تعلیم اور نوکری میں فرق جانیے۔۔۔۔ شجاعت بشیر عباسی

ایک عام ضرورت مند آدمی جب بھی کوئی کامیاب فرم یا ادارہ دیکھتا ہے تو سوچتا ہے کہ  یہاں مجھے نوکری کیسے ملے گی۔جب کہ  خاص آدمی اسی فرم یا ادارے کے متعلق یہ سوچتا ہے کہ  میں اسے کیسے خریدوں یا اس جیسا بزنس کیسے شروع کروں۔
عام دماغ ہمیشہ نوکر بننے کی سوچتا ہے بے شک وہ کتنا ہی پڑھ لکھ کیوں نا  جائے۔جبکہ خاص دماغ ہمیشہ مالک بننے کی جستجو کرتا ہے بے شک اس کا کاروبار چھوٹا ہی کیوں نا ہو۔
آج آپ کسی بھی نوجوان سے اس کے مستقبل کی پلاننگ کا پوچھیں تو اسکا یہی جواب ہو گا کہ  میرا ٹارگٹ اچھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فلاں ادارے یا فلاں ملک میں نوکری کرنے کا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ  شاید ایک  فیصد  نوجوانوں کا جواب بھی اپنے کاروبار کے متعلق یا پھر اپنی تعلیم کو بطور ریسرچ کام میں لانے کا نہیں ہو گا۔
دوران تعلیم بھی اچھے نمبرز کی دوڑ صرف اسی لیے ہوتی ہے کے اچھے نمبر لو تا کہ کوئی اچھی جاب آفر ہو سکے۔
ہمارے یہ نوکری پسند نوجوان ساری زندگی اس رجحان سے باہر نہیں نکل پاتے اور اپنی اگلی نسل کو بھی یہی سوچ دے کے چپ چاپ ایک ہی ادارے میں اپنی ساری زندگی گزار کر مر جاتے ہیں۔
ایسے افراد کی زندگی میں کوئی رسک یا ایڈونچر نہیں ہوتا کچھ نیا کرنے کی، دنیا دیکھنے یا سمجھنے کی ان میں خواہش ہی پیدا نہیں ہوسکتی۔

ایک مشہور بزنس مین کا قول ہے کے نوکری صرف بزدل لوگ کرتے ہیں کیوں کہ  وہ صرف اس بات سے ڈر رہے ہوتے ہیں کہ  نوکری چھوڑی تو وہ بھوکے مر جائیں گے۔ان نوکروں کے پاس ایک اچھا آفس ایک چپڑاسی اور ایک گاڑی تو ہو سکتی ہے لیکن ان میں جذبات، وسعت قلبی، دنیا کی رنگینی، وقت کو اپنی مرضی سے گزارنے کی سہولت سونے جاگنے کی آزادی اور مختلف سفر کرنے اور زیادہ سے زیادہ جاننے سے محرومی ان کا مقدر رہتی ہے۔

ان کی سیلری ان کا کل اثاثہ ہوتی ہے ایک ایک روپے کو اپنے بجٹ کے اندر خرچ کرنے اور دس روپے بھی خرچ کرنے سے پہلے پورے مہینے کے اخراجات پر ان کو نظر   ڈالنی  پڑتی ہے۔
ایک دانشور کا قول ہے کہ  جو لوگ ایک ہی جگہ یا ایک جیسے سیٹ اپ میں ساری زندگی گزارتے ہیں وہ انتہائی محدود سوچ کے دائرے سے باہر نہیں نکل  پاتے ان کے پاس زندگی گزارنے کے تجربات بہت کم ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی طبیعت میں تنگ نظری بہت زیادہ ہو جاتی ہے ان کے رویے میں لچک اور فیصلہ سازی کی قوت انتہائی کم  ہوتی ہے حتیٰ کہ  وہ اپنے چھوٹے چھوٹے دیگر مسائل میں بھی تنگ نظری کا مظاہرہ کر جاتے ہیں جس سے ایک چھوٹا سا معاملہ بھی طوالت اختیار کر کے ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔
جبکہ اس کے برعکس جو لوگ نوکری نہیں کرتے وہ بے شک کم تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ  ہوں نوکری پیشہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کار ،زیادہ میل جول والے،زیادہ سوشل، زیادہ بات چیت والے،زیادہ جاننے والے  اور زیادہ فراخ دل ہوتے ہیں۔

یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ تر لوگ تعلیم کو ریسرچ کے لیے اور ہم تعلیم کو نوکر بننے کے حاصل کرتے ہیں۔
اس رجحان کا سب بڑا نقصان ہمیں یہ ہو رہا ہے کہ  ہماری کسی بھی صنعت یا کاروبار میں جدت پیدا نہیں ہو سکی اور آج بھی ہمارے کاروبار اور صنعتوں میں آپ کو وہی پرانے اور روایتی طریقوں کا استعمال نظر آ رہا ہو گا۔
مثال کے طور پر آپ سبزی کو ہی لے لیں ہمارے کاشتکار اسی روایتی طریقے سے کاشتکاری کرتے ہیں جس سے پیداور کا ایک بڑا حصہ ضائع ہونے سے نا صرف کاشتکار غریب ہے بلکہ اتنا بڑا زرعی ملک بمشکل صرف اپنی  ضروریات ہی پوری کر پاتا ہے جب کہ  اس کے برعکس اسرائیل جیسا چھوٹا سا ملک اس شعبے میں تعلیم کے  ذریعے ریسرچ کر کے اپنی سبزیوں کی چار گنا زیادہ پیداور حاصل کر کے پورے یورپ کو سبزی فراہم کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ اور دیگر شعبوں کی طرح اس شعبے میں بھی جدت لاتے ہوئے  اپنی معیشت میں استحکام لانے میں کامیاب ہوا ہے۔

قاسم علی شاہ کا کہنا ہے کہ  آپ نوکری ضرور کرو لیکن صرف کچھ عرصے کے لیے اور یہ نوکری بھی اس شعبے میں ہونی چاہیے  جس کے متعلق آپ نے سوچ رکھا ہو کہ  چند ماہ یا چند سال بعد اس شعبے میں اپنا کاروبار کروں گا مطلب یہ کچھ عرصے کی نوکری صرف تجربات کے لیے کی جانی چاہیے نا کہ  کولہو کے بیل کی طرح ساری زندگی کے لیے اسی شعبے میں جت جائیں۔
پاکستان میں اس وقت بھی بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو اعلی تعلیم مکمل کر چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں ریسرچرز کتنے بنے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ نوجوان کس شعبے میں جدت لا سکے؟۔۔ ان تعلیم یافتہ نوجوانوں سے ملک کتنا آگے بڑھا؟
انسانیت کی بہتری اور آسانی کے لیے یہ نوجوان کیا ایجاد کر پائے؟
ہمیں سوچنا ہو گا کہ  ہم اپنے بچوں کو تعلیم نوکر بننے کے لیے تو نہیں دے رہے؟
اگر ایسا ہی ہے تو اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت صرف ہمیں ہی نہیں ہمارے ملک کو بھی ہے
اور یہی وہ واحد سوچ ہے جو ہمارے ہر شعبے میں حقیقی تبدیلی اور بہتری اور جدت لا سکتی ہے۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply