نوجوان لڑکوں میں چاقو لے کر گھومنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے تشدد اور چاقو زنی سے کیے گئے قتل کی کئی وارداتیں خبروں میں آتی ہیں۔ ایسی بھیانک وارداتوں کا شکار ہونے والے کئی خاندانوں کی زندگیاں تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ شماریات کے مطابق گزشتہ 10 سال یعنی 2012/13 اور 2021/22 کے دوران چاقو زنی کے جرائم میں 75% اضافہ ہوا ہے۔ لندن میں 2022/23 میں 112 قتل کی وارداتیں ہوئیں جب کہ نارتھ ویسٹ میں مانچسٹر سمیت 79 قتل کے کیسز سامنے ائے ہیں ۔ گو کہ بلیک پول جرائم کے حوالے سے کافی غیر محفوظ جگہ ہے۔ لیکن اگر مانچسٹر کو لندن ، لیور پول اور برمنگھم سے موازنہ کیا جائے تو مانچسٹر میں جرائم کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ مانچسٹر میں 2022/23 میں کرائم ریٹ ایک ہزار افراد میں سے 118.29 تھا۔ مانچسٹر میں ہر سال 200,000 کرائم رپورٹس پریس کو موصول ہوتی ہیں۔
مانچسٹر میں تحفظ کے خدشات واضح طور پر بڑھ گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات ، منشیات کے بڑھتے ہوۓ استعمال کی وجہ سے نوجوانوں میں اشتعال انگیزی پھیل رہی ہے۔ رات کے اندھیرے کے علاوہ دن دہاڑے روڈ ریج کے واقعات میں تشدد کی وارداتیں شہر میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہیں۔ صورتحال مزید تشویش ناک تب ہو جاتی ہے جب ایسے جرائم ایشین کمیونٹی کے نوجوان کر رہے ہوں تقریبا 10 روز قبل ایک ہولناک قتل کی واردات سامنے آئی جس میں ایک کار میں سوار چار پاکستانی نژاد نوجوان لڑکوں نے ایک دوسرے پاکستانی نژاد 30 سالہ مرد کو دن کی روشنی میں چلتی سڑک پر گاڑی روک کر چاقو کے حملوں سے قتل کر دیا جب دونوں فریقین اوورٹیکنگ پر غصے کے باعث چلتی سڑک پر گاڑیاں روک کر ایک دوسرے سے مڈ بھیڑ ہوئے۔ مقتول چاقو کے حملوں کی تاب نہ لا سکا اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ایمبولنس میں دم توڑ دیا۔ جب کہ ان چاروں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ دونوں خاندانوں کے لیے انتہائی دکھ اور تکلیف کا دور ہے جو کہ عمر بھر ختم ہونے والا نہیں۔
بہت سے بنیادی عوامل ہیں جو چھری چاقو ساتھ رکھنے اور استعمال کرنے میں شامل سماجی اور مجرمانہ رویے کا باعث بنتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کے ساتھ اعتماد اور دوستانہ ماحول بنائیں ان کے دوستوں اور ان کی سرگرمیوں کی خبر رکھیں۔ ان کی ان لائن سرگرمیاں پر بھی کنٹرول رکھیں۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا ، ان کو صحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل کرنا، ان کو چھٹیوں پر لے جانا اور ان کے ساتھ خوش باش وقت گزارنا بہت ضروری ہے۔ نہایت اہم امر ہے کہ گھر کا ماحول بھی خوشگوار اور صحت مندانہ ہو ، والدین کے درمیان کسی قسم کا جھگڑا اور تناؤ نہ ہو کیونکہ اس کا اثر بچوں پر لازمی پڑتا ہے۔ والدین اور سکول ٹیچرز اس بات کی خبر رکھیں کہ کوئی بھی بچہ دوسرے سٹوڈنٹس سے ہراسگی کا شکار نہ ہو ۔ گینگز اور گروپوں کی اپس میں لڑائی اور تشدد بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ضروری ہے کہ یوتھ کے لیے پرائمری اور سیکنڈری سکول کے سطح پر مینٹور شپ اور گائیڈنس کے پروگرام مہیا کیے جائیں تاکہ ان کی ذہنی نشونما اور ترقی ہو اور ابتدائی سٹیج پر مداخلت کسی بڑے خطرے سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ بچوں کے لیے آرٹس، سپورٹس اور مفت میوزک کلاسز کا انتظام کیا جائے۔ ان کے لیے مختلف فنون میں بھارت اور ٹریننگ اور سپورٹ کے پروگرام مرتب کیے جانے چاہیے ۔ تاکہ نوجوانوں کی ہارمونل تبدیلی اور دوسرے سماجی عوامل کی وجہ سے ان کے اندر بڑھتے ہوئے اشتعال یا غصے کو نرمی کی لہر میں تبدیل کیا جا سکے اور وہ اپنے اندر کے جذبات کو آرٹس اور سپورٹس ایکٹیوٹیز میں استعمال کریں اور اس میں مہارت حاصل کریں۔ اس کے علاوہ سکولوں میں اس طرح کے سیشنز بھی رکھنے چاہیے جہاں بچے ان سچی کہانیوں کو سنیں کہ کس طریقے سے چاقو کے جرائم کا شکار ہونے والے خاندان کس بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں تاکہ ان کے اندر ہمدردی کے جذبات پیدا ہوں۔
کمیونٹی اور پولیس کے درمیان اعتماد کی سطح بہت کم ہے خاص طور پر یوتھ اور پولیس کے درمیان ایک پر اعتماد تعلق اور رشتے کی اہمیت پر کام کرنے کی ضرورت ہے اس کی وجہ سے قانون کے اطلاق میں اسانی ہوگی۔ اس قسم کے نوجوانوں میں ایک رویہ پایا جاتا ہے کہ وہ ہتھیار رکھنے اور استعمال پر گرفتاری اور طویل سزا سے نہیں ڈرتے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ چاقو چھریاں اور ہتھیاروں کی فروخت پر سخت سے سخت تر قوانین اور ان کا اطلاق لازم بناۓ اور چاقو زنی کے جرائم پر کڑی سزائیں دی جائیں۔ تاکہ عوام میں جرائم کے خلاف ایک موثر اور مضبوط پیغام پہنچے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں