ڈپریشن اور لوگوں کے روئیے ۔۔۔ عمر خان

پچھلے ماہ کی 22 تاریخ سے لے کر پرسوں 14 جون تک شدید ذہنی تناو کا شکار تھا۔ کوئی ایسا نہیں تھا جس پر اعتبار کر کے اپنا دل ہلکاکرتا یا ڈسکس کرتا۔ یہی لگ رہا تھا کہ کیا سوچے میرے بارے میں۔ کسی ایک سے باتوں باتوں کے دوران بات چھیڑی تو عجیبسٹوپڈ قسم کا رسپانس ملا (شکر تھا کہ اپنا نام لے کر مسئلہ نہیں بتایا)۔

اے ہو جئے لوگ ہوندے ای پاگل نے

ب چ اینا کما اچ رکھیا ای کی اے

دنیا کتھے دی کتھے ٹر گئی اے اینا نو ویکھ لو

اے دین تو دوری دا نتیجہ اے

چنگا ہویا، اونو کہو کوٹھے تو چھال مار دے

مزہ آیا ، پوری گل تے نہیں پتا پر سواد آیا۔

اے دنیا اے، ناول نہیں

یعنی سیریسلی و د ف۔ خیر جس ڈسکشن سے میرا خیال تھا میں شاید بہتر فیل کرو اس ڈسکشن نےکھوتا کھو اچ سٹ دتا۔ اسی تناؤکے چلتے کچھ فضول فیصلے لئے اور شدید فضول حرکت ڈالی 2 دن میں یکے بعد دیگرے (فضول اب کہہ رہا ہوں اس وقت میرےخیال میں اس سے بہتر آپشن نہیں تھا کوئی)۔

ایسا نہیں تھاکہ میرے حلقہ احباب میں سمجھدار لوگ نہیں۔ بلاشبہ ہیں۔ ان میں سے ایک کو تو میں نے موٹیوشنل سپیکر رکھا ہے اوروہ جب ضرورت ہو دستیاب بھی۔ لیکن اس وقت میں نے ذہنی تناؤ میں غلط بندے کا انتخاب کیا جس کے غیر ذمہ دارانہ اور غیرسنجیدہ رویے سے نقصان صرف اور صرف میرا ہوا۔

اب ہم اس شخص جو کسی بھی قسم کے ذہنی تناو کا شکار ہے  وہ بھلے Mild  ہو یا Acute ہو اس سے اس بات کی توقع کہ وہ کوئیدانشمندانہ کام کرئے گا سراسر فضول ہے۔ ہمارا مجموعی مسئلہ کیا ہے؟ ہمیں صرف اپنے مسئلے بڑے لگتے ہیں۔ کوئی اور ہم سے اپنیبات شئیر کرئے تو ہمارے لئے وہ تفریح بن جاتی ہے۔ ہم کیوں کسی کی بات سنجیدہ ہو کر سن نہیں سکتے؟ حل نہیں دے سکتے تو کماز کم اس کو گلے سے لگا سکتے ہیں۔ یاد رہے ذہنی دباو کے شکار کے لئے آپ کی ہمدردی یا ترس بہت خطرناک یا یہ کہہ لیں ٹریگر کاکام کر سکتا ہے۔ ڈیپریشن میں آدمی شاید بارود سے بھرے ڈرم پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اس پر ترس کھانا اس بارود کو چنگاری دکھانے جیساہو سکتا ہے۔

ہم میں سے کسی کو اگر سوئی بھی چبھ جائے تو ڈاکٹر کے پاس بھاگتا ہے کہ کہیں سوئی آلودہ نہ ہو انفیکشن نہ ہو جائے لیکن یہ جانتےہوئے کہ ہم anxiety یا ڈپریشن کا شکار ہیں کسی سائیکالوجسٹ کے پاس جانا تو دور اس بارے سوچتے بھی نہیں۔ کیوں؟؟؟ وہ اسلئے اگر کسی کو پتہ لگ گیا تو لوگ کیا سوچیں گے۔

2014 میں میری ایک کلائینٹ سائیکالوجسٹ تھی۔ اس کے گورنمنٹ سے متعلقہ کچھ مسائل تھے اور ان کے لئے مجھے کافی دنوں تکاس سے ملنا پڑا۔ ایک دن شاید کسی نے مجھے دیکھ لیا۔ گھر آنے پر بیگم سے سوال آیاکم از کم آپ کو مجھ سے تو بات کرنا چاہئیےتھی، ہم ساتھ جا سکتے تھے وہاںمیں حیران۔۔۔ پوچھاکہاں جا سکتے تھے بھئی؟جواب ملاوہاں ہی جہاں سے آپ کونسلنگلے رہے ہیں۔

میں سر پیٹ کر رہ گیا۔ لیکن ابھی جب میں واقعی اس فیز سے گزرا تو نکلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سےڈپریشن اتنا بڑھتا ہے کہ جان لے جاتا ہے۔

ہم کو بس اتنا کرنا ہے کہ اگر کوئی ہم پر اعتبار کر کے اپنا مسئلہ یا بھلے کسی اور کا مسئلہ شئیر کرے تو اس کا ٹھٹہ اڑانے یا غیر سنجیدہروئیے سے اجتناب کریں۔ اور اگر ہمارا کوئی اپنا ذہنی تناو کا شکار ہے تو اس کو آپ کی مدد چاہئیے ہمدردی یا ترس نہیں۔ اس کی مددکریں اس کے لئے معالج ڈھونڈیں اس کو کنوینس کریں۔ یہاں تھوڑے صبر اور تحمل کی ضرورت ہو گی کیونکہ ایسا ہر گز نہیں ہو گاکہ آپ کہیں گے اور وہ اٹھ کر چل پڑے گا۔

آج یہ ساری بات صرف اور صرف اس شخصیت کا شکریہ ادا کرنے کے لئے لکھی جس نے پرسوں آدھی رات کو میری بات تحملسے سنی، مجھے ٹوکا نہیں، مجھے ڈائریکٹ سمجھایا نہیں، مجھے ملامت نہیں کی بلکہ مجھ سے اس انداز میں مثالیں دے کر گفتگو کی کہ مجھےاندازہ ہی نہیں ہوا کہ کب جو بات پھانس بن کر اٹکی تھی وہ اڑنچھو ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہت بہت شکریہ آپ کا، یہ قرض رہا مجھ پر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply