جغرافیہ کے قیدی (14) ۔ چین ۔ ایغور/وہاراامباکر

تبت سے آگے چلیں تو پاکستان، تاجکستان اور کرغستان کے ساتھ سرحدیں ہیں جو بلند پہاڑوں میں ہیں اور پھر قازقستان اور پھر منگولیا۔ یہ قدیم شاہراہ ریشم ہے جہاں سے اس سلطنت کے باقی دنیا سے تجارتی رابطے تھے۔ قازقستان میں پہاڑ اور صحرا کے درمیان گیپ ہے اور یہ ممکنہ طور پر دفاع کا کمزور پوائنٹ ہو سکتا ہے لیکن قازقستان چین کے لئے خطرہ نہیں اور روس یہاں سے سینکڑوں کلومیٹر دور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سرحد کے ساتھ چین کے شمال مغرب میں چین کا صوبہ سنکیانگ ہے۔ یہ نیم خودمختار علاقہ ہے۔ یہاں کی آبادی ایغور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان کی زبان ترکی زبان کے خاندان کی ہے۔ اس کی سرحد آٹھ ممالک سے ملتی ہے۔ روس، منگولیا، قازقستان، تاجکستان، کرغستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا۔
یہاں پر ہمیشہ سے مسئلہ رہا ہے اور رہے گا۔ ایغور دو مرتبہ اپنی آزاد ریاست “مشرقی ترکستان” کا اعلان کر چکے ہیں۔ 1930 اور 1940 کی دہائی میں۔ انہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اپنے ہمسائیوں کو آزاد ہوتے دیکھا ہے۔ آزاد تبت تحریک سے سبق لئے ہیں اور کئی چین سے آزادی کے حق میں ہیں۔
یہاں پر 2009 میں نسلی فسادات پھوٹ پڑے جن میں دو سو سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ چین نے اس کا تین طریقے سے جواب دیا۔ پہلا یہ کہ اختلاف رائے کو بے رحمی سے کچلا۔ دوسرا یہ کہ یہاں پر پیسہ بہانا شروع کر دیا۔ تیسرا یہ کہ یہاں پر ہان مزدور بسانے شروع کر دئے۔ چین کے لئے یہ علاقہ سٹریٹجک لحاظ سے اتنا اہم ہے کہ آزادی کی کسی تحریک کو شروع کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہاں پر نہ صرف آٹھ ممالک کی سرحدیں ہیں بلکہ معدنیات بھی ہیں اور چین کے نیوکلئیر ہتھیاروں کو ٹیسٹ بھی یہیں کیا جاتا ہے۔
سنکیانگ میں نئی آبادیاں اور شہر بن رہے ہیں جن کی زیادہ تر آبادی ہان ہے۔ چینی حکومت یہاں نئی صنعتیں لگا رہی ہے۔ اور یہ سرمایہ کاری چین سے آبادی کو یہاں پر کھینچ رہی ہے۔ سنکیانگ کے دارالحکومت اڑمچی سے پچاسی میل کے فاصلہ پر نیا بسنے والا شہر شیہیزی اس کی مثال ہے۔ اس کی 650,000 آبادی میں سے 620,000 ہان ہیں۔ اڑمچی کی شاید چالیس فیصد آبادی اب ہان ہے۔ لیکن ایسے اعداد و شمار قابلِ اعتبار ذرائع سے ملنا دشوار ہے کیونکہ یہ حساس سمجھے جاتے ہیں۔
جرمنی میں عالمی ایغور کانگریس قائم ہے۔ ترکی میں مشرقی ترکستان کی آزاد کی تحریک۔ لیکن سنکیانگ کے پاس دلائی لامہ کی طرح کا لیڈر نہیں جو عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن سکے۔ اسلئے تبت کی طرح خبروں میں نہیں رہتا۔ چین یہاں کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات رکھتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کی آزادی کی تحریک کو کسی ہمسائے میں جگہ دینے کا افورڈ نہیں کر سکتا۔ بیجنگ علیحدگی پسندوں کو اسلامی دہشتگرد کے طور پر پیش کرتا ہے جس کے عالمی کالعدم تنظیموں سے روابط ہیں۔ لیکن یہ تحریکیں بنیادی طور پر نیشنلسٹ ہیں۔ تاہم، چین تبت یا سنکیانگ پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ یہاں پر علیحدگی کی تحریک چین کی سالمیت کے لئے خطرہ ہو گی۔
اور چین میں جمہوریت اور انفرادی حقوق کے بارے میں مزاحمت کی بھی یہ وجہ ہے۔ چین کو خدشہ ہے کہ اس سے چینی یکجہتی میں دراڑ آ سکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہو تو یہاں کے قدیم مسائل سر اٹھا سکتے ہیں جن میں دیہی اور شہری آبادی کے درمیان کی لڑاائی بھی ہے اور بفر زون میں ہونے والی گڑبڑ بھی۔ خارجی طاقتوں کی طرف سے چین کے استحصال اور ذلت کو ختم ہوئی صرف ایک صدی ہوئی ہے۔ بیجنگ کے لئے یکجہتی اور معاشی ترقی جمہوری اصولوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply