• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خواہش، تکمیلِ خواہش اور ربوبیت۔۔ڈاکٹراظہروحید

خواہش، تکمیلِ خواہش اور ربوبیت۔۔ڈاکٹراظہروحید

بھیرہ سے محمد رمضان صاحب کا ایک ریڈیائی خط ( ای میل ) موصول ہوا۔ خط کیا ہے‘ ایک لمبا چوڑا سوال ہے‘ بلکہ ایک سوالنامہ ہے۔ لکھتے ہیں: ” السّلامُ علیکم! سر! ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی، اللہ پاک یقیناً ستّر (70 ) ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ جب بچہ اپنے والدین سے اپنی چھوٹی سی خواہش کا اظہار کرتا ہے اور والدین اسے پورا نہ کر سکیں تو یہ کتنا تکلیف دہ واقعہ ہوتا ہے۔ اب اس انسان کے لیے‘ جس کا رب اس سے ستّر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘ یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے سخت تکلیف میں روتا ہے، چلّاتا ہے، التجا کرتا ہے، فریاد کرتا ہے تو سب رائیگاں کیوں چلا جاتا ہے۔ آخر بندہ کدھر جائے؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے بہت سی نعمتیں بن مانگے دی ہوئی ہیں، یقیناً ایسا ہی ہے، لیکن جو بیمار ہو گا وہ تو صحت ہی مانگے گا، اس کے لیے باقی ساری آسائشیں بے معنی ہوں گی۔ اس معاملے میں رہنمائی فرمائیے“۔

یہ بہت اچھا سوال ہے، ماں اور بچے کی مثال دے کرسوال مزید بہتر ہو گیا ہے۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ماں کے ذِمّے بچے کی ربوبیت ہے۔ ماں ہر وہ کام کرے گی جو اُس کے بچے کی ربوبیت کی بابت ضروری ہے اور وہ ہر اُس کام سے بچے کو منع کرے گی جو اُس کی دانست میں بچے کے مستقبل قریب یا بعید میں اُس کی صحت، زندگی اور سلامتی کے لیے کسی خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ماں کے لیے بچے کی خواہش پورا کرنا اتنا اہم نہیں جتنا اُس کی ربوبیت ضروری ہے۔ رب تعالیٰ کی اپنے بندے کے لیے رحمت، محبت اور ربوبیت کو سمجھانے کے لیے یہ پیمانہ بتایا گیا ہے کہ وہ ماں سے ستّر گنا زیادہ شفیق اور مہربان ہے۔ ماں افراط و تفریط کا شکار ہو سکتی ہے، وہ محبت کے جذبے سے مغلوب ہو کر غیرعادلانہ فیصلے بھی کر سکتی ہے، لیکن رب العالمین کی ذات جو الحکیم بھی ہے، اُس سے کسی غیر عادلانہ فیصلے کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی ہے۔ ماں کی توجہ بچے کی پرورش پر ہوتی ہے، عین ممکن ہے‘ تربیت پر نہ ہو۔ جبکہ رب العالمین اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمہ حال متّصف ہے، اُس کی کوئی صفت کسی دوسری صفت پر غلبہ نہیں پا سکتی۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ اُس کی رحمت اُس کے غضب پر سبقت لے جاتی ہے تو یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غضب کیا ہےاور رحم کیا ہے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ نے یہ پیراڈاکس ہمیں یوں سمجھایا ہے کہ اگر وہ ہمارے اعمال کے مطابق ہمارے ساتھ سلوک کرے تو یہ غضب ہو جائے گا، اگر وہ انصاف کرے تو غضب ہو جائے گا۔ یعنی اگر وہ ہمیں ہمارے اعمال کے حوالے کر دے تو یہ غضب ہے، اگر اُس نے ہم سے اپنی نعمتوں کے بارے میں پرسش کی تو یہ گویا قیامت کا دن ہے۔ آپؒ نے فرمایا ”عاقبت اُس دن کو کہتے ہیں‘ جب محسن اپنی نوازشات کا حساب مانگ لے“ قیامت کا دن یومِ حساب ہی تو ہوتا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ اُس کی رحمت ہر شے سے زیادہ وسعت رکھنے والی ہے۔ حدیثِ قدسی میں بتایا گیا ہے “رَحمَتِی وَسِعَت کُلّ شَئی” یہ اُس ذات کی مہربانی ہے کہ وہ اپنی مخلوق سے معاملہ رحمت کے ساتھ کرتا ہے، بلکہ کمال مہربانی یہ ہے کہ اُس نے اپنے محبوب ﷺکو رحمتِ للعالمین بنا کر اپنی مخلوق میں مبعوث کر دیا۔ رحمت اور شفاعت ہمیں اُس کے عدل وانصاف کی سختی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس مضمون میں میاں محمد بخشؒ کا شعر یہاں بہتر تفہیم دے گا:
عدل کرے تے تھرتھر کنبن اُچّیاں شاناں والے
فضل کرے تے بخشے جاون میں جئے وی منہ کالے
رحم اور فضل کے بارے میں بھی جان لیں۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کا قول ہے” رحم اُس فضل کو کہتے ہیں جو انسانوں پر اُن کی خامیوں کے باوجود کیا جاتا ہے“

اب خواہش کا سُن لیں۔ خواہش اِس محدود عالمِ کون و مکان میں ہماری محدود سوچ کی ایک بازگشت ہے۔ خواہش اِس جہانِ امکان میں ہمارے خیال کی آوارہ گردی ہے۔ ہم چاہتے ہیں— اور چاہتے ہی رہتے ہیں، کبھی یہ چاہتے ہیں، کبھی وہ چاہتے ہیں۔ ہم سوچتے رہتے ہیں — یہ ہو جائے تو وہ ہو جائے گا، وہ ہو جائے تو یہ ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا، یہ نہ ہوتا تو وہ ہو جاتا اور اگر وہ یوں نہ ہوتا تو پھر یہ یوں ہو جاتا — بس اِس ”یوں یوں“ کا نام ہے خواہش!!

اللہ‘ مالک الملک‘ خالق و حکیم ذات نے بتایا ہے— حالانکہ وہ یہ بات بتانے کا پابند نہ تھا —عین ممکن ہے تم اپنے لیے وہ شَے ناپسند کرو جو تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے تم وہ شَے پسند کرو جس میں تمہارے لیے شر ہو ۔

ممکن ہے‘ ماں اپنے بچے کی کوئی خواہش پورا کرنا چاہے اور پورا نہ کر سکے لیکن قادرِ مطلق ہر چیز پر قادر ہے، وہ اسباب وعلل کا محتاج نہیں۔اسے ہر چیز پر قدرت حاصل ہے، وہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے۔ ماں اور ماں کو پیدا کرنے والی ذات کا باہم تقابل ممکن ہی نہیں — مخلوق کا خالق سے کیا تقابل، کیا مقابلہ— صرف تمثیل کے انداز میں بات کی جا سکتی ہے۔ ماں بھی اپنے بچے کی ہر خواہش پورا نہیں کرتی— بچہ چھری مانگتا ہے‘ ماں اُسے نہیں دیتی، بچہ خواہش کرتا ہے کہ ماچس اس کے ہاتھ میں دے دی جائے، بچہ روتا ہے، چلّاتا ہے، فریاد کرتا ہے لیکن ماں کے سامنے اُس کا سارا رونا دھونا رائیگاں چلا جاتا ہے۔ بچے کی صحت خراب ہے، بچہ خواہش کرتا ہے کہ اسے ٹھنڈی بوتلیں، جوس اور چپس دیے جائیں لیکن ماں اسے نہیں دیتی، کیونکہ وہ بچے کے حق میں شفیق ہے۔ اُسے بچے کی زندگی اور صحت مطلوب ہے۔ بچہ ٹیکہ نہیں لگوانا چاہتا، ماں ڈاکٹر سے کہہ کر اسے ٹیکہ لگواتی ہے،اسے تکلیف سے گزارتی ہے— کیونکہ اسے بچے کی فلاح مطلوب ہے۔ بچہ اسکول نہیں جانا چاہتا، علی الصبح اپنے نرم گرم بستر سے اٹھنا ہی نہیں چاہتا، ماں اُسے بستر سےکھینچ کر اُٹھا دیتی ہے، بچہ ماں کاحکم ماننے میں پس و پیش کرے تو ماں— شفیق ماں—جو اپنے بچے کو روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی — اپنے بچے کو چپت بھی رسید کرتی ہے۔ ایک عقل مند ماں اپنے بچے کو اُس کی خواہشوں کے حوالے نہیں کرتی، کیونکہ اسے اپنے بچے کی تربیت مقصود ہے۔کسی بچے سے پوچھیں کہ ماں نے اُس کی کس کس خواہش کا خون کیا ہے۔ عین ممکن ہے ‘یہ بچہ بھی (pica) پائکا نامی بیماری کا شکارہو — بچوں کی ایک ایسی بیماری جس میں بچہ اصل غذا کی بجائے مٹی وغیرہ کھانے کی طرف رغبت کرتا ہے — ہم میں سے اکثر پائکا کا شکار ہیں، صحت مند غذائی سرگرمیاں چھوڑ کر غیر صحت مندانہ سرگرمیاں اختیار کرلیتے ہیں۔ ہماری ہر خواہش مٹی ہے۔ بچہ یہی کہے گا کہ ٹھیک ہے ‘ماں نے طرح طرح کے کھانے کھلائے‘طرح طرح کی نعمتیں مہیا کی ہیں‘ لیکن میری ضروت تو مٹی ہے‘ مجھے مٹی چاہیے۔ ماں اپنے بچے کو مٹی نہیں کھانے دے گی، اسے معلوم ہے‘ مٹی کھانے والا مٹی میں رُل جائے گا، مٹی میں مِل جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ ظاہر و باطن میں اللہ ہے— وہ ظاہر و باطن کا رب ہے— رب العالمین ہے— وہ بندے کے ظاہر و باطن کی ربوبیت کرتا ہے۔ اسے اپنے بندے کے جسم کی پرورش کے ساتھ ساتھ اُس کی روح اور نفس کی تربیت و ربوبیت بھی مطلوب ہے۔اُس کے پیشِ نظر بندے کی وہ زندگی بھی ہے جو لامتناہی ہے۔ اُس لامتناہی زندگی میں سرمدی خوشی دینے کے لیے اُس نے اپنے بندے کی اِس عارضی زندگی میں روح کی ربوبیت کا سامان بھی کیا ہے۔ اُس نے اپنے رسولوں کو بیغام ِفوز وفلاح دے کر بھیجا— اور رسولوں کے سلسلے کے آخر میں اپنے محبوب رسول ﷺ کو نسخۂ کیمیا دے کر بھیجا، اُس نے کتابِ ہدایت کو ہادیؐ کے ساتھ بھیجا— اِس میں اُس کے بندوں کی ظاہری اور باطنی ربوبیت کا کامل سامان موجود ہے۔ بندے کی جو خواہشات اُس کے حق میں ضرر رساں ہیں‘ اِس پیغامِ ہدایت میں اُن کی نشاندہی موجود ہے۔ یہ اُس ذات کی کمال مہربانی اور شفقت ہے کہ انسان کی تمام خواہشات پوری نہیں ہوتیں، وگرنہ وہ اپنے لیے ہلاکت کا سامان اکٹھا کر لیتا، اپنے اختیار کے ہاتھوں وہ خود کو ہلاکت میں ڈال دیتا — اپنے لیے ایسی زندگی کا انتخاب کر لیتا جس کے بعد اور مابعد میں اسے ایک نہ ختم ہونے والا پچھتاوا حاصل ہوتا۔ انسان اگر خود کو اپنی خواہشوں کے حوالے کر دے تو اُس کا نظامِ فکر اور نظامِ زندگی دونوں مفلوج ہو کر رہ جائیں۔ اگر انسان اپنی کسی تمنّا کو پورا نہیں کر پا رہا، یا اپنی تمام تر کوشش اور دعا کے باوجود اُس کی کوئی خواہش ناتمام ہو رہی ہے تو اُسے چاہیے کہ اِس پر ناخوش و بیزار نہ ہو‘ بلکہ اپنی ناکام اور ناتمام تمناؤں کو مالکِ حقیقی کی حکمتِ تامہ سمجھے اور اپنے حق میں اسے پیغامِ حکمت و معرفت جانے۔ سند اِس بات کی دَرِ علمؑ سے میسر آنے والا یہ قولِ حکمت ہے ”میں نے اپنے رب کو پہچانا ‘ارادوں کے ٹوٹنے سے“۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply