پاکستان میں خواتین کی سیاست میں انٹری اس ملک کے وجود میں آنے کے ساتھ ہو گئی تھی اور اس بات کی اعلیٰ مثال قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح ہیںجنہوں نے پہلی خاتون قائد حزب اختلاف کے طور پر خدمات انجام دیں۔فاطمہ جناح کی مستقل موجودگی اس وقت کی خواتین کے لئے حوصلے کی علامت تھی اور اس میں یہ پیغام بھی تھا کہا خواتین کو سیاست میں برابر کی شرکت کرنی چاہیے جس کی وجہ سے مسلم خواتین نے تحریک ازادی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور ہمیں یاد ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی تحریک میں حصہ لینے کے لئے کس طرح خواتین کی حوصلہ افزائی کی تھی جس کے بعد برصغیر کی خواتین نے جوق در جوق ازادی کی تحریک میں حصہ لینے لگیں اور اپنے گھروں سے باہر نکلیں. جب تحریک پاکستان نے زور پکڑا تو یہ خواتین پاکستان کے قیام کے لیے ہونے والے مظاہروں اور تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتی رہیں بالخصوص مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کی طلباء کا کردار قابل تحسین رہا۔
پاکستان میں خواتین کی آبادی تقریباً 49 فیصد ہے، پھر بھی ان کے پاس سینئر، ایگزیکٹو، یا قانون سازی کے کرداروں میں بہت کم حصہ ہے جو کہ 4.5 فیصد، جو دنیا میں سب سے کم ہے۔ ہر 10 میں سے صرف دو پاکستانی خواتین لیبر فورس میں حصہ لیتی ہیں، جو خطے میں ایک بار پھر سب سے کم شرح ہے۔ 2018 کے انتخابات کے دوران، ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹرڈ 46 ملین خواتین میں سے صرف 40 فیصد نے ووٹ دیا۔
مرحوم جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے devolution of power plan متعارف کروایا گیا جس کے بعد سے خواتین کی مخصوص نشستوں کو بڑھا کر 60 کر دیا گیا۔ مثال کے طور پر، آرٹیکل 51 (4) کے تحت قومی اسمبلی میں خواتین کے لیے 60 نشستیں اور آرٹیکل 59 کے تحت سینیٹ آف پاکستان میں 17 نشستیں مخصوص ہیں۔ جبکہ آئین کے آرٹیکل 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی 168 نشستیں یعنی بلوچستان (11)، خیبرپختونخوا (26)، پنجاب (66) اور سندھ (29)۔ اسی طرح، الیکشنز ایکٹ، 2017 نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ عام نشستوں کے لیے امیدوار کھڑے کرتے وقت خواتین امیدواروں کی کم از کم پانچ فیصد نمائندگی کو یقینی بنائیں، جو کہ قانون ساز اداروں میں خواتین کی نمائندگی کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ترقی پسند پیش رفت ہے۔
شہید بے نظیر بھٹو خود میں ہی ایک اعلیٰ مثال ہے، 35 سال کی عمر میں وہ دنیا کی کم ترین وزیراعظم بنیں اور اپنے دور حکومت میں خواتین کے لئے بہت کام کیے۔ ان کا کہنا تھا ”عورت ہونا آسان نہیں ہے، خواتین لیڈرز کے لئے رکاوٹیں زیادہ ہیں، لوگوں کی امیدیں زیادہ ہیں، اور معاشرے میں دہرا معیار ہے“۔ دیکھا جائے تو حقیقت ہی یہی ہے۔
گزشتہ سال پاکستان سابقہ وزیر برائے موسمیات شیری رحمان کو ٹائم میگزین کی 2023 کے 100 بااثر افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ مصر میں منعقد ہونے ولی اقوام متحدہ کی موسمیاتی سربراہی کانفرنس COP27 میں، انہوں نے ان پسماندہ ممالک کی وکالت کی جو سب سے زیادہ خطرے سے دوچار ہیں۔ انکی کوششوں کا نتیجہ ایک تاریخی فیصلے کی صورت میں نکلا جہاں عالمی رہنماؤں نے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی مدد کے لیے ایک نئی loss and damage funding support قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ بات قابل فخر ہے۔
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے پاکستان کی قومی اسمبلی کی 18ویں سپیکر تھیں۔ وہ آج تک اس عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون تھیں، اور انہیں پاکستان کی تاریخ کی اعلیٰ ترین خاتون سیاست دان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایسی اور بھی باہمت اور قابل خواتین موجود ہیں جو ملکی سیاست میں درخشاں ستارے کی مانند ہیں۔
پرانی باتیں تو بہت ہوگئیں، یہ بات تو قابل افسوس ہے کیا نگران حکومت کی کابینہ میں کسی بھی خاتون کو شامل نہیں کیا گیا ماسوائے اسپیشل اسسٹنٹ کے طور پر مشعال ملک یا پھر عارفہ سیدہ کا نام سامنے آتا ہے۔ ایسے میں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پاکستان جینڈر ڈویلپمنٹ انڈیکس کی فہرست میں آخری تین ممالک میں شامل ہوتا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں خواتین کے رہنے کے اعتبار سے خطرناک ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے۔
خواتین ایسی بھی ہیں جو ان مشکلات کے باوجود عزم و ہمت کی پیکر بن کر سیاسی میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں بینظیر سے لیکر پی ٹی آئی کی خواتین پولیٹیکل ورکرز تک سب قابل ذکر ہیں اب چاہے حقوق سماجی ہوں یا سیاسی، خواتین ہر لحاظ سے خود کو تیار رکھنا سیکھ چکی ہیں مادر وطن کیلئے جدوجہد اور قربانیاں دینے والوں میں بینظیر کا اذیت کا دور پھر جلاوطنی سے لیکر انکی شہادت، سپیکر فہمیدہ مرزا کی قابلیت اور متعدد ایف آئی آرز کا سامنا، مریم نواز شریف بھی جوڈیشل ایکٹوازم، ادارہ جاتی جانبداری اور متعصبانہ لابنگ کا شکار ہوئیں۔ نتیجتاً انہیں جیل بھیج دیا گیا۔ انکے کے خلاف بدعنوانی کے درجنوں مقدمات بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے درج کیے گئے۔ راولپنڈی سے لے کر سپریم کورٹ تک شریف خاندان کی سیاست کے باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ عزائم بری طرح ناکام ہوئے اور بلاشبہ مریم نواز شریف نہ صرف ایک بہادر بیٹی بلکہ ایک آہنی خاتون ثابت ہوئیں جنہوں نے ہر ناانصافی اور سیاسی بددیانتی کا بہادری سے مقابلہ کیا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی سیاسی اڑان کے بعد منسٹری اور پھر قیدوبند کی صعوبتیں سب تاریخ کے اوراق پہ نقش ہیں اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی سیاست میں مشکلات کو کم کرکے ان کے لیے راہ ہموار کی جائے انہیں مواقع دئیے جائیں خواتین خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق رکھتی ہوں ان کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ نہ بنایا جائے صرف تبھی ہم ایک مہذب قوم کہلا سکتے ہیں سر بلند کرسکتے ہیں اور ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے خواتین کو ان کے سیاسی حقوق فراہم کردئیے ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے سفر طویل ہے اور انتخابات کا وقت قریب ہے۔ اس امتحان میں کون کون پاس ہوگا اس کا فاصلہ 8 فروری کو ہوگا جس کا ہم سب کو انتظار ہے۔
بشکریہ نئی بات
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں