وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔۔۔سید عزیزالرحمٰن

ہم نے سکول کے زمانے میں سن رکھا تھا کہ زندہ قومیں اپنی قوم کی خاطر جان کا نذرانہ دینے والوں کو یاد رکھتی ہیں ، لیکن ہماری یہ زندہ دلی   نجانے کب ختم ہوگئی، پتہ بھی نہیں چلا،یہ شاید اسی لیے کہ قربانی دینے والوں کی تعداد حد سے کچھ زیادہ ہوگئی کہ اس کا یاد رکھنا ممکن ہی نہیں رہا یا پھر یہ حس ہم  سے چھین  لی گئی ۔ مجھے نہیں معلوم، لیکن اس بار بھی 20 جنوری خاموشی سے گزر گئی۔۔چار سال پہلے کی 20 جنوری کی وہ صبح جب باچا خان یونیورسٹی میں چار درندے داخل ہوکر خون کی ہولی کھیلتےہوئے جہنم واصل ہوگئے لیکن اپنے ساتھ   تقریباً  20سے زائد علم کی شمعیں بجھادیں وہ شمعیں جن کے ساتھ ماؤں کی امیدیں وابستہ تھیں جنھیں بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والے باپ کا سہارا  بننا تھا۔جن کے ہونے کی وجہ سے بہنیں اپنے  روشن مستقبل کے خواب دیکھا کرتی تھیں ۔جن کی وجہ سے چھوٹے بھائی یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ ابھی بھائی کا آخری سال ہے اور پھر وہ سرکاری سکول کے بجائے کسی مہنگے پرائیوٹ سکول میں پڑھ سکے گا اور گاؤں والے بھی شاید ان کی اس وجہ  سے عزت کرتے تھے کہ وہ گاؤں میں پہلا پڑھا لکھا نوجوان تھا اور باچا خان یونیورسٹی میں پڑھنے سے علاقے میں امن  و آتشی اور عدم تشدد کی راہ پر چلتے ہوئے قوم کی خدمت کرے گا لیکن کسے معلوم تھا کہ ان کے نصیبوں میں 19 جنوری کے بعد 20 جنوری کا باب بھی لکھا گیا تھا ۔۔اور یہ دن، کئی  جانوں کے ساتھ ساتھ بے تحاشا اُمیدوں کا قتل بھی کرے گا۔

یہ واقعہ تو ہوگیا، دہشتگردوں نے شاید اگلے ہی دن ذمےداری بھی قبول کی تھی۔ہم نے اگلے دن سوگ کے نام پر چھٹی بھی کی تھی۔ سرکاری دفاتر میں قومی پرچم بھی سرنگوں رہا تھا۔ “شہداء   کے خون کو رائیگاں نہیں جانے دینگے، دہشتگردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے، مشکل کی اس گھڑی میں ہم ورثاء کے ساتھ ہیں ، دہشتگردوں کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں، اور ہم اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہیں ” جیسے بیانات بھی لگے تھے۔۔اسمبلیوں میں تعزیتی بل بھی پاس ہوئےتھے ہم ورثاء کے گھر پہنچنے میں ایک دوسرے پر سبقت بھی لیتے رہےتھے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے پریس کانفرنس بھی کرتے رہے، ہر شہید کے نام پر سکول بنانے کا عزم بھی کیا، دو تین دن اور شاید ایک ہفتے تک ٹاک شوز کا بھی یہی موضوع رہا تھا ۔بچنے والے طالب علموں کو پروگرام میں بلاکر ان سے واقعے کے  متعلق  بھی پوچھتے رہے۔ اور کچھ والدین کو ان کے بیٹے کی شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے کی مبارکباد   اور ہم سب آپ کے بیٹے ہیں، والی جھوٹی تسلیاں بھی دیتے رہے۔ورثاء کے ساتھ بہت سارے جھوٹے وعدے ہوتے رہے اور اس سے یقیناً ان کا درد کم ہوا ہوگا لیکن پھر کیا ہوا۔

اس کے بعد وہی ہوا جو ہماری روایت رہی ہے۔ہم آہستہ آہستہ سب کچھ بھولنے لگے، یہ تو بھلا ہو مارک زکربرگ کی ایجاد کا کہ جس کی یاداشت بہت تیز ہے اور بارہ بجتے ہی آپکو پچھلے سالوں کی یاداشت تازہ کروا دیتا ہے اور میرے ساتھ بھی یہی ہوا،ورنہ میرا تعلق بھی اسی قوم، قبیلے سے ہے جو بہت جلد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بھول جاتا ہے اور یہی ہمارا شیوہ رہا ہے، کیوں کہ ہم کوئی سانحہ، کوئی واقعہ کوئی زیادتی رونما ہوتے ہی سٹیٹس اپڈیٹ کرتے ہیں کچھ دنوں کے لیے کمنٹس میں اپنے  نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ غلیظ زبان میں بات کرتے ہیں اور کمنٹس باکس سرد پڑتے ہی کسی نئے سانحے، واقعے کی طرف نکل پڑتے ہیں  تاکہ اپنی ڈی پی اور سٹیٹس اپڈیٹ کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم اگر کچھ بھی نہیں کرسکتے تو کم ازکم ان والدین کے لیے، ان کے بچوں کی یاد میں، ایک تعزیتی پروگرام تو کرسکتے تھے، جس سے کم از کم ان کو یہ احساس تو ہوجاتا کہ ان کے بچوں کی شہادت یہ قوم ابھی تک بھولی نہیں کیوں کہ آج بھی ان کی مائیں دروازوں کو تکتی ہوں گی، لیکن شومئی  قسمت کہ ہمارے حکمرانوں کو جھوٹے وعدوں، کھوکھلے نعروں، اور بلندوبانگ دعوؤں سے فرصت نہیں ملتی اور ہم عوام اپنی ان جھوٹے آقاؤں کی “واہ واہ” اور “زندہ باد مردہ باد” میں مصروف، پھر شہداء چارسدہ کی یاد  میں کچھ لکھنے سے مجھے اپنا آپ بھی ناداں لگتا ہے اس لئے یہیں بات ختم کرنے لگا ہوں۔
اللہ ہمیں ائندہ ایسے  سانحات سے محفوظ فرمائیں ۔
آمین ۔

Facebook Comments

سید اعزاز الرحمٰن
خیبر میڈیکل یونیورسٹی سے طب کی سند مکمل کرنے میں مصروف ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply