• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رفیع الدین ہاشمی اور اسلم رسول پوری کی یاد میں/ناصر عباس نیّر

رفیع الدین ہاشمی اور اسلم رسول پوری کی یاد میں/ناصر عباس نیّر

پہلے رفیع الدین ہاشمی، پھر اسلم رسول پوری نے رخت سفر باندھا۔
ہاشمی صاحب نے اقبال کے مطالعے میں عمر بسر کردی۔اپنی زندگی کی متاع ،ا یک ہی موضوع ، خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو،کی نذر کرنا آسان نہیں ہے۔ آدمی میں طرح طرح کے گریز ، عجب قسم کی وحشتیں ہوتی ہیں، جو کئی قسم کے صحراؤں ، بیابانوں ، ویرانوں اور معلوم ونا معلوم دنیاؤں کا تقاضا کرتی ہیں۔اپنے گریز اور وحشت کو رام کر لینا ،اورایک مرکز سے دائمی طور پر وابستہ ہوجانا ،سہل نہیں ہے۔ ۲۰۱۰ء میں ان کے ہمراہ، میں نے ایران کا سفر کیا تھا۔ ہم کوئی دس دن ایران میں رہے ۔ وہ مسلسل حالت اطمینان میں رہتے ،یعنی اپنے ڈھب ،وضع ، طور ،طریق پر قائم رہتے۔ان کے کچھ طور بہت دل چسپ بھی تھے۔ان کاذکرکسی اوروقت۔
کل اسلم رسول پوری کے انتقال کی خبر پڑھی۔ اب تک دل اداس ہے۔ ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوسکی،جس کا دلی افسوس ہے۔ ا ن سے فون پر کئی بار بات ہوئی۔وہ صحیح معنوں میں ایک درویش طبع، کتاب دوست، علم میں غرق رہنے والے اور صلے سے بے نیاز ادیب تھے۔ علم میں غرق رہنے والے اکثر ہوتے ہیں، صلے سے بے نیاز رہنے والا کوئی کوئی ہوتا ہے۔
وہ اپنی سرائیکی تنقید کی کتابیں مجھے بھیجا کرتے۔ ان کی سرائیکی نثر کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی تھی۔سرائیکی میں یقیناً اور لوگ بھی تنقید للھ رہے ہوں گے مگر معاصر عالمی تنقید کی بصیرتوں سے ،سرائیکی تنقید کا دامن وسیع کرنے والے وہ تنہا نقاد تھے۔ انھوں نے مابعد جدیداور مابعد نو آبادیاتی تنقید کی روشنی میں سرائیکی ادب کے مطالعات کیے۔ کچھ عرصہ پہلے سرائیکی میں ہیئتی تنقید پر پوری کتاب لکھی ،جس کا پہلا حصہ نظری اور دوسرا حصہ عملی تنقید پر مبنی تھا۔ ارسطو کی بوطیقا کا بھی سرائیکی میں ترجمہ کیا۔ رسول پور نام کے ایک چھوٹے سے قصبے میں بیٹھ کر دنیا کے میٹروپولیٹن میں تشکیل پانے والے نظریا ت کو پڑھنا، سمجھنا اور پھر اپنی مادری زبان میں سب کو سمجھانا، معمولی بات نہیں ہے۔
خدا ان دونوں بزرگوں کے درجات بلند فرمائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply