٹل ہوگئےلیکن  کراچی کو لاورث چھوڑ دیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت اوراس شہر کی بدقسمتی ہے کہ اس شہر کو ماضی سے لیکر آج تک جہاں پاکستان پیپلزپارٹی نے دیوار سے لگائے رکھا ،وہیں وفاق پاکستان نے بھی کراچی کی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا۔  اب پاکستان پیپلزپارٹی کو براہ راست کراچی کا  اقتدار مل چکا  ہے،یوں دیکھنا یہ ہے کہ مرتضٰی وہاب اس شہر کو   درپیش مسائل کا کس طرح تمام سیاسی حریفوں اور قوموں کو لیکر تدارک کرتے ہیں کیونکہ کراچی چلے گا تو مُلک چلے گا۔

مرتضیٰ وہاب کو اولین ترجیحات  پر  غور کرنا چاہیے، کہ اس شہر میں سیوریج اور  کچرا اٹھانے کا نا قص انتظام، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا اور برساتی نالوں پرلامتناہی تعمیرات(سپریم کورٹ کی جانب سے حالیہ نوٹس کے بعد تجاوزات کے  خاتمے کیلئے کچھ حد تک کام ہورہا ہے)، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کی بحالی، سرکاری ہسپتالوں کی خستہ حالی،نجی ہسپتالوں کی لوٹ مال، بدترین لوڈشیڈنگ کے   خاتمے کیلئے    ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح لینڈ مافیا اس وقت کراچی میں ایک سٹیک ہولڈر بن چُکی ہے جو راتوں رات غریبوں کی زندگی بھر کی جمع پونچی سے خریدے پلاٹس پر قبضہ کر لیتے ہیں اور متاثرین کو کوئی پوچھنے والا نہیں(راقم بھی لینڈ مافیا کے ہاتھوں اورسیز کی کمائی لوٹ کر بیٹھا   ہے )۔

حکومت سندھ نے پیپلز بس سروس کے نام سےنئی بس سروس کا آغاز کردیا ہے لیکن ان بسوں کے معیار کی  سڑکیں  کراچی میں نہیں اور اس قسم کے تجربات مصطفی کمال کے دور میں بھی سڑکوں کو  بہتر بنائے بغیر کیے گئے تھے، وہ بسیں آج بھی لاورث کھڑی گل سڑ رہی ہیں ۔لہذا سڑکوں کی مسلسل مرمت  اور توسیع ایک سنگین مسئلہ ہے جس کی طرف  توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پیپلزبس سروس کی کامیابی کیلئے ضروری ہے  کہ ٹریفک پولیس شہر میں بغیر کسی فٹنس سرٹیفکیٹ اور لائسنس کے چلنے والے تمام کوسٹر، اور منی بسوں کے خلاف کریک ڈاؤن کریں۔ شہر میں ٹریفک کو رواں  رکھنے کیلئے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی گھنٹوں تک جام رہنا معمول بن گیا  ہےیوں شہریوں کا روزانہ کم و  بیش قیمتی تین گھنٹے سڑکوں پر ضائع ہوجاتے ہیں   جو کہ مہذب قوموں میں المیہ سمجھا  جاتا  ہے۔

لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ اس وقت کراچی میں پارکنگ مافیا کا راج ہے ۔ آپ شہر کے کسی بھی علاقے میں چلےجائیں، کہیں بھی جگہ جا  کر کسی شاپنگ مال، مارکیٹ ،دفاتریا گلی میں بھی گاڑی یا موٹر سائیکل پارک کر دیں تو کوئی نہ کوئی چھلاوے کی صورت نمودار ہوگا، خود کو اس سڑک کا ’ذمہ دار‘ ظاہر کرے گا اور آپ کو پابند کرے گا کہ آپ پارک کرنے کی فیس موٹر سائیکل کیلئے بیس/ اور تیس جبکہ گاڑی کیلئے سو/ ایک سو  پچاس روپے ادا کریں جوکہ روزانہ کروڑوں میں  بنتا ہے لیکن یہ رقم سرکاری خزانے کے بجائے مافیا کی  جیب میں جارہی  ہے۔شہر کے تمام شاپنگ مال، کاروباری مراکز، دفاتر، مارکیٹس اور تفریحی مقامات کے قریب پارکنگ مافیاباقاعدہ جو ایک باضابطہ طور پر وضع کردہ نظام کے تحت اپنا دھندہ کرتے ہیں جس میں انہیں مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کی سرپرستی حاصل ہوتی  ہے اور پولیس کی موبائل  ان تمام پارکنگ کے مقامات پر باقاعدہ پٹرولنگ کرتے ہیں اور ہفتہ وصول کرتے  ہیں۔ اگر شہر میں پارکینگ کی آمدنی کو قانون کے مطابق کیاروزانہ کروڑوں کی آمدنی ہوسکتا ہے ۔ شہر میں ڈاکو راج  اور اشیائے خوردنوش  کی قیمتوں کی مانیٹرنگ نہ ہونا بھی سنگین مسلہ ہے اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کئی علاقوں میں گزشتہ سال کی بارشوں سے ٹوٹ پھوٹ ہونے والے سڑکوں کی آج تک بحالی نہیں ہوئی ہے ۔شہر کی صفائی پر اگر بات کریں تو اس کام کیلئے کئی ہزارکی تعدادمیں لوگ سرکاری خزانے سے تنخواہ وصول کرتے ہیں لیکن انکا وجود رمضان کے عید،بکرا عید،محرم اور بیع اول میں کہیں نہ کہیں نظر آتا ہے۔اسی طرح صحت و تعلیم کی سہولیات کی کمی، پینے کے صاف پانی کا مسلہ، بجلی کی شدید کمی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، شہر میں کھلی جگہوں اور کچی زمین کی کمی اور ساتھ ہی ، شہری سیلاب کا مسئلہ اور نشیبی مقامات اور نکاسی آب مسدود کرنے والے مقامات کی نشاندہی وغیرہ توجہ طلب ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لہذاوقت کا تقاضا ہے کہ شہرکراچی میں منصوبہ بندی کے تحت بنیادی ڈھانچے اور انتظامی معا ملات میں بہتری لانے کیلئے جامع پالیسی بنائیں۔ جس کیلئے مناسب فنڈز اور متعلقہ پیشہ ور افراد اور ماہرین کی شمولیت ضروری ہے۔مرتضیٰ وہاب اگرشہر کی آمدنی کو بروئے کار لاتے ہوئے شہر کے وسائل شہر پر خرچ کرتے ہیں تو کراچی سنگاپور،ہانک کانگ اور استنبول اور دبئی بن سکتا ہے جس کیلئے اُنہیں اس شہر کے تمام اسٹیک ہولڈر کو  ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply