وعدوں، دعوؤں اور ہمدردی کا موسم/مظہر اقبال کھوکھر

ویسے تو چار موسم ہوتے ہیں۔ سردی گرمی خزاں اور بہار، مگر ہمارے ملک میں ایک پانچواں موسم بھی ہے۔ جسے الیکشن کا موسم کہا جاتا ہے۔ الیکشن کا موسم ہر پانچ سال بعد آتا ہے۔ ہاں اگر “محکمہ موسمیات” والے چاہیں تو یہ موسم جلدی بھی آ جاتا ہے۔ اور اگر ان کی مرضی اور منشاء یہی ہو تو کبھی کبھی دیر بھی ہو جاتی ہے جیسے اس بار الیکشن کا موسم تقریباً ایک سال کی تاخیر سے آیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے فطری موسم کی صورتحال کو دیکھ کر محکمہ موسمیات والے اپنی پیشین گوئی یا رائے دیتے ہیں۔ مگر یہاں ان کی جو مرضی، مفاد یا ضرورت ہو اس کے مطابق الیکشن کے موسم کا اعلان کر دیتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آج کل ملک میں الیکشن کا موسم چل رہا ہے۔ الیکشن کے موسم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ جیسے ہی شروع ہوتا ہے۔ ملک کے تمام چھوٹے بڑے عام اور خاص سیاست دان اپنے بنگلوں،کوٹھیوں محلات اور فارم ہاؤسز کو چھوڑ کر ایسے باہر نکلتے ہیں جیسے موسمی پرندے اچانک یلغار کر دیتے ہیں۔ یعنی جیسے سردی کا موسم شروع ہوتے ہی سائبیریا سے مختلف اقسام کے پرندے پاکستان کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور پھر جیسے ہی بہار آتی ہے تو یہ موسمی پرندے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ اسی طرح موسمی سیاستدان بھی انتخابات کا موسم شروع ہوتے ہی ملک کے ہر ہر گوٹھ، گاؤں، شہر، دیہات، قصبوں، گلی، محلوں، چوکوں چوراہوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر سائبیریا سے آنے والے موسمی پرندے تو یہاں آکر شکار ہو جاتے ہیں لیکن الیکشن کے موسم میں نکلنے والے سیاست دان یہاں شکار ہونے کے بجائے دوسروں کو شکار کرتے ہیں۔ یہ اپنے ووٹر کا اور عام لوگوں کا شکار کرتے ہیں۔ البتہ گھونسلے بدلنے اور علاقے بدلنے کے حوالے سے یہ بھی موسمی پرندوں کی طرح ہیں۔ انتخابی موسم میں تو خاص طور پر جدھر یہ زیادہ دانہ دنکا دیکھتے ہیں ادھر اڑان بھر لیتے ہیں۔

الیکشن کے موسم کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس موسم میں نہ صرف سیاستدان باہر نکلتے ہیں بلکہ ہمدردی بھی اس طرح کرتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر اس ملک اور قوم کا کوئی ہمدرد نہیں ہے۔ ان دنوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ لوگوں کی فوتیدگیوں اور قل خوانیوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اتنی جلدی تو اپنے رشتہ دار نہیں پہنچتے جتنی جلدی سیاستدان پہنچ جاتے ہیں۔ بلکہ یہاں تک کہ کئی سال پہلے فوت ہو جانے والوں کی فاتحہ خوانی بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ جنہیں اپنے لواحقین بھی بھول چکے ہوتے ہیں۔

اسی طرح انتخابی موسم میں نظر آنے والے موسمی ہمدرد، ہمدردی تو کرتے ہی ہیں ساتھ خدمت خلق اور ملک و قوم کی قسمت بدلنے کے بڑے بڑے دعوے بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی یہ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگاتے ہیں، کبھی ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے دعوے کرتے ہیں کبھی سب سے پہلے پاکستان کا راگ الاپتے ہیں، کبھی صنعتی اور کبھی زرعی انقلاب لانے کے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ آج کل انتخابی موسم ہونے کی وجہ سے ایسا ہی کچھ ماحول بنا ہوا ہے۔ سیاست دانوں کی طرف سے ایک سے بڑھ کر ایک بڑا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ کوئی کہتا ہے ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ کوئی 30 لاکھ گھر بنانے کی بات کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے دو سو یونٹ تک بجلی مفت دیں گے اور کوئی 300 یونٹ مفت دینے کی بات کر رہا ہے۔ کوئی تعلیم صحت اور روزگار کے بڑے بڑے دعوے کر رہا ہے اور کوئی مہنگائی کم کرنے کے اعلانات کر رہا ہے۔ ان تمام دعوؤں، وعدوں اور اعلانات کو دیکھ کر ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اس وقت ان پر عمل درامد کیوں نہیں کیا جاتا جب حکومت میں ہوتے ہیں۔ حالانکہ پچھلے 35 سال سے یہ تمام جماعتیں یکے بعد دیگرے بر سر اقتدار چلی آرہی ہیں۔ مگر پھر یاد آتا ہے کہ یہ الیکشن کا موسم ہے اور الیکشن کے موسم میں جھوٹ اور سچ کا فرق باقی نہیں رہتا۔ اس لیے تو کہتے ہیں کہ چائنا کے سودے اور الیکشن کے وعدے پر کبھی اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کون سی جماعت اپنے منشور کے حوالے سے کتنی سنجیدہ ہے اور اس کا منشور کتنا قابل عمل ہے اس کا اندازہ اس کی سابقہ کارکردگی کو دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ موجودہ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ماضی میں کئے گئے اعلانات اور قوم کی موجودہ حالت زار کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آج کل ہونے والے وعدوں، دعوؤں اور اعلانات کا مستقبل میں کیا حشر ہونے والا ہے۔
ہر موسم کا خاص دورانیہ ہوتا ہے۔ آتا ہے اور گزر جاتا ہے۔ اس لیے ہر موسم سے لطف اندوز ہونے کی عادت بنا لینی چاہیے۔ الیکشن کا موسم اور وعدوں اور دعوؤں کا یہ موسم بھی اب چند روز کا مہمان ہے۔ 8 فروری کے بعد نہ یہ موسم ہوگا اور نہ ہی موسمی سیاستدان نظر آئیں گے۔ البتہ وہ ہی بھوک، غربت، بیروزگاری، مہنگائی، لوڈشیڈنگ، مشکلات اور مسائل ہونگے اور آپ خود ہونگے۔ ایسی صورت میں مفاد پرست موسمی لوگوں خاطر اپنے قریب کے لوگوں کے ساتھ تعلقات خراب نہ کریں۔ اختلاف ضرور کریں مگر احترام کا دامن نہ چھوڑیں۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply